کرونا کی وباء کے دنوں میں میرے عزیز دوست ندیم افضل چن صاحب کا ادا کردہ ایک فقرہ بہت مشہور ہوا تھا۔ موصوف ان دنوں سابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہوا کرتے تھے۔ غالباََ کسی سرکاری بریفنگ کی بدولت کرونا کی وجہ سے ممکنہ تباہی اور نقصانات سے آگاہ ہوئے تو گھبراہٹ میں اپنے ذاتی معاون کو فون ملادیا۔ مقصد اس فون کا معاون کو یہ سمجھانا تھا کہ وہ ندیم صاحب کے دوستوں اور حامیوں کو سخت احتیاط برتنے کے مشورے دے۔ فرطِ جذبات میں ایک مقام پر پکار اْٹھے "مختیاریا گل ودھ گئی اے پر حکومت دسدی نئی پئی"۔
برسوں سے میں سرکاری بریفنگوں میں بلایا نہیں جاتا۔ وزراء اور دیگر سیاستدانوں سے میل ملاقات کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔ عملی صحافت سے واقعتا ریٹائر ہوچکا ہوں۔ اس کے باوجود آج کے کالم کے ذریعے قوم کو متنبہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات سلجھنے کے امکانات معدوم سے معدوم تر ہورہے ہیں۔ حکومت مگر رعایا کو "دسدی نئی پئی"۔
"گل ودھ گئی اے" والی دہائی مچاتے ہوئے میں بے بنیاد افواہ سازی کا ارتکاب نہیں کررہا۔ میرے خدشات کی ٹھوس وجہ ہمارے ایک محنتی اور نوجوان ساتھی شہباز رانا کی دی وہ خبر ہے جو منگل کی صبح اْٹھتے ہی میں دوبار غور سے پڑھنے کو مجبور ہوا۔ اس خبر کی بدولت علم ہوا کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے نہ ہونے سے گھبرا کر وزیر اعظم پاکستان نے گزرے ہفتے کے روز آئی ایم ایف کی سربراہ سے براہ راست ٹیلی فون پر گفتگوکی تھی۔
دونوں کے مابین جو گفتگو ہوئی اس کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں۔ محض صحافتی تجربے کی بنیاد پر تاہم یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ آئی ایم ایف کی خواہش تھی کہ مذکورہ گفتگو کے کلیدی نکات پاکستانی عوام کے روبرو لائے جائیں۔ اسی باعث آئی ایم ایف کے اسلام آباد میں تعینات نمائندے نے معمول سے ہٹ کر پیر کے دن ایک بیان جاری کردیا۔ وہ بیان خلاف معمول اس لئے بھی تھا کیونکہ موضوع اس کا پاکستان کی معیشت ہی نہیں سیاسی معاملات بھی تھے۔ موصوف نے فرمایا کہ "ہم (یعنی آئی ایم ایف)" پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر رونما ہوئے حالیہ واقعات پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔
تکلفاََ یاددلایا کہ ان کا ادارہ کسی ملک کی داخلی سیاست پر تبصرہ آرائی کا عادی نہیں۔ اس کے باوجود امید کا اظہار کیا کہ پاکستان اپنی سیاسی مشکلات کا "آئین اور قانون کی روشنی" میں"پرامن حل" ڈھونڈ کر آگے بڑھنے کی راہ بنائے گا۔ "پرامن پیش رفت" ان الفاظ کا مناسب ترجمہ ہوسکتا ہے جو ناتھن پورٹر نے انگریزی زبان میں استعمال کئے۔ آئی ایم ایف کے پاکستان میں تعینات نمائندے نے "Peaceful Way Forward" کی امید باندھی۔ مذکورہ امید کے اظہار کے لئے استعمال ہوئے الفاظ اگرچہ تاثر یہ دیتے ہیں کہ پاکستان "خانہ جنگی" جیسے حالات کا سامنا کررہا ہے جن کا "پرامن حل" ڈھونڈنا واجب ہے۔ اس تناظر میں آئین اور قانون کی بالادستی کا بھی ذکر ہوا۔
مذکورہ الفاظ کے استعمال نے مجھے چونکایا نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں پریشان کردیا۔ پریشانی بالآخر تلخ ہوتی اشتعال دلانا شروع ہوگئی۔ جی چاہاکہ کسی طرح ناتھن پورٹر صاحب کا ٹیلی فون نمبر معلوم کروں۔ اس سے گریز بہتر ہے تو ٹویٹر یا ای میل لکھ کر موصوف سے یہ جاننے کی کوشش کروں کہ جن دنوں پاکستان جنرل ضیاء اور جنرل مشرف جیسے آمروں کی قیادت میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تسلی کے لئے "افغان جہاد"اور بعدازاں"دہشت گردی کے خلاف " جنگ میں مصروف تھا تو پاکستان میں"آئین اور قانون کی بالادستی" کس حال میں تھی۔
پاکستان کے علاوہ مصر نام کا ایک ملک بھی ہے۔ ہماری دھرتی کے ایک ذہین فرزند رضا باقر کی نگہبانی میں آئی ایم ایف نے اس کی معیشت سنوارنے کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس ملک میں"آئین اور قانون کی بالادستی" پاکستان کے مقابلے میں ہرگز قابل ستائش وتقلید نہیں۔ فوج سے سیاست کی جانب براہ راست منتقل ہونے کے بعد وہاں کے صدر جس انداز میں"منتخب" ہوئے اس کا تذکرہ ضروری نہیں۔ محض صحافی کی حیثیت میں البتہ یہ معلوم کرنا چاہوں گا کہ قاہرہ میں تعینات آئی ایم ایف کے نمائندے نے کتنی بار حکومتِ مصر کو "آئین اور قانون کی بالادستی" یاد دلائی ہے۔ وہاں"اخوان المسلمین" کے نام سے ایک سیاسی جماعت تقریباََ ایک صدی قبل قائم ہوئی تھی۔ اس کے سرکردہ رہ نما ان دنوں جیلوں میں ہیں یا ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔ وہاں کے سیاسی مسائل کے حل کے لئے پرامن پیش رفت کی توقع مگر آئی ایم ایف برسرعام باندھنے سے گریز کررہا ہے۔
طیش کی وجہ سے میرے ذہن میں جو ابال اٹھا تھا جب بیٹھ گیا تو میں"حقیقت پسند" ہوگیا۔ نوجوانی کے دنوں میں احمد ندیم قاسمی صاحب کا لکھا ایک شعر بھی یاد آیا جو پاکستان جیسے ممالک کی "بے وقار آزادی" کا نوحہ خواں ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب "بے وقار آزادی" سے اکتا گئے تھے۔ اقتدار میں آنے سے قبل اسی باعث عوام سے وعدہ کرتے رہے کہ وہ پاکستان کی مشکلات کے حل کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے بجائے "خودکشی کو ترجیح دیں گے"۔
اپنی حکومت کا پہلا بجٹ تیار کرنے کے لئے تاہم انہیں اپنے لاڈلے "ارسطو" یعنی اسد عمر صاحب کو قربان کرنا پڑا۔ ان کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ تعینات ہوئے تو آئی ایم ایف ہماری معیشت کو سہارا دینے کے لئے تین سالہ معاہدہ کرنے کو آمادہ ہوا۔ مذکورہ معاہدہ ہمارے عوام کی اکثریت کے لئے ناقابل برداشت ہوگیا تو شیخ صاحب کے بجائے شوکت ترین تعینات ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان کے حکم پر انہوں نے بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخ بڑھانے کے بجائے منجمد کردئیے۔ آئی ایم ایف نے ناراض ہوکر ہماری امداد سے ہاتھ اٹھالئے۔
سوال اٹھتا ہے کہ "پرامن پیشرفت" کی خاطر موجودہ حکومت نے اگر عمران خان سے رجوع کیا تو وہ آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط تسلیم کرنے کو رضا مند ہوجائیں گے یا نہیں۔ میرا جواب نہیں میں ہے۔ پاکستان کی سیاست کو ہیجان میں مبتلا رکھتے ہوئے ہی وہ فقط حکومت ہی نہیں بلکہ ریاست کو بھی دیوار سے لگارہے ہیں۔ انہیں فوری انتخاب درکار ہیں۔ اس سے کم کسی بات پر وہ رضا مند نہیں ہوں گے۔
آئی ایم ایف کو "آئین کی بالادستی "واقعتا مقصود ہے تو موجودہ قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت رواں برس کے اگست میں ختم ہونا ہے۔ آئی ایم ایف تاہم اس سے قبل ہی "پرامن پیش رفت" کا متقاضی ہے۔ اس کے باوجود یہ وعدہ کرنے کو بھی آمادہ نہیں کہ فرض کیا وقت سے قبل انتخاب ہوجائیں۔ اس کے نتیجے میں عمران خان وزارت عظمیٰ کے منصب پر واپس لوٹ آئیں تو پاکستان کی معیشت کے لئے آئی ایم ایف کا تیار کردہ نسخہ استعمال کے لئے بحال کردیا جائے گا یا نہیں۔
"گل" یقینا "ودھ" چکی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا میڈیا اس جانب توجہ ہی نہیں دے رہا۔ مناسب توجہ کی بدولت ہی ہم آئی ایم ایف کے "خلاف معمول بیانات" کی حقیقی وجوہات جان پائیں گے۔