وائٹ ہائوس میں یوکرین کے صدر کو کیمروں کے سامنے بٹھاکر امریکی صدر اور نائب صدر نے اپنے اتحادی، کی جو بے عزتی کی وہ کئی پہلوئوں سے توجہ کی طالب ہے۔ فی الوقت مگر میں گھر کی فکر میں، مبتلا ہوں۔ اسلام آباد سے ایک گھنٹے سے بھی کم کی مسافت پر نوشہرہ جاتے ہوئے ہمارے دائیں ہاتھ عالمی سطح پر مشہور ہوا ایک مدرسہ آتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے چند ہی ہفتوں بعد قائم ہوئے اس مدرسے کا نام مولانا عبدالحق سے منسوب ہے۔ ان کی نگرانی میں دینی تعلیم سے مستفید ہوکر بے تحاشا افراد نے اپنی قبائلی شناخت ترک کرکے خود کو حقانی، کہلوانے کو ترجیح دی۔
امریکا کی نائن الیون کے بعد افغانستان پر مسلط کردہ 21 سالہ طویل جنگ کے دوران حقانی، کہلواتے گروہ کو ایک متشدد نیٹ ورک، ٹھہرادیا گیا۔ مجھ جیسے پاکستانی عالمی میڈیا پر نابغے تصور ہوتے تبصرہ نگاروں کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ طالبان اور حقانی، دو مختلف گروہ تو ہوسکتے ہیں مگر نظریاتی اعتبار سے ان میں قابلِ ذکر اختلافات موجود نہیں ہیں۔ دونوں ہی دیوبند میں پروان چڑھی تشریحِ اسلام پر کاربند ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملحق افغان علاقوں میں حقانی، کثیر تعداد میں موجود تھے۔ اسی باعث انھیں پاکستان کے دفاعی اداروں کے لیے خاص، ٹھہرایا گیا۔ انھیں طالبان سے زیادہ متشدد اور القاعدہ کے حلیف بھی گردانا گیا۔ اسی گروہ کے سراج ا لدین حقانی نے دوحہ مذاکرات کے دوران نیویارک ٹائمز کے صفحۂ اول پر ایک طویل مضمون لکھا۔ نام نہاد متشدد دہشت گرد، وہ مضمون لکھنے کی بدولت صلح جو دانشور، محسوس ہونے لگا۔
دوحہ مذاکرات کے نتیجے میں طالبان بالآخر فاتح کی صورت افغانستان لوٹ آئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ کابل میں موجود اہم ترین وزارتیں مگر حقانیوں نے ہتھیالی ہیں۔ اس ضمن میں سراج الدین حقانی کا وزارت داخلہ پر فائز ہونا تواتر سے یاد دلایا جاتا رہا۔ موصوف کی طاقت کو اجاگر کرتے ہوئے درحقیقت پیغام یہ دیا جاتا رہا کہ کابل میں طالبان نہیں بلکہ حقانی، اقتدار میں واپس آئے ہیں اور مبینہ طورپر وہ ہدایات، قندھار میں براجمان امیر المومنین سے نہیں بلکہ اسلام آباد سے لے رہے ہیں۔
حقانیوں کے ساتھ مل کر افغان جہاد میں متحرک رہے پاکستانی طالبان مگر کابل سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ہمارے ریاستی اداروں کو نشانہ بنانا شروع ہوگئے۔ طالبان حکومت نے ان پر قابو پانے میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ اس کالم کے باقاعدہ قارئین گواہ ہیں کہ امریکی افواج کی افغانستان سے رخصت کے قریب میں بدنصیب تواتر سے خبردارکرتا رہا کہ غلامی کی زنجیریں توڑنے، کا جشن نہ منایا جائے۔ خواجہ آصف کو بھی ان دنوں اپوزیشن میں ہونے کے باوجود طالبان کی کابل واپسی پر خود فریب سرشاری سے گریز کرنا چاہیے تھا۔
1986ء سے 2002ء تک متعدد بار افغانستان گیا ہوں۔ وہاں کے بازاروں میں گھومتے اور عام لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے دریافت کیا کہ افغان عوام کی بے پناہ اکثریت باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ہر پاکستانی کو پنجابی، پکارتی ہے۔ ہمیں وہ اپنی مشکلات کا حقیقی ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اس امر پر مصر بھی کہ افغانستان کو جنگ میں جھونک کر، پاکستان نے اپنی معیشت کو سنوارا۔ دفاع کو مضبوط تر کیا۔
بدقسمتی سے یہ حقیقت ہمارے نام نہاد مین سٹریم میڈیا نے پاکستانیوں کے روبرو رکھنے کی کوشش ہی نہیں کی، افغان باقی، کہسار باقی، کا راگ ہی الاپتے رہے۔ 2021ء میں لیکن طالبان فاتح کی صورت کابل لوٹے تو بتدریح ہم افغان عوام پر احسان فراموشی، کا الزام لگانے لگے۔ افغان احسان فراموش، کیوں ہیں؟ یہ سوال سنجیدگی سے میڈیا میں زیر بحث نہیں آیا۔ ٹک ٹاک کی نقالی میں مصروف صحافی، اڈیالہ سے شروع ہوکر اڈیالہ پر ہر کہانی ختم کردیتے ہیں۔ شیر افضل مروت میسر ہوجائیں تو ریٹنگ کادائو بھی لگ جاتا ہے۔ افغانستان میں کئی دنوں سے جو کھچڑی پک رہی تھی اس پر غور کی ضرورت ہی کسی نے محسوس نہیں کی۔
نقارخانے میں طوطی کی آواز والے امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی اصرار کروں گا کہ جمعہ کے روز دارلعلوم حقانیہ کے مدارالمہام مولانا حامد الحق کی خودکش بمبار کے ہاتھوں شہادت افغانستان میں کئی دنوں سے تیزتر ہوئے مسلکی اختلافات کا دل دہلا دینے والا اظہار ہے۔ ان کے ظالمانہ قتل کو چند ہی روز قبل انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے خلیل حقانی کے انجام کے ساتھ ملاکر دیکھنا ہوگا۔ کتنی بار ہمارے میڈیا نے ہمیں بتایا ہے کہ طالبان حکومت کے کون سے اہم ترین وزیر ان دنوں کابل کے بجائے وہاں سے یکے بعد دیگرے کھسک کر کونسے خلیجی ممالک میں بیٹھے کس وقت کا انتظار کررہے ہیں۔
پیچیدہ معاملات کو مختلف انٹرنیٹ پلیٹ فارموں کے ذریعے سمجھنے والے باشعور، نوجوان جن کے Bulgeسے ہمارے کئی دانشور شاداں محسوس کررہے ہیں ارتکاز توجہ سے قطعاً محروم ہوچکے ہیں۔ ان کا Attention Span(وقت توجہ) ڈیڑھ سے دو منٹ تک محدود ہے۔ اسی سے کام لیتے ہوئے مولانا حامد کا گناہ، محض یہ بتایا گیا ہے کہ انھوں نے متعدد علماء کے ساتھ مل کر ایک اجتماعی یادداشت پر دستخط کیے تھے جو افغان خواتین کو تعلیم کا حق دینے کا تقاضا کرتی ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ افغانستان میں وہ کون سی قوت ہے جو افغان خواتین کو اس حق سے شرعی جواز، کے ساتھ محروم رکھنا چاہتی ہے۔ ایسے افراد کی صف اوّل میں افغانستان کے امیر المومنین، ہیبت اللہ اخوندزادہ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ محض داعش ہی نہیں بلکہ افغانستان کے مشرق میں متحرک کئی سلفی، کہلاتی تنظیمیں بھی خواتین کو اس حق سے محروم رکھنا اپنا دینی فریضہ، تصور کرتی ہیں۔
اہم ترین مسئلہ مگر قندھار اور کابل، کے مابین فکری اختلافات ہیں۔ قندھار اور کابل، کے فکری اختلافات کوئی انوکھی بات نہیں۔ 1970ء کی دہائی میں افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی بہت طاقتور تھی۔ اس کے بھی مگر دو دھڑے ہوئے۔ ایک کا نام تھا خلق اور دوسرا تھا پرچم۔ دونوں ہی ماسکونواز تھے۔ اس کے باوجود اپریل 1978ء کا کمیونسٹ انقلاب، آیا تو قندھار سے ابھرے نور محمد ترکئی نے انتہا پسندانہ سوچ کے ساتھ افغان ثقافت کو نظرانداز کرتے ہوئے کمیونزم، کا سختی سے نفاذ چاہا۔ اس کی لگائی آگ ٹھنڈا کرنے کے لیے خلق ہی سے حفیظ اللہ امین ابھرا۔ وہ بھی مگر کابل، سے وابستہ پرچم، کا دل جیتنے میں ناکام رہا۔ بالآخر دسمبر 1979ء میں روسی فوج کو خود کابل میں داخل ہوکر پرچم کے ببرک کارمل کو اقتدار میں لانا پڑا۔
قندھار اور کابل، اب سخت گیر مسلمان ہیں۔ اسلام کے عملی نفاذ کے حوالے سے مگر ان کے مابین اختلافات شدید سے شدید تر ہورہے ہیں۔ مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت کو اس تناظر میں دیکھتے ہوئے آپ کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ نوشہرہ اسلام آباد سے کتنا دور ہے۔