اتوار کے روز گھر آئے اخبارات پڑھتے ہوئے انگریزی اخبار "ڈان" کے سنڈے ایڈیشن تک پہنچا تو خوش گوار حیرت ہوئی۔ اس کے صفحہ اوّل پر ایک کتاب کے اقتباسات چھپے تھے۔ کتاب کا عنوان تھا: "مائی ڈئر جناح"۔ مصنف اس کے سلمان فاروقی تھے۔ مصنف کا نام دیکھتے ہی میں چونک گیا۔
آپ میں سے چند لوگوں کو یاد ہوگا کہ سلمان صاحب 1980ء کی دہائی کے وسط سے بہت بااثر افسر مشہور ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اسلام آباد میں 1975ء سے رہائش پذیر ہونے کے باوجود مگر ان سے براہ راست شناسائی استوار کرنے میں مجھے بہت دیر لگی۔ اسلام آباد کے "باخبر" صحافی اور سیاستدانوں کا ایک بڑاگروہ اگرچہ سلمان صاحب کی ذہانت کو ہمیشہ منفی انداز میں بیان کرتا۔
انہیں ایک ایسے سرکاری افسر کے طورپر پیش کیا جاتا جو اقتدار میں موجود طاقتور ترین افراد کے "قریب ترین" ہونے کے "ہنر" سے مالامال ہیں۔ مبینہ "ہنر" کو بدعنوانی کی کلید بھی تصور کیا جاتا ہے۔ سلمان صاحب کے بارے میں بھی لہٰذا 1988ء سے 1999ء کے درمیان آئی اور گئی ہر حکومت کے حوالے سے بے تحاشہ کہانیاں پھیلتی رہیں۔ ان کے بارے میں داستان گوئی کے عادی افراد میں سے لیکن کوئی ایک شخص بھی بارہا وعدوں کے باوجود کوئی ایسی دستاویز فراہم نہ کرپایا جو مجھے ان کے خلاف "غضب کرپشن کی عجب کہانی" بیان کرنے کو راغب کرتا۔
سلمان صاحب کی ذات اور ان کا بطور سرکاری افسر ہماری ریاست کی فیصلہ سازی میں نمایاں کردار آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ ان کی ابھی مارکیٹ میں نہ آنے والی کتاب کے جو اقتباسات اتوار کی صبح پڑھے ہیں وہ 1985ء سے 1988ء کے برسوں تک محدود تھے۔ ان دنوں محمد خان جونیجو ہمارے وزیر اعظم تھے۔ جونیجو صاحب کی بطور وزیر اعظم نامزدگی اور بعدازاں اپنے ہی "خالق" یعنی جنرل ضیاء کے ہاتھوں برطرفی پر ہمارے ہاں بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ میری خوش بختی کہ آٹھ برس کے طویل مارشل لاء کے بعد جب جنرل ضیاء نے "غیر جماعتی انتخابات" کے ذریعے "جمہوریت کو بحال" کرنے کا فیصلہ کیا تو میں ان دنوں ضرورت سے زیادہ متحرک اور متجسس رپورٹر تھا۔
اسلام آباد سے شائع ہونے والے روزنامہ "دی مسلم" کا رپورٹر ہونے کے علاوہ اسی اخبار میں سفارتی تقریبات کے بارے میں ایک کالم بھی لکھتا تھا۔ میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے نوتشکیل شدہ قومی اسمبلی کی کارروائی رپورٹ کرنے کے بجائے اس کے بارے میں پریس گیلری لکھنے کا موقع دیا جائے۔ تکا لگ گیا تو بتدریج یہ کالم ہمارے اخبار کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالموں میں شمار ہونے لگا۔ کئی لوگ یہ سوچنا بھی شروع ہوگئے کہ مذکورہ کالم کو پڑھتے ہوئے کسی حکومت کے ثبات یا بے ثباتی کی بنیادیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ میں نے اگرچہ اس کالم کو برجستہ ہی لکھا اور ایوان ہائے اقتدار میں جو نظر آتا اس کے محرکات کی تلاش میں بے قرار رہتا۔
سلمان صاحب کی کتاب کے اقتباسات پڑھتے ہوئے مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے جونیجو مرحوم کے عروج وزوال کے جو اسباب بیان کئے ہیں میں انہیں اقتدار کے ایوانوں تک براہ راست رسائی نہ ہونے کے باوجود عین اسی انداز میں اپنے کالموں میں بیان کرتا رہاہوں جو سلما ن صاحب نے اپنی کتاب میں اختیار کیا ہے۔
1985ء کے انتخاب کے بعد فوجی وردی پہنے صدر ضیا کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ "غیر جماعتی" بنیادوں پر تشکیل ہوئی قومی اسمبلی کے جس رکن کو بھی چاہے وزیر اعظم نامزد کردے۔ یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ وردی پہنا صدر جس شخص کو بھی نامزد کرے گا اسے قومی اسمبلی کے بقیہ اراکین "جسے پیا چاہے، " سوچتے ہوئے اعتماد کا ووٹ "حاضر جناب"پکارتی جی حضوری سے فراہم کردیں گے۔ انتخاب ہوگئے تو اسلام آباد میں افواہیں یہ پھیلیں کہ "مقتدرہ" کے قریب ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے میر ظفر اللہ جمالی یا الٰہی بخش سومرومیں سے کسی ایک کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر نامزد کیا جائے گا۔ مجھے مگر یہ محسوس ہونا شروع ہوا کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیا سندھ کو رام کرنے کی غرض سے پیرپگاڑا کے ناز اٹھانا شروع ہوگئے ہیں اور شاید ان کا نامزد کردہ کوئی شخص ہی جنرل ضیا کا بھی چہیتا بن جائے گا۔
یہ سوچتے ہوئے میں نے پیرپگاڑا تک رسائی کی کوششیں شروع کردیں۔ کئی دنوں کی مشقت کے بعد ان تک رسائی نصیب ہوئی تو موصوف پھکڑپن سے سوالات ٹال جاتے یا اکثر رات گئے کرسی کی پشت پر الٹی سمت سے سررکھے جمائیاں لینا شروع کردیتے۔ ایک دن میں ان کے ہاں عصر کے وقت بیٹھا تھا تو ایک صاحب ان کے کمرے میں ننگے پائوں داخل ہوئے۔ پیر صاحب نے ان کا تعارف کرواتے ہوئے محض یہ کہا کہ ان کا نام محمد خان جونیجو ہے اور یہ "ہماری طرف سے" قومی اسمبلی میں آئے ہیں۔ یہ کہنے کے بعد انہوں نے مجھے یہ کہتے ہوئے رخصت کردیا کہ انہیں اپنے مہمان سے علیحدگی میں کوئی بات کرنا ہے۔
جس انداز میں جونیجو صاحب پیرپگاڑا کے کمرے میں داخل ہوئے اور ان کے آتے ہی جس عجلت میں پیر صاحب نے مجھے اپنے گھر سے "نکالا" اس نے میرے متجسس ذہن کو محمد خان جونیجوکے بارے میں"مزید" کھوج لگانے کو مجبور کردیا۔ اس تناظر میں مرحوم چودھری انور عزیز میرے بہت کام آئے۔ 1962ء کی قومی اسمبلی میں وہ اور جونیجو ون یونٹ کے تحت مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن تھے۔ جونیجو صاحب کو وزیر ریلوے بھی بنایا گیا تھا۔ ان کے ساتھ ایک وزیر میاں محمد یٰسین وٹو بھی ہوا کرتے تھے جو صوبے کے وزیر تعلیم تھے۔ چودھری صاحب کی بدولت مجھے یہ علم بھی ہوا کہ وٹو صاحب کی جونیجو صاحب سے ان دنوں کافی قربت تھی۔ یہ "ٹپ"ملتے ہی میں یٰسین وٹو کی تلاش میں نکل گیا اور ان سے مزید معلومات کے حصول کے بعد اپنے تئیں یہ فرض کرلیا کہ سانگھڑ کے "سنڈھری" علاقے سے ابھرے محمد خان جونیجو وزیر اعظم نامزد ہورہے ہیں۔
جونیجو صاحب نامزد ہوگئے تو حلف اٹھاتے ہی اعلان کردیا کہ "مارشل لاء اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے"۔ میں نے اس فقرے کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے کالم میں یہ بڑھک لگادی کہ جنرل ضیاء کو جونیجو مرحوم کی صورت "اپنا ہی جنرل ضیاء مل گیا ہے"۔ میرے فقرے سے بہت تھرتھلی مچی۔ "جمہوریت" مگر حال ہی میں بحال ہوئی تھی۔ فقرہ میرا ویسے بھی انگریزی اخبار میں چھپا تھا۔ اس لئے "بچت " ہوگئی۔ اقتدار سنبھالنے کے پہلے دن سے جونیجو صاحب کو نامزد کرنے والے جنرل ضیاء اپنے فیصلے سے پچھتانا شروع ہوگئے اور بالآخر 28مئی 1988ء کے دن انہوں نے جونیجوصاحب کو آٹھویں ترمیم کے اختیارات کے ساتھ گھر بھیج دیا۔ اس کے بعد مگر خود بھی اگست 1988ء میں فضائی حادثے کی نذر ہوگئے۔
بحیثیت رپورٹرجونیجو مرحوم اور جنرل ضیاء کے مابین بڑھتی خلیج کو میں اپنے اخباری کالم میں تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ کرتا رہا ہوں۔ سلمان فاروقی صاحب نے پس پردہ کہانیاں بیان کرتے ہوئے ان اختلافات کی کلید ریاست کے اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کی وجہ سے بآسانی سمجھادی ہے۔ میری دانست میں"کلیدی" پیغام یہ ہے کہ اقتدار واختیار پر "مقتدرہ" کو کامل اجارہ درکار ہوتا ہے۔ کوئی وزیر اعظم اس "اجارہ" سے چھیڑچھاڑ کی جرات کرے تو جونیجو مرحوم کی طرح بے تحاشہ ایماندار اور قومی وسائل کے زیاں کے بارے میں کنجوسی کی حد تک محتاط ہونے کے باوجود گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں وزیر اعظم کی "نوکری" قبول کرنے والوں کو یہ حقیقت ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا ہوگی۔