بولنے سے پہلے سوچنے کی ہمیں عادت نہیں۔ غالباََ اسی باعث میری ماں جیسی سادہ اور مہربان عورتیں اپنے بچوں سے دردمندانہ فریاد کرتیں کہ کوئی لفظ ادا کرنے سے پہلے ہمیشہ یاد رکھو کہ "قبولیت" کی گھڑیاں بھی ہوا کرتی ہیں۔ جس خواہش کا فی الوقت غصہ سے مغلوب ہوکر اظہار کررہے ہو "قبول" بھی ہوسکتی ہے۔ وہ "قبول" ہوگئی تو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔
"قبولیت کی گھڑی" کے بارے میں ہمارے اجتماعی شعور میں فکرمند ماؤں کی جانب سے بٹھائی احتیاط کا خیال گزشتہ تین دنوں سے مجھے مستقل آئے چلاجارہا ہے۔ "دیوالیہ" اس کا بنیادی سبب ہے۔ مذکورہ لفظ یا اصطلاع کا تذکرہ ہم گزشتہ کئی مہینوں سے سنے چلے جارہے ہیں۔ آغاز اس کا سری لنکا میں ہوئے "دیوالیہ" کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ دیوالیہ کیوں اور کیسے ہوا اس کی تفصیلات ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے "ذہن سازوں" نے کبھی سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ ویسے بھی ان دنوں ہمارے ہاں"رجیم چینج" کی اصطلاع بہت مقبول تھی۔
ہمارے تحریری آئین میں 1973ءسے موجود تحریک عدم اعتماد والی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ برس کے آغاز میں سابق حکمران جماعت کے خلاف قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتوں نے یکسوہوکر مذکورہ تحریک پیش کردی تھی۔ ہماری سیاسی تاریخ کا یہ انہونا واقع نہیں تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف بھی 1989ءکے ستمبر میں ایسی ہی تحریک پیش ہوئی تھی۔ اسے پیش کرنے سے قبل قومی اسمبلی میں موجود پیپلز پارٹی کی تمام مخالف جماعتیں باہمی اختلافات بھلاکر یکجا ہوگئیں۔
ایم کیو ایم نے حکمران اتحاد کا ساتھ چھوڑ دیا۔ مسلم لیگ کا ساتھ ولی خان کی قیادت میں قائم ہوئی "سیکولر" جماعت اے این پی نے بھی دیا۔ غلام مصطفےٰ جتوئی مرحوم ایک چھوٹی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود قومی اسمبلی میں موجود تمام اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل "کمبائنڈ اپوزیشن جماعتوں" جسے "سی اوپی" کہا جاتا تھا کے قائد بنادئے گئے۔ فیصلہ یہ بھی ہوا کہ اگر مذکورہ تحریک کامیاب ہوگئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی جگہ وہ ہمارے وزیر اعظم ہوں گے۔
بہرحال تحریک پیش ہوئی۔ اس نے ہمارے سیاسی منظر نامے پر کئی ہیجان آمیز مناظر دکھائے۔ بالآخر تحریک مگر ناکام ہوگئی۔ محترمہ سے "نجات" کے لئے ان دنوں کے صدر غلام اسحاق خان کو بالآخر اگست 1990ءمیں آئین کی آٹھویں ترمیم کو استعمال کرنا پڑا جو اب ہمارے آئین سے نکال دی گئی ہے۔
اپنے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کا محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح سامنا کرنے کے بجائے کرکٹ سے سیاست میں آئے سابق وزیر اعظم نے مذکورہ تحریک سے وکھرے انداز میں"جند" چھڑانے کی کوشش کی۔ دہائی مچانا شروع ہوگئے کہ امریکہ ان کے دورئہ روس سے ناراض ہوگیا ہے۔ طیش سے مغلوب ہوکر ہمارے ریاستی اداروں اور اپوزیشن جماعتوں میں موجود "میر جعفروں" کو حکم دیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں فارغ کردیں۔ اپنی سوچ کو مقبول بنانے کےلئے انہوں نے "سائفر" کہانی بھی گھڑی۔ اس کہانی کی بنیاد پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد پر گنتی کروانے کے بجائے اسے "قومی سلامتی کے منافی" قرار د ے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ موصوف کا یہ اقدام بعدازاں سپریم کورٹ "آئین سے انحراف" ٹھہرانے کو مجبور ہوا۔ تحریک پر گنتی کروانے کا حکم صادر کیا اور "تبدیلی" آگئی۔
اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد سابق وزیر اعظم اپنے دعوے کے مطابق "مزید خطرے ناک" ہوگئے۔ تواتر سے مصر رہے کہ امریکہ نے انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کروانے کے لئے ویسی ہی سازش رچائی ہے جو ایران کے قوم پرست وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق کے خلاف 1950ءمیں رچائی گئی تھی۔ 1970ءکی دہائی میں چلی کی "خودمختاری"کے خواہاں صدر بھی ایسی ہی سازش کا شکار ہوئے تھے۔ ایسی سازش کو"رجیم چینج" پکارا جاتا ہے۔
سابق وزیر اعظم "رجیم چینج" کی دہائی مچارہے تھے تو سری لنکا"دیوالیہ " ہوگیا۔ وہ دیوالیہ ہوا تو عوام غضب ناک ہوکر وہاں کے ایوان صدر میں گھس گئے۔ دریں اثناءشہباز شریف کے لگائے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخوں کو ناقابلِ برداشت حد تک بڑھانا شروع کردئے۔ اس کے باوجود ڈالر کی قیمت مستقل بڑھتی رہی۔ وہ قابو میں نہ آئی تو اسحاق ڈار لندن سے اسلام آباد آگئے۔ یہاں ا±ترنے کے چند ہی لمحوں کے بعد انہیں مفتاح اسماعیل کی جگہ وزیر خزانہ بنادیا گیا۔ ڈار صاحب "ڈالر کے ویری" شمار ہوتے تھے۔ اب کی بار مگر وہ ہارے محسوس ہوئے۔ آئی ایم ایف کے خلاف برسرعام بڑبڑانا بھی شروع کردیا۔ ان کی بڑبڑاہٹ نے کاروباری حلقوں کو یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ پاکستان "دیوالیہ" کی جانب بڑھ رہا ہے۔
سچی بات ہے مجھے اس یا اس سیاسی جماعت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ پاکستان کا عام شہری ہوتے ہوئے "دیوالیہ" کے امکانات تاہم مجھے خوف سے مفلوج بنادیتے ہیں۔ خدانخواستہ پاکستان اگر واقعتا "دیوالیہ" ہوگیا تو آپ کی جیبوں میں موجود کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ استعمال کرنے کے لئے آپ کو اے ٹی ایم کی مشینوں کے باہر لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ لبنان جیسے ممالک میں اے ٹی ایم مشین تک پہنچنے کے لئے بسااوقات گھنٹوں تک انتظار میں کھڑارہنا پڑتا ہے۔ وہاں سے پیسے نکلوانے کی تعداد "محدود" بنادی جاتی ہے۔ دیوالیہ کی صورت میں آپ غالباََ ہفتے میں ایک بار دس یا بیس ہزار روپے سے زیادہ رقم لاکھوں روپے اپنے کھاتے میں ہونے کے باوجود نکلوانہیں پائیں گے۔ وہ پیسے مل بھی گئے تو گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں میں پیٹرول ڈلوانے کے لئے بھی پیٹرول پمپوں کے باہر گھنٹوں انتظار کرنا پڑے گا۔
کاش بیدردی سے "دیوالیہ-دیوالیہ" کی "خوش خبری" سناتے بیانات اور تبصرے چلانے والا روایتی میڈیا آج کے ڈیجیٹل دور میں پاکستانیوں کو لبنان یا سری لنکا جسے ممالک کے دیوالیہ کے دوران حقیقی حالات دکھاتے ہوئے یہ سمجھانے کا تردد بھی کرلیتا کہ "دیوالیہ" ہماری روزمرہّ زندگی میں کونسے عذاب لاتا ہے۔
آج کے کالم کا یہ مقصد نہیں کہ اگر پا کستان خدانخواستہ واقعتا دیوالیہ کی جانب بڑھ رہا ہے تو شترمرغ کی طرح سرریت میں دبالیا جائے۔ بلی کو دائیں بائیں دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ یہ بات مگر کیسے طے ہوگی کہ ہم دیوالیہ کی جانب واقعتا بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔ مذکورہ سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے کہ اسے "معاشی ماہرین" کے روبرو رکھ کر بھرپور مباحث کروائے جائیں۔ اگر قابل اعتبار اور سیاسی اعتبار سے نسبتاََ غیر جانب دار شمار ہوئے ماہرین معیشت ہمیں واقعتا دیوالیے کی جانب بڑھتا دیکھ رہے ہیں تو شہباز حکومت اور اس کے سرپرستوں کو اس تاثر کو زور زبردستی نہیں بلکہ ٹھوس دلائل کے سہارے غلط ثابت کرنا ہوگا۔
فقط اسحاق ڈار صاحب کی جانب سے ماتھے پر تیوریاں بڑھا کر جاری ہوئے رعونت بھرے بیانات اس ضمن میں تسلی فراہم نہیں کررہے۔ اسی باعث غالباََ ہردوسرے دن وزیر اعظم کو کسی نہ کسی بہانے یہ امید دلانا پڑرہی ہے کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کے ساتھ ہمارے معاملات طے ہونے کے قریب ہیں۔ اگر واقعتا یہ امید زندہ ہے تو اسحاق ڈار صاحب نے "پلان بی" کا ذکر کیوں شروع کردیا ہے؟ خدارا اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔