اتوار 24 نومبر 2024ء کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ ریاست بمقابلہ عمران خان کے عنوان سے 2022ء کے اپریل سے جاری مقابلے بتدریج حق وباطل کے معرکوں میں بدلنا شروع ہوگئے۔ آج کے دن وہ نظر بظاہر آخری مرحلے، میں داخل ہوں گے۔ سادہ ترین الفاظ میں ریاستی زعم اور سیاستدان کی ضد کے مابین مقابلہ ہے۔ سیاستدان کو گمان ہے کہ پاکستانی عوام کی بے پناہ اکثریت دل وجان سے اس کی فدائی ہے۔ اپنے صحافتی کیریئر کے ابتدائی ایام میں ایک اور سیاستدان کو بھی تقریباً ایسی ہی مقبولیت حاصل تھی۔ اسے وہم تھا کہ ریاست نے اسے گزند پہنچائی تو ہمالیہ روپڑے گا۔ اپریل 1979ء میں لیکن موصوف کو پھانسی دے دی گئی۔ ہمالیہ رویا تو نہیں مگر اس وقت سے خشک سے خشک تر ہورہا ہے۔ کلیدی وجہ اس کی اگرچہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔
اپریل 1979ء کا ذکر کرتا ہوں تو نہایت رعونت کے ساتھ مجھے آج کی نوجوان نسل یہ بتاتی ہے کہ انٹرنیٹ نے زمانہ بدل دیا ہے۔ فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک متعارف ہوجانے کے بعد ریاست ماضی جیسی طاقتور نہیں رہی۔ اس کے علاوہ نئی نسل کے لوگ مجھ بڈھے کی طرح بزدل وموقع پرست بھی نہیں۔ اپنے حقوق کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ سلطانیِ جمہور، کو زیادہ عرصہ ٹالا نہیں جاسکتا۔ جس جماعت کے توسط سے سلطانیِ جمہور، یقینی بنانے کے دعوے ہورہے ہیں وہ اگست 2018ء میں بھی برسراقتدار آئی تھی۔
اس کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں آزادیِ اظہار، کو جس انداز میں یقینی بنایا گیا اسے ذاتی طورپر بھگتا ہے۔ مجھے مگر اب بتایا یہ جارہا ہے کہ ان دنوں سلطانیِ جمہور، پنجابی محاورے کے مطابق لسی ماندی (کمزور)، رہی تو وجہ اس کی باجوہ نام کے ایک افسر اعلیٰ تھے۔ سیم پیج، پر ہوتے ہوئے بھی وہ عوام کے چہیتے رہنما کو کھل کر کھیلنے نہیں دیتے تھے۔ اب کی بار باجوہ جیسے افراد کو اقتدار میں شراکت دار نہیں بنایا جائے گا۔ میں سادہ لوح اس دعویٰ پر اعتبار کرلیتا مگر اقتدار میں لوٹنے کے لیے مذاکرات فقط انھی لوگوں سے کرنے پر اصرار ہورہا ہے جو طاقتور اداروں، کے نمائندہ ہیں۔
بہرحال چند روز قبل اڈیالہ جیل میں قید ہوئے قائد کا حکم تھا کہ ان کے چاہنے والے 24 نومبر کے روز اپنے گھروں سے نکلیں۔ کسی نہ کسی صورت اسلام آباد پہنچ جائیں۔ اسلام آباد میں جمع ہوا ہجوم فسطائی حکومت، کو جوتے چھوڑ کر بھاگنے کو مجبور کردے گا۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ منظر کوئی زیر غور ہی نہیں لایا۔
اپنے بنیادی حقوق، کے حصول کے لیے مجھے قائد، کے حکم پر اسلام آباد آنے کی ضرورت نہیں۔ 1975ء سے اسی شہر میں مقیم ہوں۔ صحافت کو بطور پیشہ اپنا رکھا ہے۔ اس کی بدولت رزق کی فراہمی کو یقینی بنانا مگر پہاڑ سے جوئے شیر لانے کے مترادف ہی رہا۔ ملکی سیاست پر نگاہ رکھنا میری پیشہ ورانہ مجبوری رہی ہے اور جب سے اس پیشے میں آیا ہوں محترمہ بے نظیر بھٹو کی 1988ء سے 1990ء تک قائم رہی حکومت کے علاوہ کسی اور حکومت کو صحافت کے بارے میں کشادہ دل نہیں پایا۔ 2008ء سے 2013ء تک قائم رہی پیپلز پارٹی کی حکومت بھی اس ضمن میں کھلے دل والی تھی۔ 2014ء سے مگر صحافت کا کنٹرول، پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ لڑنے والوں کے پاس جاچکا ہے۔ صحافت ویسے بھی اب صحافت نہیں رہی۔ ذہن سازی، کا دھندا بن چکی ہے اور میں اس ہنر سے آگاہ نہیں۔ پرانی وضع کی صحافت تک محدود رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔
پرانی وضع کی بدولت اپنائے معیار کو استعمال کرتے ہوئے گزشتہ دو دنوں سے یہ سوچنے کو مسلسل مجبور ہورہا ہوں کہ پشاور سے ملتان تک روزمرہ زندگی جامد کرنے کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائوں؟ اس سوال پر غور کیا تو یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ عمران خان نے تو اتوار معرکۂ حق وباطل کے لیے مقرر کیا تھا۔ حکومت نے مگر جمعہ کی رات ہی سے ملتان، پشاور اور لاہور کو اسلام آباد سے ملانے والی سڑکوں اور موٹرویز کو بند کرنا شروع کردیا۔ جو حفاظتی اقدام، کیے گئے ہیں وہ مجھے یہ فیصلہ نہیں کرنے دے رہے کہ ہمارے ہاں معمول کی زندگی منجمد کرتے ہوئے حکومت تحریک انصاف کے خلاف ہڑتال، پر چلی گئی ہے یا تحریک انصاف نے امت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت کو اپنی احتجاجی کال کے ذریعے خوف میں جکڑدیا ہے۔
جمعرات کے دن اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ حکومت راولپنڈی اور اسلام آبا میں معمولات زندگی یقینی بنائے۔ اس ضمن میں تحریک انصاف کے نمائندوں سے مذاکرات کرے۔ وہ اگر مذاکرات کو رضا مند نہ ہو تب بھی معمول کی زندگی ہر صورت یقینی بنائے۔ تحریک انصاف مذاکرات کو رضا مند نہیں ہوئی۔ ہفتے کی صبح سے مگر اسلام آباد میں معمول کی زندگی، مفقود ہوچکی ہے۔ معمول کی زندگی مفقود ہوجانے سے عام شہریوں کو جو تکلیف پہنچ رہی ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے ذاتی تجربے کی بنیاد پر چند ایسے گھرانوں پر نازل ہوئی اذیت کا اس کالم میں ذکر کردیا جن کی بچیوں کو ہفتے اور اتوار کے دن رخصت ہونا تھا۔ بعدازاں اسی پہلو کو سوشل میڈیا پر بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی۔
ذلتوں کے مارے ہم متوسط طبقے والے خون پسینے کی کمائی سے محفوظ کی رقم سے اپنی بچیوں کی رخصتی کا بندوبست کرتے ہیں۔ بچیوں کے اپنے ارمان ہوتے ہیں۔ انھیں نامناسب سمجھتے ہوئے بھی لیکن پرائے دھن، کی خوشیوں کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ صرف اسی خیال سے یہ التجا تھی کہ ان لوگوں کے بارے میں بھی ذرا سوچ لیں جنھوں نے 23اور 24نومبر کے دن اپنی بچیوں کی رخصتی کے لیے شادی ہال بک کروارکھے ہیں اور وہ یہ سوچ کر ہلکان ہوئے چلے جارہے ہیں کہ اس دن وہ اوران کے مہمان شادی ہال تک پہنچ پائیں گے یا نہیں۔
حفاظتی اقدامات کے نام پر مسلط ہوئے لاک ڈائون کے حوالے سے روزمرہ زندگی کے محض ایک پہلو پر توجہ دلائی تو حق گو، افراد کا انبوہ بھڑوں کے غول کی طرح حملہ آور ہوگیا۔ نہایت رعونت سے یاد دلانے لگا کہ لفافہ، صحافی ذمہ داروں کا نام لینے سے گھبرارہا ہے۔ اذیت دہ سچ یہ بھی ہے کہ مجھ بزدل، کو لاک ڈائون کے ذمہ دار اصل حکمرانوں، کا نام لینے کی جرأت سے محروم ہونے کے طعنے دینے والوں کی اکثریت اپنے اصل ناموں اور شناخت کے بغیر اول فول بکے جارہے تھی۔
جب اس امر کی نشاندہی کرو تو جواب ملتا ہے کہ فسطائی حکومت، کا تنخواہ دار ہوتے ہوئے میں درحقیقت طعنے دینے والوں کو اپنی شناخت عیاں کرنے کو اُکسارہا ہوں تاکہ پولیس ان کا سراغ لگاسکے۔ منافقت کی انتہا ہے۔ فسطائی حکومت، کے خوف سے خود کو محفوظ رکھنے کی خاطر اپنی شناخت چھپانے والے 1940ء کی دہائی سے باقاعدہ چھپنے والے ایک مؤقر روزنامے کے لیے اپنے نام اور تصویر کے ساتھ ہفتے میں پانچ دن کالم لکھنے والے سے توقع باندھتے ہیں کہ وہ اصل حکمرانوں، کے نام لے کر ان کے بارے میں واہی تباہی بکے اور یوں اپنا ایمان، ثابت کرے۔
دو نمبر کے انقلابیوں، کا جو غول ان دنوں سوشل میڈیا کی وادیوں میں دندنا رہا ہے روزمرہ زندگی کی مصیبتوں میں گرفتارعام انسانوں کی زندگی پر غور کو آمادہ ہی نہیں۔ اس کے لیے ہمدردی محسوس کرنا تو دور کی بات ہے۔ مجھے بارہا یہ بتایا گیا کہ احتجاجی کال کی وجہ سے عوام کو ہسپتالوں تک پہنچنے اور دیہاڑی سے محرومی کی وجہ سے جن تکالیف کا سامنا ہے وہ عارضی، ہیں۔ انھیں چند دن کے لیے برداشت کرلو تو 70سال سے، عوام کے لیے جمع ہوئی مصیبتوں سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔ دونمبر کے انقلابیوں، پر لیکن مجھے اعتبار نہیں۔ ہمارے ہاں حق وباطل، کے مابین معرکوں کی ایک طویل داستان رہی ہے۔ صوفی تبسم کے ایک مصرعے کے مطابق لیکن ایسے ہر معرکے کا آغاز اور انجام رسوائی، کی صورت ہی برآمد ہوا۔