سکول ہی سے عقل کا غلام ہوگیا تھا۔ جوان ہوتے ہی لہٰذا ہیگل کو بہت غور سے پڑھا۔ جرمنی سے اُبھرا یہ فلاسفر تاریخ کے جبر پر کٹر ایمان کا حامل تھا۔ اس کی دانست میں معاشروں کو چلانے والا کوئی بھی نظام ابدی نہیں ہوتا۔ ناقابل تسخیر دِکھتے نظام کے خلاف مختلف قوتیں نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اقبالؔ نے اس سوچ کو "ثبات اک تغیر کو ہے، " والے مصرع میں بیان کیا تھا۔
تبدیلی پر کامل ایمان رکھنے والے ہیگل کا فلسفیوں اور شاعروں سے یہ تقاضہ بھی ر ہا کہ نظام کہنہ کے روبروسربسجود ہوجانے کے بجائے ان قوتوں کو ڈھونڈنے اور ان کی قوت کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں جو معاشرے کو نظام نو کی جانب دھکیل رہی ہوتی ہیں۔ تبدیلی کے خواہاں عمل کو اس نے اجتماعی طورپر "روح عصر" کا نام دیا۔ ہیگل کے گہرے مطالعے کے بعد کارل مارکس نے انسانوں میں مساوات کی خواہش کو "روح عصر" تصور کیا۔ اس کی سوچ سے متاثر ہوکر 1970کی دہائی میں مجھ جیسے کئی پاکستانی نوجوان وطن عزیز میں سوشلزم کے خواب دیکھنا شروع ہوگئے۔
جولائی 1977میں لیکن جنرل ضیاء کے لگائے مارشل لاء کے طویل برسوں کے دوران دریافت کرنا شروع کردیا کہ ہمارے ہاں کی "روح عصر"بے شمار نسلوں سے "ڈنڈے والے" حاکم ہی کا انتظار کرتی رہی ہے۔ 1988میں جنرل ضیا فضائی حادثے کی نذر ہوئے تو جمہوری نظام اور آزادیٔ اظہار وغیرہ کی امید نمودار ہوئی۔ چند ہی برسوں بعد مگر ایک دوسرے کو چور-لٹیرے پکارتے ہوئے ہمارے سیاستدانوں نے جنرل مشرف کو "روشن خیال نگہبان" کی صورت ہمارا حاکم بنادیا۔ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دونوں ادوار اور ان کے درمیان آتی جاتی حکومتوں کو بہت قریب سے بھگتنے کے بعد میں یہ طے کرنے کے قابل نہیں رہا کہ ہماری "روح عصر" بالآخر ہے کیا؟
8فروری 2024کے انتخابات سے قبل دنیا بھر میں جمہوریت کے مقابلے میں"عوام کی حمایت" سے کئی ممالک پر نازل ہوئے "منتخب آمروں" کے چلن دیکھ کر یہ سوچتا رہا کہ آج کی "روح عصر" سرجھکائے حکمرانوں کی دکھائی راہ پر چلنا ہے۔ مصر تو ہمارے خطے سے بہت دور ہے۔ بنگلہ دیش جیسے مضطرب معاشرے میں بھی حسینہ واجد کا ایک بار پھر انتخاب جیت کر وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان رہنا یہ پیغام دیتا سنائی دیا کہ اب "(ہمارے ہاں بھی)، کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا"۔ روز انتخاب مگر میری شکست خوردہ سوچ بوڑھے دل کی کمزوری اور امید سے محرومی کا اظہار محسوس ہوئی۔ خود کو کئی روز اکیلے میں بیٹھ کرکوستا رہا کہ میں 8فروری 2024کے دن رونما ہوئی "روح عصر" کو بروقت کیوں شناخت نہ کرپایا۔
آٹھ فروری کا اضطراب مگر بے موسمی بارشوں کی وجہ سے بپھرے سیلاب کی طرح آیا اور گزرگیا۔ اس کے بعد سے ہم بتدریج "آنے والی تھاں" پر لوٹتے محسوس ہورہے ہیں۔ پاکستان کو ایک بار پھر دیوالیہ سے بچانے کے چرچے ہیں۔ آئی ایم ایف سے اب کی بار کم از کم تین برس تک پھیلے بندوبست کی خواہش ہے۔ مطلوبہ بندوبست کو یقینی تصور کرتے ہوئے ہمیں مسلسل "مشکل فیصلوں" کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔ میرے اور آپ جیسے عام اور محدود آمدنی والے پاکستانیوں کے لئے "مشکل فیصلوں" کا مطلب فقط یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں آئے بجلی اور گیس کے بل ہماری آمدنیوں کا 60فیصد سے زیادہ حصہ کھاجائے۔ باقی بچی رقم سے ہمیں زندہ رہنا اور بچوں کو تعلیم دلوانا ہوگی۔ تین سے چار برس کے "مشکل دنوں" کے بعد اچھے دنوں کی امید دلائی جارہی ہے۔
"اچھے دنوں" کو یقینی بنانے کیلئے مگر یہ بھی لازمی بتایا جارہا ہے کہ ان مشکل دنوں میں اخبار نویس عام پاکستانیوں کو "فیک نیوز" کے ذریعے گمراہ نہ کریں۔ مبینہ طورپر ملک میں"مایوسی کی خبریں پھیلاکر ڈالر کمانے والے" یوٹیوبر بھی اپنی اوقات میں رہیں۔ "روح عصر" مختصر الفاظ میں ان دنوں"ڈنڈا پیرا ے وگڑیاں تگڑیاں (تخریبی سوچ رکھنے والوں) "کا۔
فقط پاکستان کا بندوبست حکمرانی مگر آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ گزشتہ دودنوں سے درحقیقت اپنے خطے کے وسیع تر تناظر میں"روح عصر" دریافت کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ اسے تلاش کرنے کو مجھے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کی گرفتاری نے مجبور کیا ہے۔ کجریوال بھارتی سرکار کے مقابلے کا امتحان پاس کرکے افسر ہوا تھا۔ چند برس کی سرکاری نوکری کے بعد وہ انا ہزارے کی کرپشن کے خلاف عوامی تحریک سے متاثر ہوکر "سیاسی" ہوگیا۔ عوامی تحریک میں شمولیت کے دوران اس نے محسوس کیا کہ اگر بھارت جیسے ملکوں میں نظام کو واقعتا بدلنا ہے تو تبدیلی کے خواہاں افراد کو سیاسی جماعتیں قائم کرکے اقتدار میں آنا ہوگا۔ یہ راستہ فوری نتائج فراہم نہیں کرتا مگر "انقلابی نعروں" میں وقت ضائع کرنے کے بجائے تبدیلی کے خواہاں افراد کو ایک طویل سفر پر استقلال کے ساتھ چلنے کو اُکساتا ہے۔
اپنی سوچ کو عملی صورت دینے کے لئے اس نے "عام آدمی پارٹی" بنائی۔ دہلی کو بھارت میں ایک شہر نہیں بلکہ صوبہ مانا جاتا ہے جسے وہ "ریاست" پکارتے ہیں۔ بھارت کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں ریاست دلی کے اختیارات اگرچہ محدود ہیں۔ مثال کے طورپر پولیس اب بھی مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ اس کے باوجود "عام آدمی پارٹی" کی حکومت نے اپنے ہاں تعلیم کے شعبے میں حیران کن کمالات دکھائے۔ غریبوں کے لئے بنائے پرائمری اور مڈل سکولوں میں انگریزی پڑھانے والے اساتذہ کی کثیر تعداد جن میں اکثریت نوجوان استانیوں پر مشتمل تھی صوبائی اور برطانوی حکومت کے دئے وظیفوں سے لندن میں رہ کر اس زبان کو پڑھانے کے ہنر سے آگاہ ہوئی۔ تعلیم کے علاوہ صحت کا نظام بھی دلی میں غریب پرور ہے۔ اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ وہاں غریب گھرانوں کے لئے بنیادی قرار پائے بجلی کے یونٹوں کی قیمت وصول نہیں کی جاتی۔ وہ سرکار کی ذمہ داری ہیں۔
دلی میں محدود اختیارات کے باوجود کجریوال نے تعلیم، صحت اور بنیادی ضرورتوں کے حوالے سے عوام کی جو خدمت کی اس کی وجہ سے وہ اب مشرقی پنجاب میں بھی حکومت بنائے ہوئے ہے جبکہ یہ صوبہ 1947سے کانگریس اور اکالی دل کی باریاں لیتی حکومتوں کے ہاتھ میں رہا۔ اکالی دل ایک مذہبی سیاسی جماعت ہوتے ہوئے مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو اکثراپنا اتحادی بھی بناتی رہی ہے۔ بھارتی پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد وہاں کے باسیوں کو بھی "اچھی حکومت"کی تھوڑی جھلک نظر آناشروع ہوگئی۔
دلی اور پنجاب میں ڈھول ڈھمکے کے بغیرکجریوال کی جماعت جس انداز میں کام کررہی ہے اس نے شمالی ہند خصوصاََ ہریانہ اور یوپی وغیرہ میں اس کے بارے میں مثبت جذبات کو فروغ دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مودی کا قلعہ شمار ہوتے صوبہ گجرات میں حال ہی میں جو صوبائی انتخاب ہوئے ہیں ان میں 13 فی صد ووٹ عام آدمی پارٹی نے حاصل کرلئے اور اس کے پانچ نمائندے صوبائی اسمبلی بھی پہنچ گئے۔ گجرات میں"عام آدمی پارٹی" کے محض 13فیصد ووٹ مودی سرکار کو قطعاََ ہضم نہیں ہوئے۔
آئندہ اپریل سے جون تک بھارت میں عام انتخاب ہونا ہیں۔ وہاں کی لوک سبھا یا قومی اسمبلی میں 543نشستیں ہیں۔ نریندر مودی کو کامل یقین ہے کہ وہ یہ انتخاب بآسانی جیت جائے گا۔ اس کی جماعت کو واجب بنیادوں پر قوی امید ہے کہ ہندوبنیاد پرستی کا فلسفہ شمالی ہند میں ہندی بولنے والے صوبوں میں مقبولیت کی انتہائوں کو چھورہا ہے۔ وہاں کے ووٹر مودی سرکار کو ہر صورت کامیاب کروائیں گے۔ اسی باعث نریندر مودی ان دنوں بذاتِ خود بھارت کے جنوب میں واقع صوبوں اور بڑے شہروں پر توجہ دیتے ہوئے وہاں بھاری بھر کم عوامی اجتماعات اور ریلیوں سے خطاب کررہا ہے۔
مودی کی جماعت "اب کی بار -چارسوپار" کا نعرہ بھی بلند کررہی ہے۔ حتمی خواہش اس نعرے کی یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کے اتحادی لوک سبھا کی 543 میں سے چار سو سے زیادہ نشستیں حاصل کریں۔ ان کی وجہ سے قائم ہونے والی سرکار بھارتی آئین میں دو تہائی اکثریت سے ترامیم کے قابل ہوجائے گی۔ جو ترامیم مقصود ہیں ان کے ذریعے بھارت "سیکولر" یا "سوشلسٹ" ملک ہونے کا ڈرامہ نہیں رچائے گا۔ ڈھٹائی سے خود کو ہندواکثریتی والا ملک پکارے گا جہاں کے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو وہاں کے نظام کے مطابق رہنا ہوگا۔
"اب کی بار-چار سو پار" کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے کجریوال کو جو کرپشن کے خلاف جدوجہد کی بھرپور علامت تھا منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ الزام اس پر یہ بھی لگا ہے کہ وہ اپنے من پسندیدہ اشخاص کو شراب کی فروخت کے لائسنس دیتے ہوئے "بھتہ" وصول کررہا تھا۔ کرپشن کے خلاف جدوجہد کی علامت ہوئے کجریوال پر مذکورہ الزامات مجھ سادہ لوح کو کھوکھلے محسوس ہوئے۔
بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے مگر دلی کے وزیر اعلیٰ کو ضمانت پر رہا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اب کجریوال کے خلاف لگائے الزامات درست ثابت نہ ہوئے تو بھارتی نظام عدل کی ساکھ بھی مٹی میں مل جائے گی۔ یہ سوچنے میں بھی البتہ کوئی حرج نہیں کہ الزامات بالآخر درست ثابت ہوجائیں۔ فرض کیا ایسے ہوگیا تو بھارت میں تمام سیاستدانوں کی ذاتی دیانتداری کے حوالے سے "شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے؟" والا ماحول بن جائے گا اور پھر وہاں بھی "روح عصر" وہی ہوگی جو اِن دنوں بنگلہ دیش اور پاکستان کی حکمران جماعتوں کو طاقتور بنائے ہوئے ہے۔