بخدا ہم اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے اور آبادی کے اعتبار سے اپنے سب سے بڑے صوبے میں پھیلی ابتری وخلفشار کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں کر پارہے۔ اس سے نبردآزما ہونے کی راہ ڈھونڈنا تو بہت دور کی بات ہے۔ آج سے پانچ صدیاں قبل بلھے شاہ کے دور میں بھی "برا حال ہویا پنجاب دا" والا معاملہ کم از کم نو دہائیوں تک چلا تھا۔ آپادھاپی کے اس موسم کو ہمارے دردمند صوفی نے "شک شبے" کا وقت ٹھہرادیا تھا جہاں کوئی شخص دوسرے پر اعتبار کو تیار نہیں تھا۔ حکمرانی کے حوالے سے بھی سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ کس کی ماں کو "ماسی" کہیں۔
بچپن سے جوانی تک کئی برس میں نے ریڈیو پاکستان لاہور سے نکل کر شملہ پہاڑی کی جانب بڑھتے ہوئے دائیں ہاتھ مڑ کر لکشمی چوک تک پیدل چلتے ہوئے گزارے ہیں۔ مذکورہ راستے پر ایازا میر پر حملہ کرنے والوں کا دو دن گزرجانے کے باوجود سراغ نہ مل پائے تو دل خوفزدہ ہوجاتا ہے۔ لکھتے ہوئے مزید محتاط رہنے کو مجبور محسوس کرتا ہوں۔ "کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے" والے وسوسوں میں گھرا ذہن "حق گوئی" کا ڈرامہ رچانہیں سکتا۔ اس کے باوجود ہفتے کے پانچ دن صبح اُٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کے لئے قلم اٹھالیتا ہوں تانکہ "روٹی تو کسی طور کماکھائے مچھندر"۔
کہنے کو ہم "تحریری آئین" کے تحت قائم ہوئے "جمہوری بندوبست" کے تحت "منظم" زندگی گزاررہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے مگر گزشتہ ہفتے فیصلہ سنایا کہ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کا انتخاب "غیر آئینی" تھا۔ ان کے "انتخاب" کو باقاعدہ بنانے کے لئے پنجاب اسمبلی کا خصوصی اجلاس منعقد کرنے کا دن اور وقت بھی طے کردیا۔ ایسے فیصلے عموماََ عدالت کی براہِ راست عملداری میں نہیں آتے۔ اس ضمن میں فیصلہ سازی کے مجازافراد مگر فریاد لے کر عدالت سے مداخلت کی درخوست کریں تو معمول سے ہٹ کر عمل کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا تو طلسماتی داستانوں کی شہزادی کی طرح تحریک انصاف والے حمزہ شہباز کے انتخاب پر اٹھائے عدالتی سوال سے خوش ہوئے۔ تفصیلی فیصلے نے مگر انہیں بعدازاں رونے کو مجبور کردیا۔ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ٹھان لی۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو وطن عزیز کی اعلیٰ ترین عدالت نصابی اعتبار سے مسئلہ کو فقط "انصاف" کے ترازومیں ڈال کر جانچنے کے بجائے "ثالثی" کو مجبور ہوئی۔ فریقین کو اپنا ذہن صاف کرنے میں مدد دینے کے لئے وقفہ لینا پڑا۔ تحریک انصاف کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان تھے۔ چودھری پرویز الٰہی ان کے "اتحادی" ہوتے ہیں جنہیں عمران خان صاحب نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد بھی کررکھا ہے۔ ان دونوں کی ترجیحات مگر مختلف تھیں۔
بالآخر سپریم کورٹ کے حکم پر وہ دونوں عمران خان صاحب سے رجوع کرنے کو مجبور ہوئے۔ بنی گالہ کی پہاڑی پر مقیم "دیدہ ور" نے وقتی طورپر حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیراعلیٰ تسلیم کرلیا۔ انہیں کچھ مہلت دینے کو بھی آمادہ ہوگئے۔ اب یہ طے کرنے کے لئے کہ پنجاب کی وزارت عظمیٰ کی پگ کس کے سررکھی جائے پنجاب اسمبلی کا خصوصی اجلاس رواں مہینے کی 22تاریخ کو ہوگا۔ اس دن تک ان 20نشستوں کے نتائج بھی آجائیں گے جو تحریک انصاف کے "منحرف" ہوئے اراکین کی وجہ سے خالی ہوئی ہیں۔ نظر بظاہر ان نشستوں پر ضمنی انتخاب مکمل ہوجانے کے بعد "صاف شفاف گنتی" بآسانی ہوجائے گی۔
میرا مایوس اور جھکی ذہن مگر یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہے کہ 17جولائی کے دن جو ضمنی انتخاب ہونا ہیں ان کے نتائج کھلے دل سے تسلیم کئے جائیں گے یا نہیں۔ تحریک انصاف بضد ہے کہ مذکورہ انتخاب میں دیدہ دلیری سے دھاندلی ہوگی مقصد جس کا حمزہ شہباز کی "معاونت" ہے۔ مبینہ "معاونت" جہاں سے فراہم ہورہی ہے اس کا ذکر بھی دھڑلے سے ہورہا ہے۔ روایتی اور سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کی بدولت "ذہن سازی" کی قوت سے مالامال عمران خان صاحب کی جماعت تواتر سے چند "سروے" بھی زیر بحث لانا شروع ہوگئی ہے۔ مبینہ سروے کے مطابق جو ضمنی انتخاب ہونا ہیں ان کے نتائج تحریک انصاف کو سب سے زیادہ نشستیں لیتے ہوئے دکھائیں گے۔ دوسرے نمبر پر تحریک لبیک ہوگی اور مسلم لیگ (نون) تیسری جماعت قرار پائے گی۔
جس "سروے" کی تشہیر ہورہی ہے وہ موجودہ حالات میں اخبارات کے عام قاری اور ٹی وی ناظرین کی اکثریت کو قابل اعتبار محسوس ہورہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی بدولت عمران خا ن صاحب کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد جان لیوا مہنگائی کا سیلاب امڈ پڑا ہے۔ نئے ریکارڈ بناتی گرمی اور حبس کے موسم میں کئی گھنٹوں تک بجلی بھی میسر نہیں ہوتی۔ ناقابل برداشت مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے طویل وقفوں کا ذمہ دار عمران خان صاحب کی جگہ لینے والی حکومت کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ اس تناظر میں تحریک انصاف کو کامیاب قرار دینے والے "سروے"فطری طورپر قابل اعتبار سنائی دیتے ہیں۔
انتخابات کی مگر اپنی مخصوص"حرکیات" ہوتی ہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم نے انہیں مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ کسی ایک جماعت کی حمایت میں کئی برسوں سے مسلسل ووٹ ڈالنے والے یکایک محض کسی ایک وجہ -مثال کے طورپر مہنگائی -سے ناراض ہوکر اپنی وفاداری تبدیل نہیں کرتے۔ بہت ناراض ہوں تو ووٹ ڈالنے کے لئے گھر ہی سے نہیں نکلتے۔ جو ضمنی انتخاب ہونا ہیں ان میں پارٹی ووٹ کے علاوہ 2018ء میں "آزاد" حیثیت میں کامیاب ہونے والوں کا ذاتی اثرورسوخ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہوگا۔
لاہور جیسے شہروں کے علاوہ دیگر حلقوں میں کچھ "وکھرے" انداز کے حقائق بھی کارفرما ہوں گے۔ اپنے گھروں میں بیٹھے ہم مگر ان کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ ایک بات مگر طے ہے کہ اگر تحریک انصاف کو ان ضمنی انتخابات میں واضح اکثریت نہ ملی تو و ہ ان کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردے گی۔ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے ایک بار پھر مزید شدت کے ساتھ مزاحمتی رویہ اپنایا جائے گا۔ اس کے بعد "ثالث" کا کردار ادا کرنا شاید اعلیٰ ترین عدالت کے لئے بھی ممکن نہ رہے۔