شاہ محمود قریشی سے دوستی نہیں دیرینہ شناسائی ہے۔ بسااوقات ان کے چند سیاسی فیصلوں کو میں نے سخت ترین الفاظ کے استعمال سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ جبلی سیاستدان ہوتے ہوئے انہوں نے مگر ایک حرف شکایت بھی مجھ تک نہیں پہنچایا۔ جب بھی ملے گرم جوش قربت ہی کا احساس دلایا۔ بدھ کے روز ان کی پولیس کے ہاتھوں ہوئے سلوک کی جو وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں انہیں نظرانداز کرنے کا لہٰذا مجھ میں حوصلہ نہیں۔ جو ہوا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا اور اس کے جواز تراشنے والے ذہنی غلاموں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
جو نظر آئے اس کی مذمت ہی مگر اپنے تئیں کافی نہیں ہوتی۔ صحافت کا پیشہ آپ کو یہ سوچنے کو بھی مجبور کرتا ہے کہ غضب کے عالم میں حکمران ایسا رویہ کیوں اختیار کرنا شروع ہوجاتے ہیں جو بالآخر ان ہی کو نقصان پہنچاسکتا ہے۔ اس سوال پر سنجیدگی سے غور کیا تو احساس ہوا کہ "نوائے وقت" جیسے "تاریخی ورثے" کے حامل اخبارات کیلئے مجھ جیسے پرانی وضع کے صحافی جو کالم وغیرہ لکھتے ہیں انہیں چند "محدودات" کو ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔
روایتی اخبار حکومت کے دئے لائسنس کے تحت شائع ہوتا ہے۔ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ وہ اشاعت وطباعت کے ان تمام قوانین کی پیروی کرے جو "خبر نویسی"کے دھندے کو "مادرپدرآزادی" سے محفوظ رکھنے کے نام پر متعارف کروائے گئے ہیں۔ ہمارے مقابلے میں موبائل فون کا مالک کہیں زیادہ "آزاد" ہے۔ اس کے من میں جو بات جب بھی آئے بلاجھجک ٹویٹر، فیس بک یا انسٹاگرام پر پوسٹ کرسکتا ہے۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسے یہ خوف لاحق نہیں ہوتا کہ وہ جو دعویٰ کررہا ہے اس کے ثبوت فراہم کرنے کے لئے اسے عدالت میں طلب کیا جاسکتا ہے۔ عدالت یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خوف سے کہیں زیادہ ریگولر میڈیا اشتہارات اور ناظرین وقارئین تک رسائی کے نظام پر حکومتی کنٹرول سے گھبرائے رہتا ہے۔ ہماری "گھبراہٹ" نے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں سوشل میڈیا کو روایتی صحافت سے کہیں زیادہ طاقت ور بنادیا ہے۔
سوشل میڈیا کی رسائی اور تیز رفتاری نے کئی معاشروں کو کامل انتشار کی زد میں بھی لیا۔ برما اور سری لنکا جیسے ممالک میں واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے بدھ اکثریت نے ان دو ممالک میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیتوں کا زندہ رہنا ناممکن بنادیا۔ بتدریج دنیا کا تقریباََ ہر جمہوری ملک یہ کوشش کررہا ہے کہ سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے اپنے عوام کو محفوظ رکھنے کے لئے "نوائے وقت" جیسے روایتی اور تاریخی ورثے کے حامل اخبارات کی حوصلہ افزائی کرے۔
حکومتوں کے علاوہ کامیاب ترین کاروباری ادارے بھی ایسی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ مثال کے طورپر "واشنگٹن پوسٹ" تاریخی ورثے کا حامل اخبار ہے۔ انگریزی زبان میں ایسے اخبارات کو Legacy Mediaکہا جاتا ہے۔ اس صنف کے اخبارات کوئی "خبر" چھاپنے سے پہلے اسے مختلف چھلنیوں سے گزارتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کی "برق رفتاری" کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔ سوشل میڈیاکا عادی قاری جب ان اخبارات میں چھپی "خبریں" دیکھتا ہے تو وہ اسے فی الفور "باسی"محسوس ہوتی ہیں۔ وہ انہیں پڑھنے کا تردد بھی نہیں کرتا۔
کوشش مگر اب یہ ہورہی ہے کہ روایتی میڈیا اپنی دی خبروں کو "باسی" ہونے سے بچائے۔ یہ ثابت کرے کہ سوشل میڈیا کے مقابلے میں روایتی اخبار Long Form Journalismکے ذریعے آپ کو زیادہ "با خبر" رکھتا ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لئے مگر یہ بھی لازمی ہے کہ روایتی اخبارات کو زندہ رکھنے کے لئے مزید وقت ملے۔ اسی باعث Amazonجیسی کاروباری کمپنی نے "واشنگٹن پوسٹ" خریدلیا اور وہ اسے منافع کے حصول کے لئے نہیں بلکہ روایتی صحافت زندہ رکھنے کے لئے چلائے جارہی ہے۔
یہاں پہنچنے کے بعد احساس ہوا کہ میں Legacy Media"علمی" سنائی دیتا مضمون لکھنے کی طرف بڑھ رہا ہوں۔ توجہ تو مجھے اس سوال پر دینا تھی کہ دوبار وطن عزیز کے وزیر خارجہ رہے شاہ محمود قریشی کے ساتھ بدھ کے روز پولیس کے ہاتھوں ذلت آمیز سلوک کیوں ہوا۔ مذکورہ سوال کا جواب دیتے ہوئے انہیں"محدودات" کو نگاہ میں رکھتے ہوئے عرض کرنا چاہوں گا کہ 9مئی 2023ء کے واقعات "وہاں" بھلائے نہیں گئے ہیں۔ "وہاں" اس دن کے حوالے سے جو سوچ حاوی ہے وہ مگر روایتی میڈیا کے ذریعے لوگوں کے روبرو لانے کی سہولت (ویسے میں"اجازت"لکھنا چاہ رہا تھا) بھی فراہم نہیں ہوئی۔
غضب کے عالم میں فقط یہ حکم ہوا کہ عمران خان کا نام بھی ٹی وی سکرینوں پر نہ لیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ سوشل میڈیا پر لیکن تحریک انصاف کے حامی روایتی شدت سے اپنا بیانیہ پھیلاتے رہے۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہمارے عوام کی اکثریت آج تک یہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ 9مئی کے روز ہوئے واقعات کا "اصل ہدف" کیا تھا۔ مذکورہ ہدف اگر حاصل کرلیا جاتا تو ہماری ریاست کے طاقت ور ترین ادارے میں کئی دہائیوں سے نہایت شدت سے قائم کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام کس نوعیت کے ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرتا۔
روایتی میڈیا میں مسلم لیگ (نون) کے سینیٹر عرفان صدیقی صاحب تواتر سے اپنے کالموں کے ذریعے 9مئی کے روز ہوئی "سازش" کا حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ وہ اردو کے استاد ہیں اور زبان و بیان پر کامل گرفت کی بدولت مشکل ترین حالات میں بھی اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔ ان کی لکھی بات وسیع عوامی حلقوں تک مگر پہنچ نہیں پاتی۔
"سازش" کا لفظ ہی 9مئی کے واقعات کی سنگینی سمجھانے کو کافی نہیں۔ "سازش" کے اہداف اشاروں کنایوں میں بیان کر بھی دئیے جائیں تو ان میں ملوث کرداروں کا نام لینا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ کرداروں کے نام لینے کے بعد یہ بھی لازمی ہے کھل کر بتایا جائے کہ "سازش" کیسے تیار ہوئی اور اس میں کونسے کردار نے کس کے ساتھ مل کر کیا کردار ادا کیا۔ میرے علم میں یقین مانیں اس انداز میں کوئی بات نہیں لائی گئی ہے۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ مجھ ریٹائر ہوئے صحافی کے مقابلے میں متحرک رپورٹروں تک "سازش" کی کافی تفصیلات پہنچ چکی ہیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی صاحب جیسے باخبر لکھاری کے پاس تو اب تک پوری کہانی پہنچ چکی ہوگی۔
نہایت دیانتداری سے میں اس امر پر اصرار کروں گا کہ اگر ہمارے عوام کی اکثریت تک "سازش" کے حوالے سے تفصیلی کہانی نہ پہنچائی گئی تو وہ کبھی سمجھ نہیں پائیں گے کہ شاہ محمود قریشی صاحب کے ساتھ ان دنوں"بیہمانہ" سلوک کیوں ہورہا ہے۔