جس صبح یہ کالم چھپے گا اس وقت وزیر اعظم پاکستان دورہ چین پر روانہ ہونے کے قریب ہوں گے۔ قومی اسمبلی میں سالانہ بجٹ پیش کرنے سے چند ہی روز قبل ہوئے اس دورے سے ریاست وحکومت پاکستان کو بہت توقعات ہیں۔ امید باندھی جارہی ہے کہ اس کے دوران کچھ ایسے معاہدوں پر اتفاق ہوجائے گا جو وطن عزیز کی فوری اور طویل المدت اقتصادی مشکلات کے حل میں مددگار ثابت ہوں گے۔
محدود آمدنی کا حامل پاکستانی ہوتے ہوئے مذکورہ دورے سے مطلوب نتائج کے حصول کیلئے دْعا گو ہوں۔ میری نیک نیتی نے مگر آج کا کالم لکھنے سے پہلے کئی بار سوچنے کو مجبور کیا۔ یہ خدشہ لاحق رہا کہ جس موضوع کو زیر بحث لانا چاہ رہا ہوں وہ وزیر اعظم کے دورہ چین کی افادیت پر سوال اٹھاتا بھی تصور کیاجاسکتا ہے۔ اسی باعث مذکورہ دورے سے نہایت خلوص کے ساتھ خیر کی توقع کا اظہار کرنے کو مجبور ہوا ہوں۔
آج کے موضوع کو زیر بحث لانے سے ہچکچاہٹ کا سبب ایک طویل انگریزی مضمون تھا۔ اسے سندھ کے ایک استاد اور محقق-ڈاکٹر محمد علی شیخ- نے لکھا ہے۔ اتوار کے روز "ڈان" اخبار کے ساتھ آئے میگزین والے صفحات پر چھپا اور میں اسے نہایت غور سے پڑھنے کو مجبور ہوگیا۔ ڈاکٹر شیخ کا موضوع اچھوتا تھا۔ عالمانہ جستجو سے انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ چین کے اقتصادی معاملات اورعالمی امور پر لکھنے والے مستند محققین نے چین پاکستان اکنامک کوریڈور کے بارے میں (جو ہمارے ہاں CPECکے نام سے معروف ہے) کس نوع کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ چین کے لکھاری کتابیں یا مضامین لکھتے اور چھاپتے ہوئے دوسرے ممالک کے قارئین کی توجہ کے طلب گار نہیں ہوتے۔ تحقیقی مضامین لکھنے والوں کی اکثریت اپنے ہی ملک کے عالمانہ حلقوں کوذہن میں رکھتے ہوئے اپنے خیالات چینی زبان میں قلم بند کرتی ہے۔
بہت تلاش کے بعد ڈاکٹر محمد علی شیخ صاحب نے بالآخر جان لیا کہ چینی پروفیسروں نے سی پیک کے بارے میں جو کتابیں یا علمی جرائد کے لئے مضامین لکھے ان میں سے چند کے انگریزی تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے لہٰذا سی پبلک کے موضوع پر لکھی تحریروں کے انگریزی تراجم کو لگن کے ساتھ تلاش کیا اور انہیں بغور پڑھنے کے بعد چینی محققین کے سی پیک کے بارے میں لکھے خیالات کی تلخیص اپنے اتوار کے روز چھپے مضمون میں شائع کردی۔
میری دانست میں ڈاکٹر شیخ نے سی پیک کے حوالے سے جو اہم ترین کتاب دریافت کی ہے اسے چین کی اہم ترین -پیکنگ یونیورسٹی- کی ایک پروفیسر ڑومی چیانگ نے لکھا ہے۔ مذکورہ کتاب کا کلیدی پیغام یہ ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کے لئے سی پیک "محض بی آر آئی کا ایک (چھوٹا) حصہ ہے"۔ پاکستانی حکام مگر اسے اپنے عوام کیلئے "مقدر بدلنے والا" منصوبہ بناکر پیش کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام کی اکثریت کو یقین دلایا گیا ہے کہ سی پیک کے تمام منصوبے اگر بروقت مکمل ہوگئے تو ان کی زندگیاں بدل جائیں گی۔
ڑومی چیانگ مگر پاکستانی عوام کے دلوں میں سی پیک کے بارے میں ابھارے جذبات سے گھبراگئی ہے۔ وہ انہیں"غیر حقیقی اور مبالغہ آمیز" ٹھہراتی ہے اور اس خدشے کا اظہار بھی کہ اگر سی پیک کے بارے میں پاکستانی عوام کے دلوں میں بٹھائی توقعات پوری نہ ہوئیں تو ان کے دلوں میں چین کے خلاف بدگمانیاں پیدا ہوں گی۔ "مبالغہ آمیز" توقعات کا ذکر کرتے ہوئے ڑومی چیانگ نے پاکستانیوں کو بتائے سی پیک کے حجم پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ برسوں سے ہمیں بتایا جارہا ہے کہ سی پیک کے تمام منصوبے اگر بروئے کار لائے گئے تو ہمارے ہاں چین کی جانب سے ہوئی سرمایہ کاری کا حجم 46ارب ڈالر کی حد تک پہنچ جائے گا۔ اپنی کتاب لکھنے تک پروفیسر صاحبہ جان نہ پائیں کہ 46ارب ڈالرکا ہدف کب اور کیسے طے ہواتھا۔
ڑومی چیانگ کا دعویٰ ہے کہ "46ارب ڈالر"کی تکرار نے سی پیک پر نگاہ رکھنے والے چینی حکام کو بھی پریشان کردیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس بھاری بھر کم سرمایہ کاری کی توقع میں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کی حکومتیں سی پیک کے "مغربی روٹ" کو ترجیح دینے کا مطالبہ کرتی رہیں۔ پاکستان کی حکومت جبکہ "مشرقی روٹ" کو پہلے مکمل کرنا چاہ رہی ہے کیونکہ یہ پنجاب اور سندھ پر مشتمل ہوتے ہوئے سی پیک کے منصوبوں کی سکیورٹی کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔ چین مگر یہ نہیں چاہتا کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان میں صوبائی اختلافات کو بھڑکایا جائے۔
ڑومی چیانگ کے علاوہ چین کے ایک اور پروفیسر نے بھی امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی کیلئے جو تحقیقی مضمون لکھا وہ سی پیک کے بارے میں خدشات ہی پر توجہ دیتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے چند کاروباری حلقوں کا بھی ذکر ہوا جو محسوس کرتے ہیں کہ سی پیک پاکستان کو چینی قرضوں میں جکڑ دے گا اور پاکستان کو سیاسی اعتبار سے چین کی خوشنودی کا محتاج بنادے گا۔ پاکستانیوں کے برعکس Kuanli Dong نامی پروفیسر نے بھی اپنے مضمون میں اس خدشے کے کا اظہار کیا ہے کہ سی پیک سے جس بھاری بھر کم سرمایہ کاری کی توقعات ہیں وہ پوری نہ ہوئیں تو پاکستانی چین سے مایوس ہوجائیں گے۔ اگر واقعتابھاری بھر کم سرمایہ کاری ہوگئی تب بھی خود کو چینی قرضوں میں جکڑا محسوس کرتے ہوئے چین مخالف جذبات کا شکار ہوجائیں گے۔
پاکستانیوں کے دلوں میں سی پیک کے بارے میں ابھرتے جذبات کے برعکس چینی پروفیسر اپنے ملک میں سی پیک ہی کے بارے میں پائے خدشات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں سب سے کلیدی فکرمندی ان چینی ہنر مندوں کی سکیورٹی کے بارے میں پائی جارہی ہے جو سی پیک منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ پروفیسر ڈانگ نے "خبر" دی ہے کہ حال ہی میں چینی ہنرمندوں پر جو دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں ان کی وجہ سے چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان کا رخ کرتے ہوئے "احتیاط" کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ میرے لئے سب سے زیادہ پریشان کن بات مگر یہ حقیقت تھی کہ چینی ہنرمندوں کو پاکستان میں درپیش خطرات کا ذکر کرتے ہوئے میرے ملک کو عدم تحفظ کے حوالے سے صومالیہ اور شام جیسے حالات سے دوچار بتایا گیا ہے۔
مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر ابھرے دہشت گرد گروہ چینی ہنرمندوں کے عدم تحفظ کا اصل سبب بتائے گئے ہیں۔ سی پیک پر لکھی وہ کتابیں یا علمی مضامین جو انگریزی میں ترجمہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر محمد علی شیخ کی دسترس میں آئے وہ سب متفقہ طورپر اس رائے کا اظہار کرتے پائے گئے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر ابھرے دہشت پسندوں پر قابو پائے بغیر سی پیک کے کئی اہم منصوبوں کی بروقت تکمیل نہیں ہوپائے گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے دہشت گردی کے خوف سے بالآخر انہیں ترک کرنا پڑے۔
اتوار کے روز ڈاکٹر محمد علی شیخ کا مضمون پڑھنے کے بعد سے میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کوان مضامین اور کتابوں کی تلخیص ہمارے سفارت کاروں کے ذریعے پہنچائی گئی ہے یا نہیں جن کا تفصیلی ذکر مذکورہ مضمون میں ہوا ہے۔ کاش ہمارے اخبارات نے بھی ازخود ایسے مضامین کا پتہ چلالیا ہوتا تاکہ ہم اقتصادی اعتبار سے اہم ترین منصوبے -سی پیک- کو حقیقت پسندانہ انداز میں جاننے کے قابل ہوتے اور ان خدشات کے ازالے کیلئے یکسو اور تیار بھی جو چین اپنے ہنرمندوں کے تحفظ کی خاطر بیان کئے چلے جارہا ہے۔