ریٹنگز کے حصول کو بے قرار ٹی وی اینکروں کو ان دنوں شیر افضل مروت ویسے ہی مطلوب ہیں جیسے کسی زمانے میں "غریب کی چھت" کے بارے میں منافقانہ ٹسوے بہانے والے راولپنڈی کے ترجمان عصر ہوا کرتے تھے۔ 2008ء میں کافی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد پیپلز پارٹی چند دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو "میثاق جمہوریت" کی خاطر نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ نے اسے للکارنا مناسب تصور نہیں کیا۔
آصف علی زرداری کو ٹی وی اینکروں کی اکثریت پسند نہیں کرتی تھی۔ موصوف نے افتخار چودھری کو چیف جسٹس کے منصب پر بحال کرنے میں بھی مزاحمت دکھائی۔ اس مزاحمت نے آصف علی زرداری کو "آزاد عدلیہ" کا دشمن دکھاکر پیش کرنے میں آسانیاں فراہم کردیں۔ افتخار چودھری مگر بالآخر بحال ہوگئے اور پارلیمان میں "جعلی ڈگریوں" کی بدولت گھسے "چور اور لٹیروں" کو گھنے بالوں میں اٹکی جوئوں کی طرح چن چن کر نکالنے لگے۔
تمام ٹی وی پروگرام مگر افتخار چودھری کے کارناموں کو اجاگر کرنے کی نذر نہیں کئے جاسکتے تھے۔ ناظرین اکتانے لگے تو 2008ء کا انتخاب ہارے لال حویلی سے ابھرے دانشور، ٹی وی اینکروں کو ون-آن-ون انٹرویو کے لئے میسر ہونے لگے۔ ٹی وی کو وقت دینے کے لئے مقبول اداکاروں والے نخرے دکھاتے۔ اس سے گفتگو کے ذریعے اپنے پروگراموں کی رونق لگانے والے ساتھیوں نے ایک لمحے کو بھی نہ سوچا کہ نام نہاد گیٹ نمبر4کے اس دائمی وفادار کو کس نے یہ "اجازت" دی ہے کہ وہ ٹی وی سکرینوں پر دندناتے ہوئے جنرلوں کو یہ طعنے دے کہ وہ "ستوپی کر سورہے ہیں" جبکہ ملک لٹ رہا ہے۔ ٹی وی پر ایسی دہائی ڈیپ سٹیٹ کے سازشی ایوانوں کی تھپکی کے بغیر مچائی ہی نہیں جاسکتی۔ ہم سادہ لوح مگر اس پہلوپر توجہ نہیں دیتے۔ ٹی وی کے اوسط ناظر بازار میں اچانک مل جاتے تو مصر رہتے کہ راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھا منہ پھٹ ٹی وی پر گفتگو کے ذریعے ہم "غریبوں کے دل کی بھڑاس نکال دیتا ہے"۔ ان کی تائید کے علاوہ مجھے کوئی اور راہ دکھائی نہیں دیتی تھی۔
غریب کے دل کی بھڑاس نکالنے والا جس کے لئے "جیل سسرال کا درجہ" رکھتی تھی مگر عمران حکومت کے خاتمے کے بعد "چلّے" پر چلا گیا۔ چلّہ سے جو رہ نمائی حاصل کی اس کی بدولت 2024ء کا انتخاب لڑا۔ امید تھی کہ "لال حویلی کے فرزند" کو شہر والے کھلے دل کے ساتھ آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کے لئے منتخب کرلیں گے۔ انگریزی میں ایک محاورہ تاہم خبردار کرتا ہے کہ آپ تمام عمر کے لئے تمام لوگوں کو بے وقوف نہیں بناسکتے۔ دورِ حاضر کے عقل کامل بنے چرب زبان کا وقت بھی لہٰذا پورا ہوگیا۔ ان دنوں بازار میں کھڑے ہوکر توے پر لگائے پراٹھوں کو تائودے کر تصویریں بنواتے ہیں۔ انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے اپنی دانست میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ جیسے ماضی کی خطائوں کے ازالے کے لئے "تپسیا"سے کام لے رہے ہیں۔ یہ مگر بھول چکے ہیں کہ "تپسیا" کیمروں کے روبرو نہیں تنہائی میں کی جاتی ہے۔
پہلی لائن شیر افضل مروت سے شروع ہوئی تھی۔ صفحہ پورا راولپنڈی کے لال حویلی سے منسوب چرب زبان کی نذر ہوگیا۔ کالموں پر نگاہ رکھنے والے چند خودساختہ دانشور حالیہ دنوں میں اس امرپربہت تلملانا شروع ہوگئے ہیں کہ "ان دنوں کے کالم نگار" اصل موضوع سے ہٹ جاتے ہیں۔ خود پرستی کی رعونت میں مبتلا ان دانشوروں کو غالباََ یہ خبر نہیں پہنچی کہ "کالم" اپنے تئیں ایک صنف ہے۔ یہ انشائیہ کے قریب تر صنف ہے۔ کسی خاص موضوع کو آسان الفاظ میں بیان کرنے کا اس کا مقصد نہیں۔ یہ فریضہ مضمون نویس سرانجام دیتے ہیں۔ آج سے تقریباََ دو سوبرس قبل یورپ میں ایک صنف ایجاد ہوئی تھی جسےof Consciousness Stream پکارا گیا۔ "شعور کا بہائو" اس کا آسان ترجمہ ہوسکتا ہے۔
وسیع تر تناظر میں لیکن یہ نثر کی ایسی قسم ہے جو کئی حوالوں سے انتہائی حقیقت پسندانہ ہے۔ گھر میں اکیلے بیٹھے ہم کسی ایک چیز پر توجہ مرکوز نہیں رکھتے۔ کسی کا خیال آتے ہی دھیان یہاں سے وہاں بھٹکنا شروع ہوجاتا ہے۔ صرف ایک نقطعے پر توجہ مرکوز رکھنا انسانوں کے بس سے باہر ہے۔ یوگی ہی اس ضمن میں کئی نوعیت کی ریاضتوں کے بعد کامیاب ہوتے ہیں۔ عام آدمی کی طرح میں بھی شیر افضل سے شروع ہوکر لال حویلی والے کی جانب بھٹک گیا۔ یہ لکھنے کے بعد مگر ایک لمحے کورکا۔ قلم رکھ کر کافی کا گھونٹ لیا تو خیال آیا کہ شیر افضل کے ذکر سے شروع ہوکر لال حویلی کے چرب زبان تک مڑجانا فطری ہی نہیں بلکہ کئی حوالوں سے قطعاََ منطقی بھی تھا۔
بات ریٹنگ سے شروع ہوئی۔ لاشعور نے فوراََ شعور کو یاد دلایا کہ چند ہی برس قبل ایک اور "وکھری ٹائپ"کا چرب زبان بھی ہواکرتاتھا۔ اس سے ون آن ون کرنا ہمارے کئی پھنے خان اینکر اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھا کرتے تھے۔ وہ یاد آئے تو موصوف کا زوال بھی یاد آگیا۔ کاش ان کا رویہ انسانی رہا ہوتا تو میرے دل میں ان کے لئے رحم کے جذبات پیدا ہوتے۔ "چار نمبرگیٹ" سے تعلق کی بنیاد پرد ندناتے "ہیرو" مگر مجھے متاثر نہیں کرتے۔
شیر افضل مروت سے آج تک ملا نہیں ہوں۔ ملنے کی تمنا بھی نہیں۔ ان دنوں ٹی وی سکرینوں پر مگر وہ بہت رش لے رہے ہیں۔ میرے کئی ساتھی توسنجیدگی سے یہ سوچنا بھی شروع ہوگئے ہیں کہ شاید ان کی وجہ سے تحریک انصاف میں شدید اختلافات پیدا ہوجائیں گے جو بالآخر عمران خان کو کمزور کرنے کا باعث ہوسکتے ہیں۔
ایسے دوستوں سے درخواست ہے کہ 1970ء کی دہائی کا آغاز یاد کرلیں۔ ان دنوں فیصل آباد لائل پور تھا۔ وہاں ایک صاحب ہوتے تھے مختار رانا۔ جوش وجذبے سے بھرپور انقلابی تھے۔ 1970ء کے انتخاب میں انہوں نے ریکارڈ توڑ ووٹ لئے۔ اپنی "عوامی مقبولیت"کی بنا پر ذوالفقار علی بھٹو کو مگر سمجھانا شروع ہوگئے کہ "خالص انقلاب" کیا ہوتا ہے۔ ان سے "انقلاب" سیکھنے کے بجائے بھٹو صاحب نے انہیں گرفتار کروادیا۔ گرفتاری کے دوران یہ "انقلابی" کئی مہینوں تک لاہور کے میوہسپتال کے ایک وی آئی پی وارڈ میں گرفتار رہے۔ میں بطور طالب علم گورنمنٹ کالج سے نکل کر اکثر ان سے ملنے چلا جاتا۔ ان کی تنہائی سے خوف محسوس ہوتا۔ بالآخر رانا صاحب ایک روز خاموشی سے پاکستان چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے۔ وہاں کے محکمہ ڈاک کے ملازم ہوگئے اور بقیہ عمر گمنامی کی نذر کردی۔ مروت صاحب کی شہرت بھی میری نگاہ میں عارضی ہے۔ ربّ کریم انہیں حفظ وامان میں رکھے۔