Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Siasatdano Ki Aanio Janio Se La Taluq Awam

Siasatdano Ki Aanio Janio Se La Taluq Awam

پی ایس ایل کے لئے "لاہور قلندر" نامی ٹیم کا قیام عمل میں لانے والے فواد اور عاطف رانا میرے دوست نہیں بلکہ چھوٹے بھائیوں جیسے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ جماندرو لہوریا ہوتے ہوئے میں بھی ان کی لگن کا ہم سفر رہوں۔ نیک تمنائوں کے پرخلوص اظہار کے سوا مگر کسی اور نوعیت کی سرپرستی فراہم کرنے کے میں قابل ہی نہیں تھا۔ سکول کے دنوں ہی سے کھیل کود سے گریز کرتے ہوئے کتابی کیڑا بن چکا ہوں۔ آج تک یہ بھی سمجھ نہیں پایا کہ کوئی بلے باز ایل بی ڈبلیو کی وجہ سے کیوں اور کیسے آئوٹ قرار دیا جاتا ہے۔

کرکٹ کے کھیل سے کامل عدم دلچسپی اور ناواقفیت کے باوجود اتوار کی شام لاہور سے گھر لوٹتے ہی فوراََ اپنے کمرے میں لگا ٹی وی آن کردیا۔ لاہور قلندر اپنی بیٹنگ کے آخری اوورز میں چوکوں چھکوں کا سیلاب برپا کررہی تھی۔ اس سے بھرپور لطف اٹھایا اور میچ کو آخری لمحات تک پوری توجہ سے دیکھا۔

کئی برس کی پرکٹھن جدوجہد کے بعد "لاہور قلندر" اب بالآخر چمپئن ٹرافی کی حق دار ثابت ہوچکی ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے مذکورہ ٹیم کے کھلاڑیوں اور منتظمین نے مشکلات کے جو پہاڑ سرکئے ہیں ان میں سے چند کی تفصیلات سے ذاتی طورپر آگاہ ہوتے ہوئے بھی میں فقط مبارک اور شاباش کے الفاظ ہی ادا کرسکتا ہوں۔ میرے قنوطی پن سے بخوبی آگاہ ہوتے ہوئے رانا برادران"تھوڑے کو بہت" مانتے ہوئے میرے ان جذبات کو یقینامحبت سے قبول کریں گے۔ دہری مبارک باد کے مستحق وہ اس لئے بھی ہیں کہ طویل وقفے کے بعد میں نے لاہورمیں پی ایس ایل کی بابت گرم جوشی کو حقیقی معنوں میں موجزن دیکھا۔ قذافی سٹیڈیم کی رونق اور گہماگہمی بھرپور انداز میں لوٹ آئی ہے اور "لاہور قلندر"نے میرے آبائی شہر میں بے تحاشہ دلوں کوگرماتے ہوئے انہیں بالآخر فخروانبساط بھی فراہم کردیا ہے۔

پی ایس ایل کی بدولت ابھری گرم جوشی کے تناظر میں اپنے مختصر قیام لاہور کے دوران ذات کے اس رپورٹر نے مگر سیاسی معاملات کی بابت سردمہری کو حیران کن محسوس کیا۔ اپنے قیام کے دوران میں نے بیشتروقت فقط اپنی فیملی کے ساتھ صرف کیا۔ اتوار کی دوپہر البتہ نکاح کی ایک تقریب میں شریک ہوا۔ وہاں مدعو ہوئے افراد لاہوری مزاج کے بھرپور نمائندے تھے۔ دس برس تک ٹی وی پروگراموں کی میزبانی کی وجہ سے کئی اجنبی افراد سماجی تقریبات کے دوران مجھ سے ازخود گپ شپ کا آغاز کرتے ہیں۔

سیلفی وغیرہ ہوجائے تو نہایت اشتیاق سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیاسی محاذ پر کیا ہورہا ہے۔ اتوار کی دوپہر 30کے قریب اجنبیوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی لیکن یہ معلوم کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی کہ اپوزیشن جماعتیں عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد واقعتا لارہی ہیں یا نہیں۔ اگر تحریک عدم اعتماد واقعتا پیش ہونا ہے تو اس کا ممکنہ انجام کیا ہوسکتا ہے۔

سیاسی معاملات کی بدولت لاہور جیسے باتونی شہر میں ایسی لاتعلقی مجھے حیران کن محسوس ہونا لازمی تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے روایتی اور سوشل میڈیا پر ان دنوں حاوی ہوئی بحث اور سوالات بھی ہمارے عام متوسط طبقے کے نمائندہ افراد کے لئے قطعاََ لاتعلق محسوس ہوئے۔ اسلام آباد لوٹتے ہوئے میں سکھیکی کے مقام پر چائے وغیرہ کے لئے رکا۔ وہاں بھی دس کے قریب افراد نے محض میرے ساتھ سیلفی بنائی اور روایتی خیروعافیت کی دُعا مانگنے کے بعد رخصت ہوگئے۔

سیاسی معاملات کے بارے میں جس لاتعلقی کا مشاہدہ کیا اس کی بابت کئی گھنٹے سوچتا رہا ہوں۔ مجھے گماں ہے کہ عوام کی اجتماعی نظر آنے والی مذکورہ لاتعلقی کا حقیقی سبب یہ ہے کہ ہماری اپوزیشن جماعتیں اپنی قیادتوں کی "آنیوں جانیوں " اور ایک دوسرے سے تنہائی میں ہوئی ملاقاتوں کی بدولت لوگوں کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ وطن عزیز میں سیاسی منظر نامہ تشکیل دینے کے حوالے سے وہ کسی قوت کے حامل نہیں۔ حکومتیں بنانے اور انہیں ہٹانے کا اختیار میرے اور آپ جیسے پاکستانی کو ہرگز میسر نہیں ہے۔ ہمارے ووٹوں کی بدولت جو افراد قومی اسمبلی میں پہنچے ہیں وہ محض اقتدار کا کھیل رچانے میں مصروف ہیں۔ دورِ حاضر میں گویا ایک نئی طرز کی محلاتی سازشیں ہورہی ہیں۔ عام آدمی کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں۔

ملکی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ایسی محلاتی سازشیں ہمارے ہاں 1950ء کی دہائی میں متعارف ہوئی تھیں۔ لیاقت علی خان کے 1951ء میں قتل کے بعد برطانوی سامراج کا سدھایا ملک غلام محمد ہمارا گورنر جنرل ہوا۔ برطانیہ ہی کے ایک اور سیاسی جوڑ توڑ کے حوالے سے تربیت یافتہ کارندے میجر جنرل اسکندر مرزا نے اسے وزیر اعظم لگانے اور ہٹانے والے اختیارات کا بھرپور استعمال سکھایا۔ پاک فوج کے پہلے دیسی سربراہ جنرل ایوب خان اس ضمن میں معاونت فراہم کرنے کے باوجود نہایت ہوشیاری سے "دیدہ ور" کی صورت نمودار ہونے کی تیارکرتے رہے۔ بالآخر اکتوبر1958ء ہوا او ر1668ء تک ہم بے بس و اختیار ہوئے ایوب خان اور اس کے مصاحبین کے بنائے راستے پر سرجھکائے چلتے رہے۔

مجھ جیسے سادہ لوح یہ فرض کئے بیٹھے تھے کہ 2000ء سے شروع ہونے والی "نئی صدی" میں 1950ء کی دہائی والی تاریخ نہیں دہرائی جائے گی۔ ہم جیسے خام خیالوں کو درست ثابت کرنے کے لئے "ووٹ کو عزت دو" والا نعرہ بھی بلند ہوا۔ وہ نعرہ مگر اب فراموش کردیا گیا ہے۔ آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن ایک دوسرے سے مسلسل ملاقاتیں کررہے ہیں۔ مذکورہ ملاقاتوں کے دوران نظر بظاہر فقط یہ طے کیا جارہا ہے کہ تحریک انصاف سے ناراض ہوئے کتنے اراکین اب برملا بغاوت کے اظہار کو آمادہ ہوچکے ہیں۔ ان کی "بغاوت" تحریک عدم اعتماد والی گوٹ چلانے کے لئے کافی ہے یا نہیں۔ فرض کیا یہ گوٹ چلادی جائے اور اس کے نتیجے میں عمران خان صاحب کو شہ مات کا سامنا کرنا پڑے تو اس کے بعد کیا کرنا ہے۔ فوری انتخاب یا موجودہ پارلیمانی بندوبست ہی کو 2023ء تک برقرار رکھناہے۔

ان سوالات کی بابت فیصلہ ہو بھی جائے تو کم از کم مجھ جیسے نام نہاد صحافی کو ہرگز خبر نہیں کہ مہنگائی کا طوفان روکنے کے لئے عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کو بے چین اپوزیشن جماعتیں کونسی حکمت عملی تیار کئے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ 2019ء میں ڈاکٹر حفیظ شیخ نے جو بندوبست طے کیا تھا اسے برقرار رکھنا ہے یا نہیں۔ اسے برقرار رکھتے ہوئے مہنگائی روکنے کی راہ دریافت ہونہیں سکتی۔

مذکورہ بندوبست کو یکسر رد کردینا بھی تاہم حکمت عملی کے حوالے سے بے تحاشہ سوالات اٹھائے گا۔ ان تمام امور کے بارے میں لیکن سنجیدہ اورگرم جوش بحث ہونہیں رہی۔ ایسے عالم میں عوام کی بے پناہ اکثریت سیاستدانوں کی آنیوں جانیوں سے قطعاََ لاتعلق محسوس کرتے ہوئے پی ایس ایل کے میچوں سے اپنا جی نہ بہلائے تو اور کیا کرے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.