طارق ملک سے میری چار سے زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔ مذکورہ ملاقاتیں بھی محض اتفاقاً اور مشترکہ دوستوں کے ہاں ہوئی تھیں۔ موصوف کا ذکر تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو بہت شفقت سے کیا کرتی تھیں۔ ان کی دانست میں طارق ملک نے دورِ حاضر میں ڈیٹا جمع کرنے کی اہمیت کو تخلیقی انداز میں سمجھا اور اس کے لیے مطلوب ہنر پر گرفت کے حامل بھی ہوگئے۔ غالباً اسی بنیاد پر طارق ملک کو 2008ءکے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نادرا کا چیئرمین لگانے کو مائل ہوئی۔
سرکاری عہدوں کی اہمیت سے میں ذاتی طورپر بخوبی آشنا نہیں۔ غالباً اس کی وجہ صحافیانہ رعونت ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تگڑے، عہدوں پر تعیناتی یا وہاں سے برطرفی کی قوت کے حامل لوگوں کے دیرینہ مشاہدے نے مجھ جھکی کو اقتدار کے کھیل سے لاتعلق بنادیا ہے۔ بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو میری چھٹی حس محسوس کرتی رہی کہ طارق ملک کی بطور چیئرمین نادرا تعیناتی میرٹ، ہی کی بدولت ہوئی۔
میرا موصوف کی حمایت میں موجود تعصب کا حقیقی سبب ان کے والد پروفیسر فتح محمدملک ہیں۔ جوانی کے دنوں میں پروفیسر صاحب کو میں نام نہاد دائیں بازو، کا روایتی نقاد تصور کرتا رہا جو نظریہ پاکستان، کی نت نئی تشریحات سے دانشورانہ دھندا چلاتے ہیں۔ ان کی تحریروں کے بغور مطالعے نے بالآخر یہ تسلیم کرنے کو مجبور کردیا کہ و ہ قیامِ پاکستان کے لیے چلائی تحریک کو ٹھوس تاریخی اور اقتصادی تناظر میں سراہتے ہیں۔
اس ضمن میں ان کی جانب سے فیض احمد فیض جیسے راندہدرگاہ، بنائے شاعر کی توصیف بھی اپنے تئیں اہم ترین ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی ادبی خدمات کو بھی انھوں نے ایک نئے انداز میں جانچا۔ اقبال شناسی کے حوالے سے بھی اکثر میں ان کے لکھے چند مضامین پڑھنے کو مجبور ہوا۔ پرانی وضع کا بندہ ہوتے ہوئے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ فتح محمد ملک کا بیٹا دونمبر، نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ مذکورہ تناظر میں چند نمایاں ناموں نے بہت مایوس بھی کیا۔ ان کے نام لینا فی الوقت مناسب نہیں۔
2013ءکے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو اس کے طاقت ور ترین وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان طارق ملک سے نجات کے چکر میں الجھ گئے۔ چودھری صاحب تک رسائی میرے لیے دشوار نہیں تھی۔ تنہائی میں اٹھائے میرے سوالات کا آف دی ریکارڈ، جواب دینے سے انھوں نے کبھی گریز نہیں کیا۔ اس امر کے باوجود سرکاری عہدوں پر تعیناتی سے متعلق اپنائی لاتعلقی نے مجھے کبھی اکسایا نہیں کہ چودھری صاحب سے رابطہ کرکے معلوم کروں کہ انھیں طارق ملک سے کیا مسئلہ ہے۔ فرض کرلیا کہ وہ انھیں پیپلز پارٹی کا بندہ، سمجھتے ہوں گے اور 1990ءکی دہائی سے ہمارے ہاں سرکاری افسر برطانوی استعمار کے بنائے پبلک سرونٹ، اور ہم جیسے عامیوں کے لیے مائی باپ، نہیں رہے۔ اس یا اس جماعت کے بندے، بن چکے ہیں۔
عمران حکومت کے قیام کے بعد تاہم میں بہت حیران ہوا جب پیپلز پارٹی کا بندہ، شمار ہوتے طارق ملک کو ایک بار پھر نادرا کا چیئرمین تعینات کردیا گیا۔ مذکورہ تعیناتی کے چند ماہ گزرنے کے بعد ان سے ایک مشترکہ دوست کے ساتھ ملاقات ہوگئی۔ میں نے ان کی تعیناتی پر حیرت کا اظہار کیا۔ وہ خود بھی اس بابت خوش گوار حیرت کا شکار نظر آئے۔ بہت تفصیل سے بتایا کہ بیرون ملک ایک اہم عالمی ادارے میں پرکشش ملازمت پر تعیناتی کے باوجود وطن کی یادانھیں ستاتی تھی۔
نادرا کے چیئرمین کا منصب خالی ہوا تو سرکار نے نئے افراد ڈھونڈنے کا اشتہار دیا۔ وہ اشتہار پڑھ کر انھوں نے بھی درخواست بھیج دی۔ بعدازاں شارٹ لسٹ ہوئے افراد سابق وزیر اعظم کے بااعتماد معاونین ومشیروں کے روبرو بھی پیش ہوتے رہے۔ بالآخر معاملہ کابینہ میں منظوری کے لیے پیش ہوا۔ کابینہ کے اجلاس میں چند وزراءنے ان کی تعیناتی کی مخالفت محض اس بنیاد پر کی کہ وہ پیپلز پارٹی کے بندے، ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے مگر یہ اعتراض نظر انداز کرتے ہوئے انھیں نادرا کا چیئرمین تعینات کرنے کی وفاقی کابینہ سے منظوری دلوادی۔
مجھے ہرگز خبر نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک اور وزیر داخلہ یعنی رانا ثناءاللہ خان صاحب نے اب کی بار انھیں محض عمران خان کا بندہ، تصور کرتے ہوئے منگل کے دن استعفیٰ دینے کو مجبور کیا یا اس کے علاوہ بھی کوئی گھپلا، ہے۔ اگر گھپلا، واقعتا موجود تھا تو طارق ملک کے خلاف شدید انضباطی کارروائی ہونا چاہیے تھی۔ ممکنہ کارروائی اگر ٹھوس بنیادوں پر ہوئی نظر آتی تو میں طارق ملک کی حمایت میں ایک لفظ بھی نہ لکھتا۔ اس کے برعکس شاید اس دکھ کا اظہار کرنے کو مجبور ہوجاتا کہ پروفیسر فتح محمد ملک کے فرزند سے مجھے یہ امید نہ تھی،۔
طارق ملک نے جو استعفیٰ لکھا ہے اس کے اختتامی کلمات واضح انداز میں عندیہ دے رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے انھیں اپنا بندہ، شمار نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی نے بھی شاید عمران حکومت کے دوران ان کی نادراچیئرمین کی حیثیت میں واپسی کی وجہ سے انھیں اپنا بندہ، قرار دینا چھوڑ دیا ہوگا۔ بہرحال اگر معاملہ کسی کا بندہ ہونے تک ہی محدود ہے تو بہت ہی افسوس نا ک فعل ہے۔ پاکستان کی روایتی بیوروکریسی اب جدید دور کے تقاضوں سے نبردآزما ہونے کے قابل افسر تیار نہیں کررہی۔ اسی باعث کئی ذہین افسروں کو ہماری سرکار دنیا کی معروف یونیورسٹیوں میں چند مخصوص شعبوں کی بابت مہارت کے حصول کے لیے بھجوانے کو مجبور ہوجاتی ہے۔
دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ سی ایس ایس کے ذریعے سرکاری ملازمت میں آئے ذہین نوجوان ہارورڈ یا اوکسفرڈ جیسی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم کے بعد وطن لوٹتے ہیں تو ان میں سے کئی سرکاری عہدوں سے اکتاکر نوکری سے مستعفی ہوجاتے ہیں۔ ایسے افراد کی اکثریت کو طاقت ور ملٹی نیشنل کمپنیوں یا عالمی اداروں نے اپنے لیے کام کرنے کو اچک لیا ہے۔ فقط چند نوجوان ہی وطن کی محبت میں اس ملک میں موجود رہتے ہوئے اپنی ذہانت کی بدولت خوشحال زندگی بسرکررہے ہیں۔
طارق ملک کا استعفیٰ میرے لیے اس تناظر میں بری خبر ہے۔ ہماری ریاست وحکومت کو جدید تقاضوں کے قابل گورننس، کو یقینی بنانے کے لیے تازہ ذہنوں، کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے ذہنوں کی دل شکنی نہیں ہونا چاہیے۔