Sunday, 23 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Tehreek e Insaf Saqafti Inqilab Ka Gang Of Four Banne Ki Janib Gamzan

Tehreek e Insaf Saqafti Inqilab Ka Gang Of Four Banne Ki Janib Gamzan

1970ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی اپنے کئی ہم عصروں کی طرح میں بھی پاکستان میں ویسا ہی انقلاب لانے کو بے چین رہتا تھا جو مائوزے تنگ کی قیادت میں ہمارے یار چین میں برپا ہوا تھا۔ عجب اتفاق یہ بھی ہوا کہ ان دنوں چین میں "ثقافتی انقلاب"کی دھوم دھام تھی۔ چینی انقلاب کے بانی کو شکایت تھی کہ اقتدار سنبھانے کے بعد چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہ نما عوام کی خدمت کے بجائے جاہ پرست افسر بن گئے ہیں۔

مائو نے لہٰذا نوجوانوں کو حکم دیا کہ وہ انقلابی جذبے سے محروم ہوئے افسران کے دفتروں پر دھاوے بولیں۔ عوام کو ان سے جو شکایات تھیں وہ بینروں کی صورت ان کے دفتروں کے باہر فردِ جرم کی طرح لٹکادی جاتیں۔ مائوزے تنگ کی جوان اہلیہ ان کی رہ نما تھیں۔ "ثقافتی انقلاب" میں لہٰذا حرارت شدید تر ہونا شروع ہوگئی۔ ہزار ہا چینی اعلیٰ ترین عہدوں سے ہٹاکر ملک کے دور دراز دیہاتوں میں جسمانی مشقت پر مامور کردئے گئے۔ امید باندھی گئی کہ عام کسانوں کی طرح زندگی گزارتے ہوئے ان کے دلوں میں مردہ ہوئے انقلابی جذبے کو حیات نو مل جائے گی۔

چند ہی مہینوں بعد مگر دریافت ہوا کہ "ثقافتی انقلاب" چینی ریاست اور اس کی معیشت کو تباہی سے دو چار کررہا ہے۔ "امریکی سامراج کو کاغذی شیر" پکارنے والے ماؤزے تنگ کو لہٰذا اس ملک کے صدر نکسن سے ملاقات کرنا پڑی۔ غالباََ اسی دُکھ سے وہ چند ماہ بعد طویل بیماری کے بعد دنیا سے بھی رخصت ہوگئے۔ ان کے دیرینہ مگر معتدل مزاج ساتھی چو این لائی بھی دنیا میں نہ رہے۔ ان دونوں کی جگہ ابھرے ڈنگ سیاؤپنگ نے جدید علم کے حصول کے لئے لاکھوں چینی نوجوانوں کو امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں بھجوایا۔ اپنے ملک کو غیر ملکی سرمایہ داری کے لئے کھول دیا۔ چین کی سستی اُجرت اور مزدوروں پر کامل ریاستی کنٹرول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنیاں دھڑا دھڑ چین میں سرمایہ کاری کرنے لگیں۔ عالمی سطح پر مشہور برانڈ چین میں سستے داموں تیار ہوکر دنیا بھر میں فیشن کے حوالے سے مشہور دوکانوں میں مہنگے داموں بکنے لگے۔

حسب عادت اصل موضوع سے بھٹک گیا۔ چین کا "ثقافتی انقلاب" درحقیقت ان دنوں پاکستان میں تحریک انصاف کی مشکلات کو ذہن میں لاتے ہوئے یاد آیا تھا۔ اپریل 2022ء میں اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد بانی تحریک انصاف روزانہ کی بنیاد پر شہر شہر گئے۔ امریکہ سے آئے ایک سائفر کو انہوں نے اپنی حکومت کے گرنے کی اصل وجہ بتایا۔ امریکہ کے حوالے سے "ہم کوئی غلام ہیں" کا سوال اٹھاتے ہوئے وہ ریاست پاکستان کے کلیدی اداروں میں موجود "میر جعفروں" کا تواتر سے ذکر کرتے۔ ان کی جگہ اقتدار میں آئے شہباز شریف اور ان کی بھان متی کا کنبہ دِکھتی حکومت اندازہ ہی نہ لگاسکی کہ اپنے بیانیے کو وہ کس انداز میں نوجوانوں کی روح تڑپانے اور قلب گرمانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ "ملک کو دیوالیہ سے بچانے" میں مصروف سیاستدانوں کے برعکس "میر جعفر" کی تہمت نظرانداز کرتے ہوئے قمر جاوید باجوہ ان دنوں کے صدر علوی کے ذریعے عمران خان کا جی رام کرکے اپنے عہدے میں مزید توسیع کی کوشش کرتے رہے۔

اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان نے نوجوانوں کی موثر تعداد کو جس انداز میں متحرک کیا اس کا نتیجہ 8فروری 2024ء کے دن دھماکے کی صورت برآمد ہوا۔ 9فروری کی صبح ہونے تک تحریک انصاف مگر یہ طے نہ کر پائی کہ اس کے برپا کئے "انقلاب" کا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے۔ اصولی طورپر اگر وہ واقعتاً اس امر پر قائل تھی کہ اس کا "مینڈیٹ" چرالیا گیا ہے تو نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس جماعت کی حمایت سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے منتخب ہوئے اراکین کو مذکورہ ایوانوں میں بیٹھنے سے انکار کردینا چاہیے تھا۔ یہ کرنے کے بجائے انہوں نے خیبرپختونخواہ میں حکومت بنانے کو ترجیح دی لیکن وفاق میں واحد اکثریتی حکومت کی حیثیت میں ابھرنے کے باوجود حکومت سازی کی طرف قدم اٹھانے سے انکار کردیا۔

جو پالیسی اپنائی گئی اس نے تحریک انصاف کے ان نوجوانوں کو تحریک انصاف کی اس قیادت سے قطعاََ ناراض کردیا ہے جو ان دنوں خیبرپختونخواہ میں حکومت بنائے بیٹھی ہے یا منتخب ایوانوں کا رکن ہونے کی وجہ سے "مزے کی زندگی" گزارتی نظر آرہی ہے۔ غصے سے بپھرے یہ نوجوان سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے نام پر ووٹ لینے کے بعد تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی اورسینٹ اپنے قائد کی رہائی کے لئے فکر مند نہیں۔ کسی نہ کسی حوالے سے "مقتدرہ" کے ساتھ مل چکے ہیں۔ قصہ مختصر "عمران خان سے غداری کے مرتکب ہورہے ہیں"۔

جیل سے باہر موجود تحریک انصاف کے رہ نمائوں سے مایوس ہوئے نوجوانوں کی اکثریت سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہے۔ ان کی اسی مہارت کے سبب 8 فروری ہوا تھا۔ 8 فروری کو مگر لوگوں کو اس امرپر اکسانا تھا کہ وہ گھروں سے نکلیں اور فلاں پولنگ اسٹیشن پر جاکر فلاں انتخابی نشان پر مہر لگادیں جو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کا نشان ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا یہ پیغام ہر اعتبارسے حیران کن تھا۔ "تاریخ" بنانے کے باوجود مگر 8فروری کے دن لوگوں کو محض گھروں سے نکل کر خاموشی سے عمران خان کے تائید یافتہ امیدوار کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ اس کے ذریعے ریاست کے طاقتور ترین ادارہ کو للکارنے کا ذکر نہ تھا۔

مارچ 2025ء میں حالات مگر یکسر بدل گئے ہیں۔ ملک اس وقت دہشت گردی کی شدید ترین لہر کا سامنا کررہا ہے۔ اس سے نبردآزما ہونے کی تدابیر سوچنے کے لئے حکومت نے نہایت مہارت سے "آل پارٹی کانفرنس" بلانے کے بجائے ایک "پارلیمانی کمیٹی" کو دعوت دی۔ مذکورہ کمیٹی کے قیام کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود سب جماعتوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں اور منگل کے روز وہ نمائندے اعلیٰ ترین فوجی قیادت سے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجوہات جاننے کے لئے پارلیمان کی عمارت میں ہوئے ایک "اِن کیمرہ" اجلاس میں شریک ہوں۔

"پارلیمانی کمیٹی" کا ذکر سنتے ہی سوشل میڈیا پر چھائے تحریک انصاف کے نوجوانوں نے اس "بیانیے" کو تیزی سے پھیلانا شروع کردیا کہ مذکورہ کمیٹی کا قیام درحقیقت دہشت گردی سے نبرآزما ہونے کی خاطر بلائی ایسی "آل پارٹیز کانفرنس" سے گریز ہے جو پشاور میں اے پی ایس سانحے کے بعد ہوئی تھی۔ نواز حکومت کے دوران ہوئی اس کانفرنس میں عمران خان اپنا دھرنا چھوڑ کر شریک ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کے نوجوانوں کو یقین ہے کہ اب کے بار ہوئی "آل پارٹیز کانفرنس" عمران خان کی شرکت کے بغیر کار بے سود نظر آئے گی۔ اے پی سی اور اس میں عمران خان کی شرکت یقینی بنانے کے لئے مگر لازمی تھا کہ تحریک انصاف کے جیل سے باہر موجود رہ نما "پارلیمانی کمیٹی" کے اجلاس میں شرکت سے انکار کردیتے۔ انکار کی ہمت نہیں تھی تو اس وقت تک اس میں شرکت کو آمادہ نہ ہوتے جب تک ان کی جیل میں "عمران خان سے ہدایات لینے کے لئے" ملاقات کا بندوبست نہ ہوجاتا۔

انتہائی طیش کے عالم میں عاشقان عمران اس حقیقت کونظرانداز کئے ہوئے ہیں کہ جعفر ایکسپریس کے اغواء کے بعد حکومتی ترجمان نہایت سوچ بچار کے بعد تیار ہوئی حکمت عملی کے ذریعے یہ تاثر پھیلارہے ہیں کہ تحریک انصاف کا "دوست سوشل میڈیا" دہشت گردی کی اس ہولناک واردات کے دوران مبینہ طورپر "ملک دشمن قوتوں" کے ساتھ کھڑا تھا۔ ایسے عالم میں تحریک انصاف کی پارلیمانی قیادت منگل کے روز ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کردیتی تو اپنی جماعت کے خلاف لگائے الزامات کو لاشعوری طورپر تصدیق فراہم کردیتی۔ تحریک انصاف کے جذباتی حامیوں کو پانی کے دو گھونٹ پی کر یہ حقیقت دریافت کرلینا چاہیے کہ سیاست "لچک" کا تقاضہ کرتی ہے۔ سخت گیر موقف پر ڈٹے رہناآپ کو چین میں آئے "ثقافتی انقلاب" کا بالآخر "گینگ آف فور" بنادیتا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.