کئی مہینوں سے اس کالم میں تواتر سے دہرائے چلے جارہا ہوں کہ سوشل میڈیا پر مچایا شوروغوغا "وقت قیام" ٹھس ہوجاتا ہے۔ اس کی بدولت جو "ذہن سازی" ہوتی ہے وہ لوگوں کو اپنے دل یا ہم خیالوں کی محافل میں چند اعمال کو برا تصور کرنے تک محدود رہتی ہے۔ یہ لکھنے کے بعد اعتراف یہ بھی کرنا ہوگا کہ سوشل میڈیا کی محدودات میرے کوتاہ ذہن نے دریافت نہیں کی تھیں۔ ان کا علم مجھے امریکہ میں مقیم ایک ترک نڑاد لکھاری -زینب توفیقی- کی تحریروں سے ہوا۔ اس نے آج سے ایک دہائی قبل مصر میں چلی نام نہاد "عرب بہار" کو اس ملک میں کئی مہینوں تک قیام کے دوران تحقیقی نگاہ سے دیکھا ہے۔
وہاں چلی تحریک کے انجام پر جب فرعونی روایات کا عادی مصر ایک بار پھر فوجی آمریت کی نذر ہوا تو اس نے "عرب بہار" کے مایوس کن خزاں میں تبدیل ہوجانے کے عمل کی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں ٹویٹر جو اب ایکس کہلاتا ہے کی حرکیات کا بغور جائزہ بھی کلیدی اہمیت کا حامل تھا۔ دو سے زائد برسوں کی تحقیق کے انجام پر اس نے ایک کتاب لکھی۔ "ٹویٹر اور آنسو گیس" اس کا عنوان تھا اور یک سطری نتیجہ اس نے یہ اخذ کیا کہ "ٹویٹر" یعنی عوامی احتجاج اور آنسو گیس یعنی ریاستی جبر کے مابین مصر اور پاکستان جیسے ممالک میں"تخت یا تختہ" والی چپقلش شروع ہوجائے تو جیت بالآخر ریاست ہی کی ہوتی ہے۔
زینب توفیقی کے علاوہ امریکہ کی دو مشہور یونیورسٹیوں نے بھی رواں صدی کے آغاز میں ہم جیسے ممالک میں ابھری عوامی تحاریک کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس ضمن میں ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے 20کے قریب ممالک پر توجہ مبذول ہوئی تو دریافت یہ ہوا کہ فقط دو ممالک میں ایسی تحاریک اپنے اہداف کے حصول میں"کسی حد" تک کامیاب ہوئیں۔ بقیہ ممالک میں ریاست نے انہیں سختی سے کچل دیا۔ تھائی لینڈ بھی ہمارے جیسا ملک ہے جسے "خاص جمہوریت" شاذہی نصیب ہوئی۔ وہاں کا ایک وزیر اعظم ہمارے نواز شریف صاحب جیسا تھا۔ عسکری قیادت سے اس کا جھگڑا ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں اسے جلاوطن ہونا پڑا۔
اس کی عدم موجودگی میں تھائی لینڈ کی عدالتوں نے اسے بدعنوانی کے الزامات کے تحت سنگین سزائیں بھی سنائیں۔ اس کی عدم موجودگی میں اس کی بہن اس کی بنائی سیاسی جماعت کی سربراہ بنی اور مختصر وقت کے لئے اپنے ملک کی وزیر اعظم بھی ہوئی۔ تھائی لینڈ کی فوج نے مگر اس کی حکومت کا بھی تختہ الٹ دیا۔ تھائی لینڈ میں مارشل لاء کے نفاد کے خلاف طالب علموں نے 2019ء میں ایک تحریک کا آغاز کیا۔ یہ تحریک بتدریج نوجوانوں پر مشتمل ایک سیاسی جماعت کی تشکیل کا سبب ہوئی۔ گزشتہ برس انتخاب ہوئے تو یہ جماعت واحد اکثریتی جماعت کی صورت ابھری۔ دوسرے نمبر پر وہ جماعت رہی جس کا بانی خودساختہ جلاوطنی میں زندگی گزاررہا تھا۔
اصولی طورپر اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جلاوطن ہوئے سابق وزیر اعظم اور نوجوانوں کی بنائی جماعت"کامل جمہوریت" کا نفاذ یقینی بنانے کے لئے مخلوط حکومت کا قیام عمل میں لاتی۔ "نظام کہنہ" کے حامیوں نے مگر ایسا ہونے نہیں دیا۔ تھائی لینڈ کی حکمران اشرافیہ نے سابق وزیر اعظم کو وطن لوٹنے کی دعوت دی۔ وہ وطن لوٹ آیا تو اس کے خلاف قائم ہوئے تمام مقدمات بھی ختم کردئے گئے۔ اس کے برعکس واحد اکثریتی جماعت کے طورپر ابھری نوجوانوں کی تنظیم کے سربراہ کو اس بنیاد پر عدالتوں سے "نااہل" کروادیا گیا کہ اس نے ایک اشتہاری کمپنی کے لئے کام کرتے ہوئے اپنی کمائی کو "گوشواروں" میں ظاہر نہیں کیا تھا۔ "احتساب" کا نظام قصہ مختصر تھائی لینڈ میں بھی ریاست کی دائمی اشرافیہ کی پسند کا سیاسی نظام برقرار رکھنے کے کام ہی آیا۔
یہ کالم اگر آپ نے یہاں تک پڑھ لیا ہے تو یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ میں پاکستان کے انتخابی عمل کے کسی پہلو کے ذکرکے بجائے مصر اور تھائی لینڈ وغیرہ کا ذکر کرنا کیوں شروع ہوگیا ہوں۔ ان دو ممالک کی حالیہ تاریخ پر توجہ دلانے کی کوشش حضور اس لئے کی ہے کہ ہمارے ہاں بھی ان دنوں تحریک انصاف نوجوانوں کی واحد نمائندہ تصور ہورہی ہے۔ ہمیں تواتر سے یاد یہ بھی دلایا جارہا ہے کہ سوشل میڈیا کے تقریباََ تمام پلیٹ فارموں کو کمال مہارت سے استعمال کرتے ہوئے اس جماعت نے لوگوں کے ذہن بدل دئے ہیں۔ وہ اب ریاست کے رْعب میں نہیں آتے۔
"قیدی نمبر804" کی طرح "انکار" کو ڈٹ گئے ہیں۔ روایتی اور سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے تحریک انصاف نے لوگوں کی موثر تعداد کے ذہنوں میں جو تصورات اجاگر کئے ہیں ان کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ اپنی حکومت گنوانے کے بعد تحریک انصاف کے بانی واقعتا اپنے وعدے کے مطابق بہت "خطرے ناک" ہوچکے ہیں۔ ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تقریباََ ہر حلقے میں لوگوں کی کثیر تعداد ان کی جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کو ووٹ دینے کو بے چین بھی نظر آتی ہے۔ عمران خان کی "نااہلی" اور جیل میں موجودگی کی وجہ سے مگر ان کے جذبات کے ٹھوس اظہار کی صورتیں بن نہیں پارہیں۔
دریں اثناء قائد تحریک انصاف نے اپنے حامیوں کو حکم دیا کہ وہ 28جنوری 2024کے دن اپنے گھروں سے باہر نکلیں۔ تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں کی ذمہ داری لگی کہ وہ اپنے حلقوں کے پرہجوم مقامات یا کھلے میدانوں میں عوامی اجتماعات یقینی بنائیں۔ ذاتی طورپر میں ایسے "ایڈونچر" کا حامی نہیں تھا۔ مجھے خدشہ تھا کہ اس کے نتیجے میں ملک کے کئی شہروں میں"پلس مقابلے" شروع ہوجائیں گے جن کے نتیجے میں تحریک انصاف کے بے تحاشہ کارکن اور رہ نما انتخابی مہم میں مصروف ہونے کے بجائے حوالات بھیج دئے جائیں گے یا عدالتوں میں ضمانتوں کے حصول کی طلب محسوس کریں گے۔
میری رائے تھی کہ تحریک انصاف کو انتخاب کے دن کا خاموشی سے انتظار کرنا چاہیے۔ دو ٹکے کے رپورٹروں کی رائے کو "عوام میں بے تحاشہ مقبول" سیاسی جماعت مگر قابل غور تصور نہیں کرتی۔ 28جنوری کو ملک بھر کے تمام شہروں میں"بڑے شو" لگانے کا وعدہ ہوا۔ کراچی کے علاوہ مگر پاکستان کے کسی اور شہر میں"پلس مقابلوں" جیسے حالات نظر نہیں آئے۔ تحریک انصاف حالات بدلنے کو اگر سنجیدہ ہے تو اسے تھائی لینڈ اور مصر کی حالیہ تاریخ کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔