امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی فوج کو فقط سفید فام مردوں کی فوج بنانے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ ایئرفورس سے چیئرمین چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے افریقی نژاد افسر کو برطرف کرنے کے علاوہ نیوی کی خاتون سربراہ کو بھی گھر بھیج دیا۔ موصوف نے جو اقدامات لئے حیران کن نہیں۔ ایک حوالے سے بلکہ ٹرمپ کو ایسا سیاستدان ثابت کررہے ہیں جو سیاستدانوں کی اکثریت کے برعکس اپنے انتخابی وعدوں کا اگرمگر کے بغیر تیزی سے اطلاق کررہا ہے۔ اپنے وعدے نبھانے میں جلدی اسے یہ پیغام دینے میں بھی مددگار ثابت ہورہی ے کہ وہ امریکی ریاست کے ڈھانچوں میں جس اکھاڑپچھاڑ کا مرتکب ہورہا ہے اس کی ذاتی خواہش کا نتیجہ نہیں۔
انتہائی دائیں بازو کے قدامت پرست لوگوں کی بے تحاشہ تعداد کئی برسوں سے تلملارہی تھی کہ افریقہ سے آئے غلاموں کی نسلوں کو امریکی فوج میں اہم عہدوں پر تعینات کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ جنگ کو وہ "کھیڈ نئی ہوندی زنانیاں دی" بھی سمجھتے ہیں۔ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ دورِ حاضر کی عورت میدان جنگ میں اترکر مخالفین کا سامنا کرسکتی ہے۔ امریکہ میں آباد تمام نسلوں اور اصناف کو نمائندگی دینے کے لئے UDIکے نام سے ایک پروگرام متعارف ہوا تھا۔ یہ اتحاد (Unity)، تکثیریت Diversityاور (سب کی) شمولیت (Inclusion)کا مخفف ہے۔
امریکہ کے سفید فام نسل پرست اس پروگرام سے بہت نالاں تھے۔ ان کی دانست میں اس پروگرام کا عملی اطلاق امریکہ کی "قومی اور تاریخی شناخت" کو تباہ کردے گا۔ سفید فارم نسل پرستوں کے دلوں میں کئی دہائیوں سے ابلتے تعصبات کا ٹرمپ نے برملا اظہار شروع کردیا۔ امریکہ اگر واقعتا "انسانیت دوست" ہوچکا ہوتا تو اس کے عوام کی متاثر کن اکثریت ڈونلڈٹرمپ کو نومبر2024میں ایک بار پھر وائٹ ہائوس بھیجنے کافیصلہ نہ کرتی۔ اس کا انتخاب کرتے ہوئے کئی لوگوں نے یہ بھی سوچا کہ شاید ٹرمپ اتنا "خطرناک" نہیں جیسا اس کے دشمن اسے دنیا کے سامنے بناکرپیش کررہے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ سے نفرت بھی اپنی جگہ موجود تھی۔ سادہ لوح مسلمان بھی اسی باعث ٹرمپ کے جھانسے میں آگئے۔ ان کا خیال تھا کہ بائیڈن اسرائیل کو غزہ پر وحشیانہ بمباری سے روک سکتا تھا۔ وہ باز رہا تو مسلمانوں نے طیش میں آکر ٹرمپ کی حمایت کا فیصلہ کرلیا۔
ٹرمپ کی حمایت میں ووٹ ڈالنے والوں میں پاکستان سے امریکہ منتقل ہوئے بے تحاشہ پاکستانی بھی شامل تھے۔ ان کی بے پناہ اکثریت پاکستانی سیاستدانوں سے نفرت کرتی ہے۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان مگر ان کی دانست میں ایک روایتی سیاستدان نہیں۔ کرکٹ کے کھلاڑی تھے۔ فاسٹ بالر کی حیثیت میں اس کھیل کی بدولت جو شہرت کمائی اسے لاہور میں کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کے لئے جدید ترین سہولتوں والا ہسپتال لوگوں سے چندہ لے کر تعمیر کرنے میں صرف کردیا۔ لوگوں کی حمایت سے ہسپتال کی تعمیر نے کئی افراد کو انہیں سیاست میں شامل ہونے کو اُکسانے کے لئے مجبور کردیا۔
کامل "بددلی" سے وہ سیاست میں آئے اور لوگوں کی حمایت کے حصول کے لئے "موروثی چور لٹیروں" جنہیں ہمارے ہاں الیکٹ ایبل کہاجاتا ہے سے رجوع کرنے کو انکار کردیا۔ یہ سب کرنے کی وجہ سے 2002کے انتخاب میں انہیں قومی اسمبلی میں صرف ایک نشست سے کامیابی نصیب ہوئی۔ وہ نشست بھی ان کے والد کے شہر میانوالی سے تھی۔ 2002کے انتخاب کے بعد تحریک انصاف کے بانی کو احساس ہوا کہ الیکٹ ایبل لازمی ہیں۔ ان کی تلاش شروع ہوئی تو دریافت ہوا کہ سیاستدانوں کی اس قسم کو برطانوی دور سے "اشارہ" درکارہوتاہے۔
برطانوی سامراج کے بعد ریاست کے دائمی اداروں کے مختار کل 2010کے قریب "باریاں لینے والے" نوازشریف اور آصف زرداری کی جماعتوں سے تنگ آچکے تھے۔ "تیسرے آپشن" کی تلاش تھی۔ دائمی اداروں کے "پاشا" عمران خان کی پشت پناہی شروع ہوگئے تو بالٓاخر "فیض" کے چشمے بہنا شروع ہوگئے۔ اگست 2018 میں عمران خان ہمارے وزیر اعظم کے منصب پر پہنچ گئے۔ ان کا دورِ اقتدار فطری انداز میں اپنے انجام تک پہنچتا تو ہم سب کا پنجابی محاورے والا "شوق" پورا ہوجاتا۔
اکتوبر 2021 میں لیکن قمر جاوید باجوہ کو قوم کی مزید خدمت کرنے کا جنون لاحق ہوگیا۔ عمران خان اس حوالے سے پکڑائی دینے کو رضا مند دکھائی نہ دئے۔ اچانگ گیم لگی اور پاکستان میں پہلی بار ایک وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ ہوگیا۔ اس کی فراغت کے بھونڈے اندازنے اسے نئی زندگی بخش دی۔ امریکہ میں مقیم عاشقان عمران موصوف کی دکھائی "مزاحمت" پر بہت نازاں محسوس کرتے ہیں۔
عمران جب برسراقتدار تھے تو ٹرمپ بھی امریکہ کے صدر تھے۔ ٹرمپ افغانستان سے جندچھڑانے کو بے جان تھا۔ اس ضمن میں پاکستان کی مدد درکار تھی۔ عمران خان کو لہٰذا سینیٹرلنڈسے گراہم کے ذریعے امریکہ بلایا گیا۔ سابق وزیر اعظم کے ہمراہ قمر جاوید باجوہ بھی چمکتی آنکھوں کے ساتھ وہاں پہنچے۔ ٹرمپ نے دونوں کو جھانسہ دیا کہ وہ کشمیر پر "ثالثی" کا کردار ادا کرے گا۔ اس کے منہ سے "کشمیر" کا ذکر سن کر دونوں کے خوشی سے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ طالبان کو قطر کے شہر دوحہ میں میز پر بٹھانے کا فیصلہ کردیا اور بدلے میں کچھ حاصل بھی نہ کیا۔
جو ہوا وہ تو ہوگیا امریکہ میں مقیم عاشقان عمران کو البتہ امید تھی کہ ٹرمپ وائٹ ہائوس لوٹنے کے بعد گزشتہ دورِ صدارت میں اپنے "یار" ہوئے عمران خان کو رہا کروانے کے لئے پاکستان پر دبائو بڑھادے گا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد مگر ٹرمپ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروانے اور روس کے ساتھ صلح کے راستے ڈھونڈنے میں مصروف ہوگیا۔ ان دونوں کاموں کے حصول کے لئے عمران خان کی رہائی ٹرمپ کے کام نہیں آسکتی۔ اپنی فوج کو بھی اسے سیاہ فام افسروں کے علاوہ خواتین کی "برابری" سے آزاد کرنا ہے۔ عاشقان عمران ویسے بھی "تارکین وطن" ہیں اور غیر ملکوں سے امریکہ آباد ہوئے افراد ٹرمپ کو بھاتے نہیں۔
ٹرمپ سے اپنے قائد کی رہائی کے لئے مدد کی توقع باندھنے کے بجائے امریکہ میں مقیم عاشقان عمران کو یہ سوچنا ہوگا کہ روس سے صلح کے لئے پہلا پتہ کھیلنے کے لئے امریکہ نے اپنے وزیر خا رجہ کو سعودی عرب کے شہر ریاض کیوں بھیجا۔ اس شہر میں امریکی وزیر خارجہ کی روسی وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی ہے۔ مقصد اس ملاقات کا یوکرین کے جھگڑے سے جندچھڑاکر دنیا کو نئے سرے سے اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر میں بانٹنا ہے۔ ا مریکہ، روس اور سعودی عرب اب نئے دور کی فیصلہ کن قوتیں ثابت ہوں گی۔ سعودی عرب کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سوچنے میں بھی کوئی ہرج نہیں کہ اس "برادر ملک" کی عمران خان کے ساتھ کیسی یادیں وابستہ ہیں؟