پاکستانی وزیر اعظم کو اپنے دائیں ہاتھ بٹھاکر امریکی صدر نے 22 جولائی کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نے جاپان کے شہر اوساکا میں ہوئی ایک ملاقات میں اس سے کشمیر کا مسئلہ حل کروانے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ بھارتی میڈیا میں ٹرمپ کے اس بیان کے بعد ہاہاکارمچ گئی۔ حالیہ انتخابات میں بدترین شکست سے مایوس ہوئی اپوزیشن جماعتوں کو انگڑائی لے کر اُٹھنے کا موقعہ مل گیا۔ بہت شدت سے مطالبہ ہوا کہ بھارتی وزیر اعظم بذاتِ خود پارلیمان میں کھڑے ہوکر وضاحت کرے۔ مودی نے اس مطالبے کو نظرانداز کردیا۔ اس کے کارندوں نے دریں اثناء میڈیا میں شورمچاتے لوگوں سے رابطے کئے۔ انہیں سمجھادیا گیا کہ بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے امریکی صدر کو جھوٹا پکارنا "قومی مفاد" کو نقصان پہنچائے گا۔ اپوزیشن رہ نمائوں کو بھی اس ضمن میں خاموش کروانے کے لئے یقینی طورپر بیک ڈور ڈپلومیسی سے کام لیا گیا ہوگا۔ ٹرمپ کا بیان آتے ہی میں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر نریندرمودی ڈونلڈٹرمپ کو جھوٹا پکارنے سے بازرہا تو نہایت خاموشی اور مکاری سے وہ کوئی ایسی چال ضرور چلے گا جو مقبوضہ کشمیر میں محصور ہوئے بدنصیبوں کی زندگی مزید اذیت ناک بنادے گی۔ بہت دُکھ سے آج یہ کہنے کو مجبور پارہا ہوں کہ میرے خدشات درست ہوتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے مودی کے مشیر برائے امورِ سلامتی اجیت دوول نے مقبوضہ کشمیر میں دو دن گزارے ہیں۔ اس کے وہاں قیام کے دوران ہی سری نگر ایئرپورٹ پر خصوصی طیاروں کے ذریعے بھارتی فوج کے تازہ دم دستے لینڈ کرنا شروع ہوگئے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق دس ہزار فوجیوں کی اضافی نفری وہاں پہنچ چکی ہے۔ سری نگر اور اس کے نواحی علاقوں میں تازہ دم دستوں کی آمد سے قبل 40 ہزار فوجی امرناتھ کے یاتریوں کو تحفظ پہنچانے کے نام پر کئی ہفتوں سے تعینات ہیں۔ سری نگر میں کئی برسوں سے فی کس تناسب کے اعتبار سے فوجی اور نیم فوجی دستوں کی ایک ریکارڈ تعداد تعینات ہے۔ 50 ہزار کی اضافی نفری نے یقینا ایک نیا ریکارڈ بنادیا ہوگا۔ بھارتی افواج کی جارحانہ انداز میں تازہ ترین تعیناتی نے وادیٔ کشمیر میں خوف کی فضا کو ٹھوس بنیادوں پر گھمبیر تربنادیا ہے۔ افواہوں کا بازار گرم ہے۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ آیا پاکستان کے خلاف کسی جارحانہ اقدام کی تیاری ہے یا کسی نئے کریک ڈائون آپشن کے ارادے باندھے جارہے ہیں۔ ہفتے کی شب مقبو ضہ کشمیر میں تعینات سکیورٹی دستوں کے لئے تفصیلی ہدایات کا ایک نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ اس نوٹیفکیشن کی سرکاری سطح پر تردید کا تردد نہیں ہوا۔ معاملہ لہذا پریشان کن ہوگیا ہے۔ سکیورٹی کے نام پر تعینات ہوئے دستوں کو اس نوٹیفکیشن کے ذریعے سختی سے حکم دیا گیا ہے کہ وہ آئندہ چار ماہ کا راشن جمع کرلیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے پاس پینے کے پانی کا ذخیرہ کم از کم ایک ہفتے کے لئے موجود ہو۔ حکم یہ بھی صادر ہوا ہے کہ اگر ان کی موجودگی کے خلاف محض نعرے لگاتا یا پتھرپھینکتا کوئی ہجوم جمع ہو تو اسے بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔ ہدایات میں اس خدشے کا اظہار بھی ہوا ہے کہ شاید آنے والے دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں ریل کا نظام قطعی طورپر معطل ہوجائے۔ ایسا ہوجانے کے بعد اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ممکنہ مظاہرین ریلوے اسٹیشنوں کے گرد جمع نہ ہوں۔ ریل کے انجن اور ڈبوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ ریل کی پٹریوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ اجیت دوول کی موجودگی میں دس ہزار تازہ دم فوجیوں کی سری نگر لینڈنگ اور قابض افواج کے لئے جاری ہوئی ہدایات کے بعد اعلان ہوا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم اپنے وزیر داخلہ امیت شا کے ہمراہ منگل کے روز مقبوضہ کشمیر آئے گا۔ خوش گماں لوگ یہ امید باندھے ہوئے ہیں کہ شاید سری نگر میں اپنے قیام کے دوران نریندرمودی مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے لئے نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردے گا۔ تازہ دم فوجی دستوں کی تعیناتی غالباََ اس امر کو یقینی بنانے کے لئے ہورہی ہے کہ نئے انتخابات "پرامن" ماحول میں ہوتے نظر آئیں۔ حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے لئے مختص لوک سبھا کی نشستوں کے لئے جو انتخابات ہوئے ان کے دوران لیکن ایسی تعیناتی نہیں ہوئی تھی۔ تازہ دم دستوں کو بلائے بغیر بھی مرحلہ وار انداز میں ریاستی انتخابات منعقد کروانے کا ڈھونگ بآسانی رچایا جاسکتا ہے۔ بھارتی فوج کے تازہ دم دستوں کی مقبوضہ کشمیر آمد منطقی اعتبار سے اب تک بھارت نواز ٹھہرائے سیاست دانوں کو بھی یہ سوچنے کو مجبور کررہی ہے کہ فقط ریاستی انتخابات کروانا مقصود نہیں ہے۔ اصل منصوبہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا "اٹوٹ انگ" ثابت کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 35-A کو ختم کردیا جائے۔ اس آرٹیکل کے تحت کوئی غیر کشمیری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے کا حق نہیں رکھتا۔ ہندوانتہا پسندی کا فروغ دیتی چند "NGOs"نے اس قانون کو "بنیادی انسانی حقوق"کی خلاف ورزی کی بنیاد پر بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے۔ عدالت اس ضمن میں قطعی فیصلہ دینے سے ہچکچا رہی ہے۔ غیرکشمیریوں کے لئے کشمیر میں جائیداد کی خریداری پر پابندی مہاراجہ نے انگریزی دور میں عائد کی تھی۔ نہرو نے شیخ عبداللہ کو مقبوضہ کشمیر کا وزیر اعلیٰ مانتے ہوئے اس قانون کے احترام کا وعدہ کیا تھا۔ 1975 میں اس کی بیٹی نے شیخ عبداللہ کے ساتھ ہوئے ایک اور معاہدے میں بھی اسے برقرار رکھنے کا تحریری وعدہ کیا۔ نہرو اور اندراگاندھی نے کشمیر کی "خصوصی خودمختاری"کو کاغذی حد تک تسلیم کرنے کے لئے جو معاہدے کئے انہیں بھارتی آئین کا تحفظ حاصل ہے۔ کانگریس کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی اس سے چھیڑچھاڑ کی کوشش نہیں کی۔ "خصوصی خودمختاری" کے ڈھونگ نے شیخ عبداللہ، اس کی اولاد اور بعدازاں مفتی سعید اور اس کی بیٹی محبوبہ کو ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے کر وہاں کی وزارتِ اعلیٰ پر فائز ہونے کا جواز مہیا کیا۔ ان دنوں مقبوضہ کشمیر میں صدر راج ہے۔ ریاستی اسمبلی کے لئے نئے انتخابات کروانے سے قبل اگر غیر کشمیریوں کے لئے مقبوضہ کشمیر میں جائیداد کی خریداری پر پابندی والا قانون ختم کردیا گیا تو ان جیسے سیاست دانوں کے لئے انتخابات میں حصہ لینا سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے ناممکن ہوجائے گا۔ انہیں ہر صورت اس قانون کے ممکنہ خاتمے کے خلاف احتجاج کرنا ہوگا۔ تازہ دم دستوں کی مقبوضہ کشمیر آمد درحقیقت ان لوگوں کو پیغام دے رہی ہے کہ اب انہیں بھی معاف وبرداشت نہیں کیا جائے گا۔
سادہ ترین الفاظ میں ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اسرائیل کی طرح اب بھارتی حکومت بھی وادیٔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کرنے کے لئے طویل المدتی منصوبے پر عملدرآمد کو تیار ہے۔ صیہونیت نے فلسطینیوں کی جائیدادوں کو خریدنے کے بعد اسرائیل کے قیام کی راہ بنائی تھی۔ اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطینیوں کی زمینوں پر سرکاری سرپرستی میں قبضہ گروپس بناکر نئے محلے آباد کرنے کا عمل کئی برسوں سے جار ی ہے۔ "عالمی ضمیر" اسے روکنے میں ناکام رہا۔ شنید ہے کہ مودی نے اسرائیل کی نقالی میں جو منصوبہ بنارکھا ہے شاید اس کا باقاعدہ اعلان وہ 15 اگست کے روز اپنی "یوم آزادی" والی تقریر میں کردے گا۔ پاکستان اس کے منصوبے کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ اس کی مزاحمت کو روکنے کی خاطر بھرپور کریک ڈائون کی جو تیاری ہے اس پر خاموش رہنا بھی ہمارے لئے ناممکن ہے۔ سوال مگر یہ اُٹھتا ہے پاکستانی وزیر اعظم کو وائٹ ہائوس میں اپنے دائیں ہاتھ بٹھاکر کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے والا امریکی صدر اس ضمن میں کیا مؤقف اختیار کرے گا۔ میرے منہ میں خاک مگر ذاتی طورپر مجھے یہ خدشہ لاحق ہے کہ وہ غالباََ اس ضمن میں خاموش رہنے کو ترجیح دے گا۔ اگر وہ خاموش رہا تو یہ میری نظر میں "Thank You Modi" کے مترادف ہوگا کیونکہ مودی ٹرمپ کو 22 جولائی کے بیان کے بعد جھوٹا کہنے سے بازرہا۔