Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Trump Sada Dikhta Hai Magar Bhola Hargiz Nahi

Trump Sada Dikhta Hai Magar Bhola Hargiz Nahi

عمر بڑھنے کے ساتھ ذہن کو پیکا کے قانون نے بھی مفلوج بنارکھا ہے۔ "صحافت" کے قابل رہ گیا ہوتا تو اس خبر کاعمر رفتہ کی لگن کے ساتھ پیچھا کرتا کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے کینیڈا جیسے ہمسائے اور اتحادی کو بھی ناراض کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو 397 ملین ڈالر کی خطیر رقم دینے کا فیصلہ کیوں کیا۔

مذکورہ فیصلہ گزرے ماہ کی 25تاریخ کو ہمارے سامنے آیا۔ مقصد اس فیصلے کا پاکستان کے F-16طیاروں کو "دہشت گردی سے نبردآزما" ہونے کے لئے جدید آلات سے لیس کرنا بتایا گیا تھا۔ یہ خبر پڑھتے ہی میرے ذہن میں سوال اٹھنا چاہیے تھا کہ ٹرمپ جو امریکہ میں مقیم عاشقانِ عمران خان کی نگاہ میں پاکستان کے موجودہ حکومتی بندوبست سے نفرت کرتا ہے پاکستان کو "دہشت گردی سے نبردآزما" ہونے کے لئے جدید ترین آلات کیوں فراہم کرنا چاہ رہا ہے۔ "دہشت گردی" ہمارے خطے میں ہمیشہ طالبان سے منسوب ہوتی رہی ہے۔ مرکز ان کا افغانستان ہے اور افغانستان سے ٹرمپ ہی نے 21سالہ جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی افواج کے انخلاء کا اعلان کیا تھا۔

سوال اٹھانا لازمی تھا کہ افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی یقینی بنانے والا ڈونلڈٹرمپ "دہشت گردی" کے خاتمے کی تیاری کیوں کررہا ہے۔ بڑھاپے اور پیکا ایکٹ سے مفلوج ہوئے ذہن نے یہ سوال مگر اٹھایا نہیں۔ بالآخر مارچ کی 4تاریخ کو امریکی کانگریس کے اجلاس سے طویل خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایک حوالے سے اس سوال کا جواب ازخود فراہم کردیا ہے۔ پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس نے اعتراف کیا کہ پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں اور دہشت گردی سے نبردآزما اداروں نے اس شخص کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کردیا ہے جو 26اگست 2021ء کو ہوئے ایک ہولناک واقعہ کا منصوبہ ساز تھا۔ اس روز کابل ایئرپورٹ کے ایبی گیٹ پرخود کش دھماکہ ہوا۔ اس کی وجہ سے 13امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ 170کے قریب افغان شہری بھی جان سے گئے۔

ایبی گیٹ پر ہوئے خود کش دھماکے نے امریکہ کو دہلادیا تھا۔ اس کا میڈیا اور سیاسی نمائندے امریکی صدر جوبائیڈن کواس کا ذمہ دار ٹھہرانے لگے۔ بائیڈن کے حامیوں نے مگر ڈھٹائی سے یاد دلانا شروع کردیا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ جو بائیڈن نے نہیں بلکہ ڈونلڈٹرمپ نے زلمے خلیل زاد کے ذریعے قطر کے شہر دوحہ میں ہوئے مذاکرات میں کیا تھا۔ بائیڈن ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہوئے اس معاہدے پر عملدرآمد کو مجبور تھا۔ ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے ڈیموکریٹ اور ری پبلکن جماعتوں کے نمائندے اس سوال کو فراموش کرگئے کہ اگست 2021ء میں ہوئے اس ہولناک دھماکے کا ذمہ دار کون تھا۔ اس کی گرفتاری درکار ہے یا نہیں۔

بارہا اس کالم میں عرض کرچکا ہوں کہ ٹرمپ سادہ دِکھتا ہے مگر بھولا نہیں۔ بائیڈن کو شکست دینے کے باوجود وہ امریکی عوام کو یہ ثابت کرنے کو بضد ہے کہ اس کا پیشرو ان کے ملک کی تاریخ کا "احمق ونکما ترین" صدر تھا۔ اس مقصد کو نگاہ میں رکھتے ہوئے نومبر کا انتخاب جیتنے کے بعد سکیورٹی امور کی بابت بریفگنز لیتے ہوئے وہ جاسوسی اداروں سے مستقل 26اگست 2021ء کے واقعہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتا رہا۔ ان دنوں جو شخص سی آئی اے کا سربراہ ہے نام ہے اس کا John Ratcliffe ٹرمپ کے گزشتہ دورِ صدارت میں وہ قومی انٹیلی جنس کا چیف تھا۔ اس عہدے پر فائز شخص ہر صبح امریکی صدر سے مل کر اسے 18انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے فراہم ہوئی اطلاعات کی تلخیص سے آگاہ رکھتا ہے۔

اپنے تجربے کی بنیاد پر ریٹ کلف مصررہا کہ 26اگست 2021ء کے دن کابل ایئرپورٹ پر ہوئے دھماکے کا اصل منصوبہ سازمحمد شریف اللہ ہے۔ وہ ازبکستان سے فرار ہوکر افغانستان آیا تھا اور بعدازاں داعش میں شامل ہوگیا۔ اسے داعش کاکارکن ہونے کی وجہ سے اشرف غنی حکومت کے دوران گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ فاتح کی طرح کابل لوٹتے ہوئے طالبان نے مگر 15اگست کو جیل توڑ کر وہاں مقید تمام افراد رہا کردئے۔ انٹیلی جنس اداروں کا خیال ہے کہ دوران قید ہی شریف اللہ کابل ایئرپورٹ پر دھماکے کا منصوبہ بنارہا تھا۔ جیل سے رہا ہوتے ہی اس نے اپنے منصوبہ پر عملددرآمد یقینی بنادیا۔

کابل ایئرپورٹ پر ہوئے دھماکے کے بعد شریف اللہ مگر افغانستان تک محدود نہیں رہا۔ اس نے تقریباََ نو افراد پر مشتمل ایک گروپ بنایا جو افغانستان، تاجکستان، روس اور ایران کے درمیان سفر کرتے رہے۔ اس گروپ نے ایران کے شہرکرمان میں خودکش بمبار کے ذریعے 100سے زیادہ افراد کی جان لی۔ سب سے خوفناک واردات مگر اس گروہ نے ماسکو میں ما رچ 2024ء میں سرانجام دی جب داعش کے چارنقاب پوش افراد وہاں کے ایک میوزک ہال میں گھس کر بھاری ہتھیاروں سے وہاں موجود تماشائیوں کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بناتے رہے۔ اب یہ اطلاع سامنے آرہی ہے کہ امریکہ نے مذکورہ گروپ پر مستقل نگاہ رکھی ہوئی تھی۔ امریکہ کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے ایران اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات خراب ہونے کے باوجود ان دونوں ممالک کوخبردار کیا تھا کہ ان کی انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق داعش کا گروپ بڑے پیمانے کی کارروائی کرنے والا ہے۔

ٹرمپ کو یہ سب معلومات ملیں تو اس نے مذکورہ گروپ کی گرفتاری کو اولین ترجیح قرار دیا۔ ریٹ کلف کے توسط سے اس نے امریکی فوج کو بھی اس ضمن میں تیار رہنے کا پیغام دیا۔ قابل اعتماد ذرائع سے گفتگو کے بعد اب میں یہ خبر دے سکتا ہوں کہ پاکستان اور امریکی افواج کے مابین ایک خلیجی ملک میں (جو سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نہیں) اعلیٰ ترین سطح پرگزشتہ برس کے آخری ہفتے کے دوران روابط ہوئے۔ ان کے دوران فیصلہ ہوا کہ محمد شریف اللہ کی قیادت میں متحرک گروہ پر کڑی نگاہ رکھی جائے گی اور انہیں زندہ گرفتار کرنا اولین ترجیح ہوگی۔

20جنوری کو ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا تو عاشقان عمران اپنے محبوب کی رہائی کا انتظار کرنے لگے۔ ٹرمپ نے مگر سی آئی اے کے سربراہ کو پاکستان سے مسلسل رابطہ رکھتے ہوئے شریف اللہ کی گرفتاری کا ٹاسک دیا۔ سی آئی اے کے سربراہ اور آئی ایس آئی کے مابین کم از کم چار مرتبہ براہ راست رابطے ہوئے۔ ان کے نتیجے میں پاکستان کو شریف اللہ اور اس کے گروہ کی لوکیشن معلوم ہوگئی۔

مصدقہ لوکیشن کے حصول کے بعد شریف اللہ کو گرفتار کرکے امریکہ بھجوادیا گیا ہے۔ اس کے خلاف امریکہ میں جو مقدمہ چلایا جائے گا اس کے دوران شریف اللہ کو کماحقہ سزا دلوانے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کو اکثر پاکستان سے مختلف النوع حوالوں سے تعاون درکار ہوگا۔ عمران خان کی رہائی کے لئے فون کرنے کی فی الوقت ٹرمپ کو ضرورت نہیں۔ اس کی ترجیح امریکی عوام کو ثابت کرنا ہے کہ "احمق بائیڈن"امریکی فوجیوں کے جس مبینہ قاتل کو گرفتار نہیں کرواسکا تھا ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی اسے پکڑلیا اور امریکی عدالت سے سزادلوائی۔ اس "مشن" کی تکمیل کے لئے اسے پاکستان کے موجودہ حکومتی بندوبست کی مدد درکار ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.