عام پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح میری بھی ذاتی آمدنی گزشتہ تین برسوں سے محدود سے محدود تر ہورہی ہے۔ اسے نگاہ میں رکھتے ہوئے وزیر اعظم صاحب کے پیر کی شام ہوئے قوم سے خطاب نے مجھے یقینا تسلی فراہم کی۔ بجلی اور پیٹرول کی قیمت میں مناسب کمی کے اعلان کے علاوہ یہ وعدہ بھی ہوا ہے کہ آئندہ بجٹ پیش ہونے تک مذکورہ ضروریات کے نرخوں میں مزید اضافے سے گریز کیا جائے گا۔ معاشی امور کی بابت تقریباََ نابلد ہوتے ہوئے اگرچہ میں یہ طے کرنے کے ہرگز قابل نہیں ہوں کہ عمران حکومت مذکورہ وعدہ نبھا پائے گی یا نہیں۔
میرے وسوسے کی بنیادی وجہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے ہوا وہ معاہدہ ہے جو 2019ء کے دوران بجٹ تیار کرنے سے قبل ڈاکٹر حفیظ شیخ نے مرتب کیا تھا۔ ان سے قبل تحریک انصاف کے نابغہ تصورہوتے اسد عمر معیشت کی بحالی کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کو کسی صورت آمادہ نہیں تھے۔ اپنے تئیں متبادل بندوبست فراہم کرنے میں بالآخر ناکام رہے تو حفیظ شیخ صاحب کی صلاحیتوں اور اثرورسوخ کو آزمانے کا فیصلہ ہوا۔ وزارت خزانہ کا منصب سنبھالتے ہی جیکب آباد سے ابھرے اس مہاٹیکنوکریٹ نے آئی ایم ایف کو ایک معاہدے پر رضامند کرلیا۔ مذکورہ معاہدہ کی بدولت پاکستان کو اپنی معیشت سنبھالنے کے لئے مختلف اقساط میں 6ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ ہوا۔ اس وعدے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے پاکستان نے بجلی، پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں بتدریج اضافے پر رضامندی کا اقرار کیا۔
ہماری جانب سے ہوئے وعدے پرعملدرآمد شروع ہوا تو عوام کی اکثریت مہنگائی کے طوفان سے بلبلانا شروع ہوگئی۔ ان کے دلوں میں اُبلتے غصے سے خوفزدہ ہوکر تحریک انصاف کے چند اراکین قومی اسمبلی ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مقابلے میں اسلام آباد سے سینٹ کی ایک نشست کے لئے یوسف رضا گیلانی کی حمایت کو مائل ہوئے۔ ان کی "بغاوت" بالآخر حفیظ شیخ کی فراغت کا باعث ہوئی۔
ان کی جگہ ایک کامیاب بینکر کی حیثیت سے مشہور ہوئے شوکت ترین صاحب وزیر خزانہ بنے تو اپنا منصب سنبھالتے ہی دہائی مچانا شروع ہوگئے کہ اگر آئی ایم ایف سے معاہدے کے مطابق بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا تو ہماری معیشت بحال ہوجانے کے بعد استحکام اور خوش حالی کی جانب بڑھ نہیں پائے گی۔ گزشتہ برس کے جون میں اپنا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے وہ ان خیالات کو عملی جامہ پہناتے نظر آئے۔ آئی ایم ایف نے مگر کسی بحث میں الجھے بغیر 500ملین ڈالر والی قسط کا اجراء نہیں کیا۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کو رام کرنے کے لئے شوکت ترین صاحب نے واشنگٹن کا ہنگامی دورہ بھی کیا۔ انہیں کماحقہ شنوائی نصیب نہ ہوئی تو منی بجٹ تیار کرنا پڑا۔ اس کے ذریعے 370ارب روپے کے اضافی ٹیکس متعارف ہوئے اور اس امر پر رضا مندی کا اظہار بھی کہ بجلی اور پیٹرول کے نرخ آئی ایم ایف سے کئے وعدے کے مطابق ہی بڑھائے جائیں گے۔ قومی اسمبلی سے منی بجٹ منظور ہوجانے کے بعد عالمی معیشت کے نگہبانوں نے ہمیں ایک ارب ڈالر فراہم کردئے۔
پیر کی شام قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب نے مگر بجلی اور پیٹرول کی قیمت میں کمی کے علاوہ دیگر کئی اہم اقدامات کا جو اعلان کیا ہے وہ آئی ایم ایف کو "بس بھئی بس" والا پیغام دیتا سنائی دیا۔ یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ برقرار ہے کہ رادھا کو نچانے والا نومن تیل کون مہیا کرے گا۔ جن اقدامات کا پیر کی شام اعلان ہوا ہے عمران حکومت اگر ان پر کاربند رہنے کو ڈٹی رہی تو آئی ایم ایف سے مزید رقم میسر نہیں ہوگی۔
مذکورہ تناظر میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آئی ایم ایف کو اگر ٹھینگا ہی دکھانا تھا توشوکت ترین صاحب کو منی بجٹ تیار کرنے اور اسے لاگو کرنے کی مشقت کی جانب کیوں دھکیلا گیا۔ پیر کی شام جو اعلانات ہوئے ہیں وہ منی بجٹ کے ذریعے متعارف ہوئے "تلخ مگر ناگزیر" فیصلوں سے گریز کا بھرپور اظہار ہیں۔ بجلی اور پیٹرول کے نرخوں کو آئندہ تین مہینوں تک موجودہ سطح پر جامد رکھنے کے لئے حکومت کو اب قومی خزانے سے امدادی رقوم فراہم کرنا ہوں گی جنہیں معاشی زبان میں Subsidiesکہا جاتا ہے۔ شوکت ترین صاحب یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ سرکار کے چلائے چند کاروباری اداروں کے منافع سے مطلوبہ رقم فراہم کردیں گے۔ اس کے علاوہ غالباََ مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص رقوم کو بھی اب اسی مد میں خرچ کردیا جائے گا۔
وزیر خزانہ کی جانب سے ہوا دعویٰ ایک بارپھر یہ سوال اٹھانے کو مجبور کررہا ہے کہ اگر حکومت پاکستان کے پاس بجلی اور پیٹرول کے نرخوں کو مناسب سطح تک محدود رکھنے کے وسائل پہلے ہی سے موجود تھے تو انہیں نظرانداز کرتے ہوئے منی بجٹ متعارف کروانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ جناتی انگریزی میں ہم جاہلوں کو طویل مضامین کے ذریعے "معاشی حقائق" سمجھانے والے "ماہرین" کو بھی اب کوئی نیا چورن ایجاد کرنا پڑے گا۔ وہ تواتر سے ہمیں سمجھارہے تھے کہ آئی ایم ایف کو ٹھینگا دکھائو تو پاکستان جیسے غریب ملک عالمی منڈی سے کٹ جاتے ہیں۔ ان کاحشر شمالی کوریا جیسا ہوجاتا ہے۔ مجھ جیسے سادہ لوح نے ان کی بات پراعتبار کیا۔ حکومت نے مگر اب وہی اقدامات لینے کا ارادہ باندھ لیا ہے جن کے "ناقابل عمل" ہونے کی بابت طولانی مضامین لکھے جارہے تھے۔
منی بجٹ کو ریاستی اثرورسوخ کے بھرپور استعمال سے منظور کروانے کے فقط ایک ہی ماہ بعد عمران حکومت نے پیر کی شام گریز کی جو راہ اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے وہ عوام کی اکثریت کو یہ سوچنے کو بھی مجبور کردے گا کہ مذکورہ گریز اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے عنوان سے ہوئی آنیوں جانیوں نے مسلط کیا ہے۔ حکومت اس سے "گھبرا" گئی۔ گھبراہٹ کے تاثر کو عمران خان صاحب کی جانب سے پیر کی شام ہوئی تقریر مزید تقویت پہنچائے گی۔ اپنی مسلمہ عادت کے برعکس وزیر اعظم مذکورہ تقریر کے دوران معذرت خواہ نظر آئے۔ سیاست دانوں کے مبینہ طورپر روپ دھارے "چور اور لٹیروں " کا پیر کی شام ان کی جانب سے ہوئی تقریر کے دوران ذکر تک نہیں ہوا۔ میڈیا اگرچہ ان کے غضب کا بدستور نشانہ رہا۔ وزیر اعظم صاحب کو یقین تھا کہ روایتی میڈیا ماضی کے حکمرانوں سے لفافے اور ٹوکریاں لینے والے نام نہاد صحافیوں کا یرغمال بن چکا ہے۔ وہ حکومت کے بارے میں منفی خبریں پھیلاتے ہیں۔ ان کی ذات اور گھریلو زندگی پر بھی مسلسل کیچڑ اچھالنے میں مصروف رہتے ہیں۔ حزب مخالف میں بیٹھے سیاستدانوں کے بجائے عمران خان صاحب اب غلام نما صحافیوں کا مکوٹھپنے کو تلے بیٹھے محسوس ہوئے۔
میڈیا سے وزیر اعظم صاحب کا گلہ سنتے ہوئے مجھے بہت حیرت ہوئی۔ 1975ء سے صحافت کے علاوہ میرا کوئی اورذریعہ معاش نہیں رہا۔ اپنے طویل تجربے کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرنے کو مجبور ہوں کہ اگست 2018ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عمران حکومت نے جس انداز میں روایتی میڈیا پر کامل کنٹرول حاصل کیا اس کی نظیر جنرل ضیا اور مشرف کے آمرانہ ادوار کے دنوں سے بھی دریافت کرنا ممکن نہیں۔ عمران خان صاحب اور ان کی جماعت بلکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی میڈیا کی اکثریت کو اپنا ہم نوا بناچکی تھی۔ جن صحافیوں نے تحریک انصاف کے بیانیے پر چند پیشہ وارانہ دیانت کے ساتھ سوالات اٹھائے انہیں سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے "لفافے" بنادیا گیا۔ ان کی ذاتی زندگیاں بھی ہماری مذہبی اور اخلاقی اقدار کے تناظر میں جھوٹی سچی تصاویر کی بنیاد پر "قابلِ اعتراض" ٹھہرادی گئیں۔ بدنام کئے تمام صحافیوں کو عمران حکومت نے بالآخر ٹی وی سکرینوں سے غائب بھی کردیا۔ ایسے کامل کنٹرول کے باوجود میڈیا سے گلہ اب جائز سنائی نہیں دیتا۔
صحافی کی عزت وتوقیر تاہم میرا درد سر نہیں۔ گہرے زخم لگ چکے ہیں۔ ان کا ازالہ ممکن ہی نہیں۔ یہ سوال اٹھانا مگر اب بھی لازم ہے کہ پیر کی شام جو وعدے ہوئے ہیں انہیں بروئے کار لانے کے لئے مطلوبہ رقم کہاں سے اور کس انداز میں فراہم کی جائے گی۔ امید ہے کہ جناتی انگریز ی میں لکھے طویل مضامین کے ذریعے ہماری ذہن سازی پر مامور "ماہرین" اپنی توجہ آئندہ دنوں میں اس سوال کا تسلی بخش جواب فراہم کرنے پر مرکوز رکھیں گے۔