اتوار کی رات بہت دیر سے آنکھ لگی۔ اطمینان سے مگر سو نہیں پایا۔ سرکاری اعلان ہوچکا تھا کہ وزیراعظم پیر کی صبح قوم کو "اہم پیغام" دیں گے۔ جی کو دھڑکالگارہا کہ ان کی تقریر براہِ راست سن نہیں پائوں گا۔ پریشانی نے گہری نیند سے محروم رکھا۔ صبح اٹھتے ہی ٹی وی لگالیا۔
مجھے قوی امید تھی کہ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش ہونے سے ایک دن قبل وزیر اعظم بہت تفصیل سے اپنی حکومت کی معاشی ترجیحات کا اعلان کریں گے۔ دیہاڑی دار مزدوروں اور تنخواہ دار طبقے پر مہنگائی کے عذاب میں جو اضافہ ہونا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے خلقِ خدا کا حوصلہ بڑھانے کے لئے چند ٹھوس اقدامات کا اعلان بھی کریں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ وزیر اعظم کا "خطاب"درحقیقت قوم کے نام ایک مختصر پیغام تھا۔ ایسے پیغامات عموماََ اشتہاری ادارے لوگوں کو چند اشیائے صرف سے رغبت اجاگرکرنے کے لئے دیا کرتے ہیں۔ Sales Pitch پر مبنی مختصر ترین پیغامات۔
وزیر اعظم کی توجہ اس Pitch کے حوالے سے حال ہی میں متعارف کروائی ایمنسٹی سکیم تک محدود رہی۔ بنیادی پیغام یہ تھا کہ ریاست سے اپنی حقیقی آمدنی، دولت اور اثاثے چھپانے والوں کو 30 جون 2019 کے بعد کو ئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ ریاستِ پاکستان نے معلومات اکٹھاکرنے کے تمام ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے اپنے شہریوں کی اندرون ملک اور بیرون ملک بے نامی یا حقیقی ناموں سے موجود دولت اور جائیدادوں کا سراغ لگالیا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ انہیں ایمنسٹی سکیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے FBR کے روبرو رضاکارانہ طورپر عیاں کردیا جائے۔ وگرنہ.
وزیر اعظم کا مختصر پیغام ختم ہوتے ہی میں نے فوری طورپر یہ محسوس کیا کہ ریاستِ پاکستان کو ابھی تک ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی خاطر خواہ تعداد نصیب نہیں ہوئی۔ اسی باعث وزیر اعظم کے ذریعے اپنے اثاثے چھپانے والوں کو یہ پیغام دینا پڑا کہ مناسب یہی ہے کہ 30 جون تک ایمنسٹی سکیم کا فائدہ اٹھالیا جائے۔ ایسا نہ ہوا تو اپنے اثاثے چھپانے پر بضد افراد کے خلاف ریاست پوری قوت کے ساتھ کریک ڈائون نما آپریشن کا آغاز کردے گی۔ اپنے اثاثوں اور دولت کو بے نامی اکائونٹس یا جائیدادوں کے ذریعے چھپانے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی کے لئے 2017 ہی میں سخت ترین قوانین متعارف کروادئیے گئے تھے۔ یہ قوانین متعارف کروانے کے باوجود شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے 2018 کا بجٹ تیار کرنے سے قبل ایک ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا۔ اس کے بعد گزشتہ حکومت نے مذکورہ قوانین کے مؤثر اطلاق کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ انتخابات کروانے کے لئے قائم ہوئی نگران حکومت بھی اس معاملے میں متحرک نہ ہو پائی۔ اگست2018 میں عمران حکومت آنے کے بعد احتساب کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹا گیا۔ ا س کا اصل نشانہ مگر اپوزیشن میں بیٹھے سیاست دان ہی نظر آئے۔ بے نامی اکائونٹس اورجائیدادوں کے خلاف بنائے قوانین کے مؤثر اطلاق سے اجتناب برتا گیا۔
غیر جانب دارانہ ذہن سے دیکھیں تو کہا جاسکتا ہے کہ عمران حکومت نے بے نامی اکائونٹس اور جائیدادوں کے خلاف موجود نظر بظاہر کڑے قوانین کے اطلاق میں اس لئے اجتناب برتا کیونکہ اس کے اقتدار سنبھالتے ہی بازار میں مندی کے رحجانات نمایاں ہونا شروع ہوگئے۔ اس مندی کی بدولت بے روزگاری میں ا ضافہ ہوا۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربااضافے نے تنخواہ دار طبقات اور چھوٹے کاروباری لوگوں کو مزید پریشان کردیا۔ حکومت کی اولین ترجیح یہ رہی کہ بڑے سرمایہ کاروں کا دل جیتا جائے۔ انہیں سابق وزیرخزانہ اسد عمر کے پیش کردہ دوسرے منی بجٹ کے ذریعے ٹیکس کے ضمن میں چند اہم رعایتیں بھی فراہم کردی گئیں۔ نظر بظاہر اسٹاک ایکس چینج پر چھائے بڑے کاروباری افراد ان اقدامات سے مطمئن ہوگئے۔ بازار میں رونق مگر واپس نہیں آئی۔
اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے سے قبل لہذا حکومت وزیر اعظم کے ذریعے یہ پیغام دینے کو مجبور ہوگئی کہ بہت " ٹہل سیوا"ہوگئی۔ اب ٹیکس دو یا تھانے چلو والا معاملہ ہوگا۔ میں علمی اعتبار سے ہرگز اس قابل نہیں کہ پورے اعتماد سے بیان کرسکوں کہ پیر کی صبح دئیے پیغام کا کیا ردعمل ہوگا۔
میرا دلِ خوش فہم اگرچہ یہ امید باندھنے کو مجبور ہے کہ اپنی دولت اور اثاثے چھپانے والوں کو پیر کی صبح یہ پیغام مل گیا ہوگا کہ ریاستِ پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ 30 جون 2019 تک اپنی حقیقی آمدنی اور اثاثے مختلف حیلوں بہانوں سے چھپانے والے اگراب بھی بندے کے پتر نہ بنے تو ریاستی ڈنڈا استعمال ہوگا۔ اس ضمن میں مزید کسی رعایت کی توقع نہ رکھی جائے۔ چند ماہرین معیشت مگر یہ دعویٰ کرتے سنائی دے رہے ہیں کہ برسوں سے اپنی حقیقی آمدنی اور اثاثے چھپانے کے عادی افراد بہت ڈھیٹ ہڈی کے بنے ہوتے ہیں۔ ریاست کی جانب سے بنائے سخت گیر قوانین سے بچنے کے انہوں نے سوطریقے سوچ رکھے ہیں۔ فقط ڈنڈے کی دھمکی کو وہ خاطر میں نہیں لاتے۔ ان میں سے چند ماہرین بلکہ اس خوف کا اظہار کرتے بھی سنائی دئیے کہ پیرکی صبح وزیر اعظم کی معرفت دیا پیغام بازار میں خوف (Panic) پھیلادے گا۔ اس خوف کی وجہ سے ابھی تک عمران حکومت سے کسی نہ کسی صورت تعاون کو آمادہ بڑے صنعت کار اور سرمایہ کار بھی ناراض ہوجائیں گے۔ اسٹاک ایکس چینج سے مسلسل بری خبریں آنا شروع ہوجائیں گی۔ حکومت اس سے گھبرا کر شاید ایمنسٹی سکیم کی Cut Off تاریخ کو مزید کچھ ماہ تک بڑھانے کو مجبور ہوجائے گی۔ ریاست سے بے نامی اکائونٹس اور جائیدادوں کے ذریعے چھپائی دولت کے خلاف بنائے قوانین کے جارحانہ استعمال کے ارادے پر حقیقتاََ عمل نہیں ہوپائے گا۔ فی الوقت ہم یہ طے نہیں کرسکتے کہ میرے دلِ خوش فہم کی خواہش بالآخر عملی صورت اختیار کرے گی یا "خوف" پھیلنے کی کہانیاں سناتے ماہرینِ معیشت درست ثابت ہوں گے۔ عملی سیاست کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے اگرچہ مجھے توقع تھی کہ وزیر اعظم پیر کی صبح دئیے پیغام کے ذریعے دیہاڑی دار مزدوروں، تنخواہ دار طبقات اور "چھوٹے کاروباری افراد کو یہ بات واضح الفاظ میں بتادیتے کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے علاوہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہوئے اضافے کی وجہ سے ہمارے عوام کی اکثریت نے "براوقت" دیکھ لیا ہے۔ ان کے بُرے وقت کا ازالہ اب اسی صورت ممکن ہے اگر خوش حال طبقات اپنی حقیقی آمدنی اور اثاثے چھپانے کی عادت ترک کردیں۔ اپنے ذمے واجب ٹیکس ایمان داری سے ادا کریں۔ وزیراعظم کے مختصر پیغام کے ذریعے یہ بات مگر اجاگر نہیں ہوئی۔ بات مؤثرانداز میں کہی جاتی تو ریاست کی جانب سے اپنے اثاثے چھپانے والوں کے خلاف ڈنڈے کے استعمال کو بے پناہ عوامی پذیرائی میسر ہوجاتی۔