کئی دنوں سے اس کالم میں اصرار کئے چلا جارہا ہوں کہ وزیر اعظم خواہ کتنا ہی کمزور اور غیر مقبول کیوں نہ ہوجائے اسے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانا جوئے شیر لانے والی مشقت کا تقاضہ کرتا ہے۔ عمران خان صاحب کو یقینا موجودہ پارلیمان میں اپنے تئیں بھاری بھر کم اکثریت میسر نہیں۔ اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئے نام نہاد "اتحادی" جماعتوں کے محتاج ہیں۔ ان جماعتوں کو "اشارہ" نہ ملا تو وہ عمران خان صاحب کی حمایت یا مخالفت میں اپنا ووٹ ڈالنے سے قبل متعلقہ فریقین سے سخت گیر بھائو تائو کریں گے۔
تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دن اپنے بندے جمع کرکے انہیں قومی اسمبلی تک لانا ویسے بھی اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مذکورہ گنتی سے چند روز قبل وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اختیارات ڈھٹائی سے استعمال کرتے ہوئے 25سے 30اراکین قومی اسمبلی کو جھوٹے سچے مقدمات میں گرفتار کرلیں تو وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک بآسانی ناکام بنائی جاسکتی ہے۔
اپوزیشن کے لئے اپنے نمبر یکجا رکھنے والے عمل کو ایک بار میں نے مینڈکوں کو ترازو کے پلڑے میں جمع کرنے کے مترادف ٹھہرایا تھا۔ یہ لکھتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ تحریک عدم اعتماد کے عنوان سے اپوزیشن رہ نمائوں کی آنیاں جانیاں ہمارے سیاسی منظر نامے پر "گھڑمس" برپاکرسکتی ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمارے سیاستدان اجتماعی شرمندگی اور پریشانی سے دو چار ہوسکتے ہیں۔
جس "گھڑمس" کا مجھے خدشہ تھا پیر کے دن اس کا آغاز ہوگیا۔ عمران خان صاحب کے ایک دیرینہ وفادار اور شاہ خرچ تصور ہوتے علیم خان صاحب جہانگیر ترین کی چھتری تلے جمع ہوئے تحریک انصاف کے ناراض اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے ملنے چلے گئے۔ انہیں رام کرنے کو گورنر سندھ فی الفور لاہور پہنچے۔ عمران اسماعیل کا علیم خان صاحب سے کیا تعلق ہے اس کی بابت مجھے ککھ خبر نہیں۔ بہر حال دونوں کی ملاقات ہوگئی۔ گورنر سندھ اب "ناراض" اراکین کی شکایات عمران خان صاحب تک پہنچائیں گے۔ غالباََ یہ تجویز بھی دیں کہ "بحران" پر قابو پانے کے لئے عثمان بزدار کی جگہ علیم خان صاحب کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لئے نامزد کردیا جائے۔
عمران خان صاحب ہمیشہ "کسی سے بھی بلیک میل" نہ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ اقتدار بچانے کے لئے تاہم چنگیز خان اور سکندر اعظم جیسے فاتحین کو بھی کبھی کبھار لچک دکھانا پڑتی ہے۔ فرض کیا وہ علیم خان صاحب کو وزارتِ اعلیٰ کے لئے نامزد کردیں تب بھی انہیں پنجاب اسمبلی سے باقا عدہ منتخب ہونا پڑے گا۔ اپنے انتخاب کے لئے انہیں مسلم لیگ (ق)کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہوگی۔ مجھے خبر نہیں کہ گجرات کے جاٹ لاہور سے ابھرے ککے زئی کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو آمادہ ہوں گے یا نہیں۔
"تخت لہور" سے علیم خان صاحب کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی تحریک انصاف میں شامل کئی اراکین پنجاب اسمبلی کو "سرائیکی وسیب" کے دُکھ بھی یاددلاسکتی ہے۔ عمران خان صاحب کے لئے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کا نیا وزیر اعلیٰ لگانا اس کی وجہ سے دشوار تر ہوسکتا ہے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے حامی بھی ممکنہ تناظر میں ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
ماضی کی تلخیاں بھلاتے ہوئے شہباز شریف صاحب چند روز قبل چودھریوں کے لاہور والے گھر حاضر ہوئے تھے۔ میرے جھکی ذہن نے اسے کارزیاں ٹھہرایا۔ شہباز صاحب نے بالآخر مذکورہ حاضری سے اپنی ذات اور جماعت ہی کو شرمندہ کیا۔ چودھری پرویز الٰہی نے ان کی رہائش پر جوابی حاضری دینے سے بھی گریز کیا۔
شہباز صاحب کے گھر جانے سے انکار کے باوجود پرویز الٰہی صاحب کے فرزند اور سیاسی وارث چودھری مونس الٰہی نہایت خلوص سے خواہش مند تھے کہ کراچی سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی صورت بڑھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری جب گجرات پہنچیں تو ان کے آبائی گھر "چائے پانی" کے لئے رکیں۔ پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین کو تاہم آصف علی زردار ی صاحب نے منع کردیا۔
دوکشتیوں میں بیک وقت سواری کے خواہاں افراد کے ساتھ ایسے ہی واقعات ہوتے ہیں۔ چودھریوں نے فیصلے کی گھڑی میں لیت ولال سے کام لیا۔ ان کے رویے نے جو خلاء پیدا کیا اسے علیم خان جہانگیر ترین کی چھتری تلے جمع ہوئے "ناراض" افراد کی معاونت سے پُر کرنے میں مصروف ہوگئے۔ بات چل نکلی ہے دیکھیں کہاں تک پہنچے۔ ایک بات اگرچہ عیاں ہوگئی اور وہ یہ کہ چسکہ فروش میڈیا کی توجہ اب عمران خان صاحب کا مقدر طے کرنے کے بجائے عثمان بزدار کا احوال جاننے پر مرکوز ہوگئی ہے۔ دریں اثناء وہ "48گھنٹے" بھی گزرچکے ہیں جن کے دوران مولانا فضل الرحمن صاحب نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے "خزاں " کی جگہ " بہار" کی نموداری کو ممکن بنانا تھا۔
یہ کالم لکھ کر دفتر بھجواچکا تو خبر آئی کہ اپوزیشن جماعتوں نے بالآخر وزیر اعظم صاحب کے خلاف قومی اسمبلی کے دفتر میں تحریک عدم اعتماد جمع کروادی ہے۔ یوں ہمارے ٹی وی چینلوں کو اپنی سکرینیں پُررونق رکھنے والا تماشہ فراہم کردیا گیا ہے۔ یہ رونق ہمیں اس حقیقت کو بھلادینے میں آسانی مہیا کرے گی کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی بدولت نئے ریکارڈ بنانا شروع ہوگئی ہے۔ میرے اور آپ جیسے محدود آمدنیوں والے پاکستانیوں کے لئے اس کے اثرات جان لیوا ہوں گے۔