کمشنر راولپنڈی نے ہفتے کے روز جو سنسنی خیز بیان دیا ہے و ہ زلزلے کی طرح آیا اور گزرگیا۔ دوستوں نے اگرچہ کئی گھنٹوں تک امید یہ باندھے رکھی کہ مذکورہ بیان کے نتیجے میں اگر "میرے عزیز ہم وطنو" نہیں تو کم از کم ایمرجنسی کا اطلاق تو یقینا ہونے والا ہے۔ گھبرائے دل کے ساتھ مجھ سے کئی لوگ ان دونوں امکانات کے بارے میں ٹیلی فون کے ذریعے استفسار کرتے رہے۔
میں نہایت دیانتداری سے اپنی لاعلمی اور ٹھوس معلومات کے فقدان کے علاوہ کچھ بیان کرنے کے قابل ہی نہیں تھا۔ بالآخر دماغ کی محاورے والی دہی بن گئی اور ٹیلی فون سائلنٹ موڈ پر نہیں بلکہ بند کرکے سوگیا۔ نیند یقینی بنانے کے لئے ایک گولی بھی لی۔ صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنے سے قبل موبائل کھولا تو ٹویٹر جسے اب ایکس کہا جاتا ہے میسر نہیں تھا۔ دل گھبرا گیا۔ خیال آیا کہ "وہ" ہو ہی نہ گیا ہو جس کا خدشہ تھا۔ وحشت میں ٹی وی کاریموٹ دبایا تو چینلوں پر معمول کی نشریات جاری تھیں۔
عجب اتفاق یہ بھی ہوا کہ ایک چینل پر میرے دوست سہیل وڑائچ مصر میں گزرے "ایک دن" کی داستان بتارہے تھے۔ فرعونوں کا مصر جمہوریت کا عادی نہیں۔ کئی برسوں کی آمریت کے بعد وہاں 2011ء میں"عرب بہار" نمودار ہوئی۔ ٹویٹر اس "بہار" کا کلیدی وسیلہ تھا۔ التحریر اسکوائر میں کئی دنوں تک جاری رہے دھرنے کے نتیجے میں حسنی مبارک اقتدار چھوڑنے کو مجبور ہوا۔ بعدازاں مصر کی حالیہ تاریخ میں کئی دہائیوں کے بعد صاف شفاف انتخاب ہوئے۔ ان کے نتیجے میں اخوان المسلمین کے مرسی مصرکے صدر منتخب ہوئے۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد مگر وہ "نظریاتی حصار" سے باہر نہ آسکے۔ اپنی پالیسیوں سے مصر کی روایتی اشرافیہ اور نام نہاد "روشن خیال" متوسط طبقے کور ام کرنے میں ناکام رہے۔ سب سے اہم مسئلہ مگر یہ بھی رہا کہ وہ مصر کی معیشت کو نئی سمت کی جانب موڑ نہیں پائے۔ ان کے خلاف بھی "التحریر اسکوائر" ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں"جمہوریت" فارغ ہوئی۔ مصر ایک بار پھر فوجی بندوبست کے سپرد ہوا۔ 18فروری 2024کی صبح پاکستان کے دارالحکومت میں اٹھ کر ٹی وی آن کرتے ہی اس پر مصر کا ذکر میرے بزدل دل کو بدشگونی محسوس ہوا۔ موبائل پر ٹویٹر میسر ہوتا تومیں اس "بدشگونی" سے محفوظ رہتا۔
8فروری کے دن پاکستان میں جو انتخاب ہوئے ہیں ان کے نتائج سے کوئی بھی خوش نہیں۔ عاشقان عمران اگرچہ چند وجوہات کی بنیاد پر ا نہیں اپنی کامیابی وکامرانی کا ا ظہار بتارہے ہیں۔ ٹھنڈے دل سے غور کریں تو انہیں کامیابی پر ناز کا بھرپور حق حاصل ہے۔ عام ا نتخاب سے قبل تحریک انصاف کے بانی سمیت اس جماعت کے تقریباََ ہر سرکردہ رہ نما کو مختلف مقدمات میں الجھاکر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ عمران خان کو ان کی اہلیہ سمیت تیز رفتاری سے چلائے مقدمات کے بعد سزائیں بھی سنوادی گئیں۔
تحریک انصاف اس کے باوجود انتخابی عمل میں حصہ لینے کو ڈٹی رہی تو اسے بطور سیاسی جماعت اس کے روایتی انتخابی نشان یعنی بلے سے محروم کردیا گیا۔ بلے سے محروم ہوجانے کے باوجود تحریک انصاف نے اپنے امیدوار میدان میں اتارے اور ان کو ملے انتخابی نشانات کو سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال سے گھر گھر پہنچادیا۔ سیاسی پنڈتوں کی اکثریت یہ سوچتی رہی کہ تحریک انصاف عاشقان عمران خان کی کماحقہ تعداد کو پولنگ بوتھوں تک لا نہیں پائے گی۔ 8فروری سے پانچ دن قبل میں بھی یہ سوچتا رہا۔ اپنی سوچ پر لیکن مسلسل سوال اٹھاتا رہا۔
اسلام آ باد میں چند ڈرائیوروں اور بازار میں اچانک ملے افراد سے گفتگو کی تو اندازہ ہوا کہ تحریک انصاف کے حامی جان چکے ہیں کہ ان کے حلقے میں ان کی جماعت نے کونسے فرد کو نامزد کیا ہے اور اس کا انتخابی نشان کیا ہے۔ ان کی اکثریت لیکن مجھے یہ بتانے کو آمادہ نہیں تھی کہ وہ اسے ہر صورت ووٹ دینے گھر سے 8فروری کے دن نکلیں گے یا نہیں۔ یوم انتخاب سے ایک دن قبل لاہور کے دروازوں کے اندر واقع محلوں میں رات گئے تک گھومنے کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ عاشقان عمران کی کثیر تعداد تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار کی حمایت میں ووٹ ڈالنے گھر سے نکلے گی۔ آٹھ فروری کی صبح اٹھ کر گلبرگ سے گڑھی شاہو اور بعدازاں لکشمی چوک تک پہنچتے ہوئے میرا اندازہ درست ثابت ہوتا نظر آیا۔
تحریک انصاف کے حامی جس انداز میں 8فروری کے دن گھروں سے باہر نکلے ہیں وہ ہر اعتبار سے تاریخی ہی نہیں بلکہ حیران کن بھی ہے۔ عاشقان عمران کو اس کی بابت فخر کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ہی مگر انہیں یہ اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ پاکستانی قوم نے یکسوہوکر فقط تحریک انصاف کی حمایت میں ووٹ نہیں دئے ہیں۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کی 80کے قریب نشستیں دھاندلی سے چھین لی گئی ہیں۔ میں اس تعداد سے اتفاق کرنے کو آمادہ نہیں۔ یہ حقیقت اگرچہ تسلیم کرنا ہوگی کہ اگر منظم انداز میں دھاندلی نہیں ہوئی تب بھی انتخابی نتائج مرتب کرنے تک کئی حلقوں میں بے تحاشہ بے ضابطگیاں سرزد ہوئیں۔
جو بے ضابطگیاں ہوئیں ان کے خلاف سب سے بلند اور توانا آوازیں بلوچستان سے اٹھی ہیں۔ ہمارا نام نہاد مین سٹریم میڈیا ان آوازوں کو نظرانداز کرتا رہا۔ فقط تحریک انصاف کی جانب سے مبینہ دھاندلی کے خلاف مچائے واویلے پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس کے بعد مگر مولانا فضل الرحمن تین دن کی خاموشی کے بعد پھٹ پڑے۔ تحریک انصاف نے ان کے احتجاج کو اپنے دعوے کی گواہی تصور کیا اور دیرینہ اختلافات کو یکسر بھلاکر مولانا سے ملاقات کو اس کے رہ نما مچل گئے۔ مولانا سے جپھی ڈالتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی گئی کہ ان کی جانب سے دھاندلی کے خلاف مچایا واویلا درست ہے تو وہ تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ میں کامیابی کو بھی مشکوک بنادیتا ہے۔
تمام تر احتجاج کے باوجود مولانا ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف بھی قومی اسمبلی میں جانے کو تیار ہے اور عمر ایوب خان تحریک انصاف کی جانب سے وزیر اعظم کے امیدوار بھی نامزد ہوچکے ہیں۔ ایسے عالم میں کمشنر راولپنڈی کی جانب سے آیا بیان درحقیقت ایک سنسنی خیز داستان سناتے ہوئے نو منتخب اسمبلی کو بحیثیت مجموعی دھاندلی کی پیداوار ٹھہرارہا تھا جس کی جانب سے عمر ایوب خان کا بطور وزیر اعظم انتخاب بھی "ناجائز" تصور ہوگا۔ مذکورہ پہلو کی جانب مگر سنسنی خیز بیان کی بابت شاداں ہوئے دوست توجہ ہی نہیں دے رہے۔ اسی باعث ایمرجنسی یا "ایمرجنسی پلس" کی سرگوشیاں ہیں۔ "زلزلہ" تاہم آنے کے بعد گزرگیا محسوس ہورہا ہے۔