Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Afghanistan Aur Technology Parast Mushriqeen e Jadeed

Afghanistan Aur Technology Parast Mushriqeen e Jadeed

وہ جن کے دلوں میں ٹیکنالوجی کے حیران کن اور کرشماتی طاقتوں والے " بت" کا شرک جڑیں پکڑ چکا تھا، گذشتہ بیس سالوں سے وہ مغرب کی سمت سے طلوع ہونے والے اس سورج اور افغانستان کی سرزمین پر اس کی یلغار کی شان میں تسبیح کرتے، قصیدے گاتے اور اس کی چوکھٹ پر اپنی جبینِ نیازجھکاتے رہے تھے۔ لیکن آجکل ان "مشرکینِ جدید " کی حالت دیدنی ہے۔ یوں تو گذشتہ دو سالوں سے یہ اپنے "عظیم" اور "محیّر العقول"ٹیکنالوجی کے بت کی افغانستان میں ٹوٹی ہوئی کرچیاں چن رہے تھے اور ان کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کبھی وہ اپنے مضامین میں، عالمی دفاعی کانفرنسوں میں، یونیورسٹیوں کی علمی محافل میں اور فوجی تربیت کے اداروں میں سنجیدہ گفتگو کرتے وقت، جدید ٹیکنالوجی کے "بت"کے مظاہر بتاتے ہوئے کتنے پُر غرور ہوا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ دیکھو، یہ سپرسانک فائٹر جہازوں کی کئی نسلیں ہیں جو آواز سے بھی تیز پرواز کرتے ہوئے بم برسا کر چلی جاتی ہیں اور کوئی انہیں نہیں پکڑ سکتا۔ ان کی رفتار اور نشانوں کو خلاؤں میں موجود سیٹلائٹ کنٹرول کرتے ہیں، غلطی کا کوئی احتمال ہی نہیں۔ یہ دیکھو یہ ڈرون خاندان کے لوہے کے بنے ہوئے سپاہی ہیں، کوئی انسان نہیں ہیں، یہ جب بم برسانے آتے ہیں تو انہیں کسی نعرۂ تکبیر بلند کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اپنا ٹارگٹ منتخب کیا، اسے تباہ کیا اور واپس لوٹ گئے۔ یہ راتوں کے اندھیرے میں دشمن کو ڈھونڈنے اورپھر اسے نیست و نابود کرنے والا "Night Vision" جنگی سسٹم ہے جو اندھیری رات میں بھی اپنا ہدف تباہ و برباد کر دیتا ہے۔

ہمووی (Humve)ٹینک کی جانب دیکھو، یہ تو ہماری ٹیکنالوجی کے "دیوتا" کا جیتا جاگتا معجزہ ہے۔ اس کی جانب اگر تیز رفتار میزائل بڑھے تو یہ اپنے اردگرد موجود "مقناطیسی ہالے " (Magnetic field) سے اسے واپس دھکیل دیتا ہے۔ تم نے شہروں، ریڈزونوں اور مخصوص اہم مقامات پر لگا ہوا ایئر ڈیفنس سسٹم نہیں دیکھا، اگر کوئی جہاز، ڈرون یا میزائل اس علاقے میں گھسنے کی جرآت کر بھی لے تو ایئر ڈیفنس کی تمام بندوقیں، میزائل اور دیگر دفاعی آلات ایک دم متحرک ہو کر آسمان پر ایک جال سا بُن دیتے ہیں جس کے اندر گھسنا موت ہوتی ہے اور یوں حملہ آور جہاز ہو یا میزائل تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ تم لوگوں نے ٹیکنالوجی کے دیوتا کا جاسوسی نظام تو دیکھاہوگا، کہ جو کسی کی گھڑی، موبائل یہاں تک انگوٹھی کے ذریعے کئی لاکھ فٹ بلندی سے اس شخص کو ڈھونڈ نکالتا ہے اور پھر اس کے پیچھے ڈرون، میزائل، جہاز یا ٹینک لگا دیئے جاتے ہیں جواسے نیست و نابود کر دیتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ایسے قصیدے اور "تسبیح و تہلیل "آپ کو ٹیلی ویژن چینلوں کے تجزیہ نگاروں، اخبارات کے کالم نگاروں اور دانشوروں کی آسان فہم زبان میں بیس سال سنائی دیتی رہی۔ جبکہ اسی ٹیکنالوجی کے بت کے "سائنسی پنڈت" آپ کو اعلیٰ سطح کے فوجی مراکز، یونیورسٹیوں کے علمی شعبہ جات اور بڑے بڑے تھنک ٹینکوں کے مباحث میں خالص ٹیکنیکل گفتگو کرتے نظر آتے رہے۔ ٹیکنالوجی پر ان کا "مکمل ایمان"آج بھی قائم ہے۔

اکتوبر 2001ء سے لے کر اب تک بیس سال اس ٹیکنالوجی کے "بت" کی جتنی پرستش پاکستان میں ہوئی ہے، کہیں اور نہیں ہوئی۔ اس مبینہ "شرک" کا یہ عالم تھا کہ اگران دانشوروں کے سامنے کوئی قرآن پاک کی آیتیں خصوصاً یہ آیت کہ "بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے بڑے گروہ پر غالب آگیا" (البقرہ:149)پڑھتا تو اس کا تمسخر اڑایا جاتا۔ ٹیکنالوجی کے یہ پرستار لوگ بیس سال سے مسلسل ایک ہی خواب دیکھتے چلے آرہے تھے۔ ان کا اور ان کے آقاؤں کا مشترک خواب، " افغانستان میں جدید عسکری ٹیکنالوجی کے عظیم بت کی فتح"کا خواب تھا۔ لیکن چندہی سالوں بعد ان کا یہ "بت" آہستہ آہستہ شکست کھانے لگا، مگر انہوں نے اپنے اس شرک کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ اور چھوٹے چھوٹے دیوتاؤں کو بطور مددگار دل میں بسالیا۔ ان میں سے ایک "دیوتا" پاکستان کی ایجنسیوں کی "خفیہ مدد" کا بت تھا۔ مثلاً ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جو اچانک اس بات پر یقین رکھنے لگے کہ افغانستان میں ان کی عظیم ٹیکنالوجی کے بڑے بت کے پجاری "امریکہ اور اڑتالیس ممالک" کو شکست دراصل پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے ہوئی۔ وہ ایجنسیاں جو بذاتِ خود اسی ٹیکنالوجی کے بت کی مدتوں سے بھکاری چلی آرہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی پرستش کے "شرک" کو مضبوط رکھنے کے لیے ان لوگوں نے خود کو کیا کیا تسلیاں نہیں دیں۔ لیکن میرے اللہ کا فیصلہ اٹل تھا۔ اس نے ثابت کیا کہ اس کی مدد "بدر" و "قادسیہ" کے بعد بھی ایسے لوگوں کے لیے آسکتی ہے جو ویسا ہی توکل رکھتے ہوں اور صرف اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے میدان میں اترتے ہوں۔ گذشتہ ایک سو سال سے ترقی کرتا ہوا "جدید عسکری ٹیکنالوجی کا بت" آج افغانستان میں ویسے ہی اوندھا چکنا چور پڑا ہے جیسے چودہ سو سال پہلے لات و ہبل کے بت کعبے سے باہر پھینکے گئے تھے یا قادسیہ کے میدان میں زمینی طاقتور انسانی دیوتا "رستم" کا لاشہ پڑا تھا، جسے اپنی ایرانی سپاہ کی قوت اور اپنے عہد کی ٹیکنالوجی پر بہت ناز تھا۔

ان دنوں ان "ٹیکنالوجی پرست مشرکین ِ جدید" کے دل میں ایک خواہش بڑی شدت سے مچل رہی ہے اور وہ اسے ہر جگہ بیان کرتے پھرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو کرخاک و خون میں نہلا ئے گا۔ اپنے "دیوتا " کی شکست کے بعد ان کے دل میں اب یہی ایک آرزو باقی ہے کہ افغان حکومت جو امریکہ کی قوت کے بل پر قائم ہوئی تھی، اب امریکہ کے جانے کے بعد اچانک اتنی طاقتور ہو جائے گی کہ وہ ان فتح یاب طالبان کو شکست دے گی یا پھر ان کا مسلسل مقابلہ کرے گی۔ ان طالبان کا جنہوں نے امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری عالمی قوت کو ذلت آمیزشکست دی ہے۔

شرک ایک ایسا اندھیرا ہے جو سوچنے کی صلاحیتیں تک چھین لیتا ہے۔ ان دانشوروں کو کل کی تاریخ بھی یاد نہیں کہ جب 13محرم 1415ہجری بمطابق 24جون 1994ء بروز جمعہ طالبان نے "عمر ثالث" ملا محمد عمر ؒ کی قیادت میں جہاد کا آغاز کیا تو پورا افغانستان ویسے ہی قتل و غارت میں ڈوبا ہوا تھا، جیسی ان کی آج خواہش ہے۔ لیکن 27ستمبر 1996ء کو جب کابل پر طالبان کا پرچم لہرایا تو اس کے بعد اکتوبر 2001ء تک کے پانچ سالوں کے بارے میں دنیا کا ہر مؤرخ، پچانوے فیصد افغانستان کو امن و آتشی اور انصاف کا روشن مینار تحریر کرتا ہے۔ اسقدر امن کہ عوام نے اپنا اسلحہ تک طالبان کے حوالے کر دیا تھا کہ اب ہمیں امن دینے والے آگئے ہیں۔ دنیا کو سپلائی کی جانے والی ستانوے فیصد افیون کی کاشت اور ہیروئن کی سپلائی ایک حکم نامے پر ختم ہو گئی تھی۔ یوں لگتا تھا سیدنا عمرؓ اور عمر بن عبد العزیزؒ کا وہ زمانہ واپس لوٹ آیا ہے کہ قندھار سے کابل تک زیورات سے لدھی پھندی عورت سفر کرے اور اسے کوئی خوف نہ ہو۔

یہ لوگ شرک کے اندھیرے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ افغانستان کی گذشتہ ایک ہزار سال کی تاریخ میں اگر مکمل امن قائم کرنے کا تمغہ کسی کے سینے پر سجا ہے تو وہ صرف اور صرف طالبان ہیں۔ مجھے ان شکست خوردہ لوگوں پر بہت ترس آتا ہے۔ ان دانشوروں کا کیا ہوگا جب امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد ان کی خواہشات کے مطابق وہاں خانہ جنگی نہ شروع ہوئی اور طالبان نے تمام چھوٹے چھوٹے گروہوں پر قابو پاکر امن قائم کر دیا یا پھر وہ تمام گروہ طالبان کے ساتھ ویسے ہی آملیں، جیسے 1994ء میں ان سے آملے تھے۔ اگر ایسا ہو گیا تو یہ پھر کس دیوتا کا سہارا لے کر اپنے شرک کو مضبوط کریں گے۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.