افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں امریکہ خصوصاً سی آئی اے کے وفادار، مخبر، ایجنٹ اور"مفاداتی ہمدرد" بنانے کی مہم گذشتہ چالیس سال سے جاری ہے۔ جیسے ہی افغانستان میں سوویت کیمونسٹ افواج 24دسمبر 1979ء کو داخل ہوئیں، تواس خبرکی امریکہ اور پاکستان کی اسٹبلشمنٹ دونوں کو توقع نہیں تھی۔ اس سے چند سال پہلے، اگر کہیں روس کی براہ راست مداخلت کا تذکرہ چلتا تو افغان تاریخ کے حوالے دیتے ہوئے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اسے ردّ کر دیا جاتا۔ مگر امریکی ساتھ ہی یہ خواب بھی دیکھاکرتے تھے کہ کاش روس، افغانستان میں داخل ہونے کی حماقت کر بیٹھے۔ افغانستان میں سوویت افواج کے داخل ہونے پر فوری ردّ عمل صرف اور صرف ان افغانوں کی طرف سے ہوا، جن کی سرشت میں اسلام کی حریتِ فکر نے غیرت و حمیت کی جوت جگا رکھی تھی۔ تقریباً دو سال تک امریکہ اور عالمی برادری افغانوں کے اس ردّ عمل کا بغور مطالعہ کرتی رہی اور پھر 1981ء کے آخری حصے میں چاروں جانب سے یلغار شروع ہو گئی۔ لیکن ان دو سالوں میں افغانستان سے انکی اشرافیہ اور مڈل کلاس کے لاتعداد لوگ ابتدائی خانہ جنگی سے گھبرا کر پاکستان ہجرت کرچکے تھے۔ ان لوگوں کے پاس ابتدائی سرمایہ موجود تھا، اس لیئے یہ کوئٹہ اور پشاور کے بہتر علاقوں میں کرائے کے گھروں میں رہنے لگے۔ آہستہ آہستہ عام افغان بھی خانہ جنگی کی وجہ سے پاکستان ہجرت کرنے لگے۔ سب سے پہلے جس عالمی تنظیم کے دفاتر یہاں کھلے وہ اقوامِ متحدہ کا کمیشن برائے مہاجرین (UNHCR)تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کیمپوں کی ایک وسیع تعداد پورے ملک میں پھیل گئی اور سوویت یونین کی افواج کے افغانستان سے نکلتے وقت چالیس لاکھ کے قریب افغان مہاجر ان پاکستان کے کیمپوں میں مقیم تھے۔
اقوامِ متحدہ کے اس دفتر کے ساتھ ساتھ عالمی این جی اوز کا ایک غول ٹڈی دل کی طرح اس پورے خطے پر ٹوٹ پڑا۔ دنیا کی ہر قومیت اور نسل کے غیر ملکی کوئٹہ اور پشاورکی گلیوں میں نظر آنے لگے۔ انہی لوگوں کی سہولت کیلئے قائم ہونے والے کوئٹہ کے سیرینا ہوٹل کے سوئمنگ پول کا عالم کسی امریکی یا یورپی نیم برہنہ ساحل سمندر سے مختلف نہیں ہوتا تھا۔ ہر طرح کا "ماہر" امریکہ اور یورپ سے اٹھ کر یہاں آن پہنچا تھا۔ عسکری، رفاحی، تعلیمی، ذرعی، مال مویشی، میڈیا، ترقیاتی، غرض کوئی ایسا شعبہ نہیں تھا جس کے امریکی اور یورپی ماہرین اپنی تنظیموں کے ذیلی دفاتر کے ساتھ یہاں موجود نہ ہوں۔ عالمی سطح کی رفاحی تنظیمیں مثلاً ریڈکراس، ہینڈی کیپ انٹرنیشنل اور سیو دی چلڈرن کے تو کوئٹہ اور پشاور میں بڑے بڑے ہیڈکوارٹر قائم تھے۔ یوں پاکستان میں ایک وقت میں ہزاروں غیر ملکیوں نے افغان جنگ کے نام پر یہاں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ ان ماہرین کے لیئے ماتحت پاکستانی یا افغان سٹاف کی بہت ضرورت تھی۔ دفتروں کا سٹاف تو عام لوگوں کو کئی گناہ زیادہ تنخواہوں اور خوبصورت دفتری ماحول دے کر بھرتی کر لیاگیا۔ مگر غیر ملکی ماہر، انتظامی سربراہ یا اہم ترین افراد کے خصوصی کاموں کے لیے ایک خاص طبقہ یا Cadre تخلیق کیا گیا، جسے عرفِ عام میں مترجم، رابطہ کاریا لوکل گائیڈکہا جاتا تھا اور ان میں سے اکثر ایسے بھی ہوتے جو ہمہ وقت ذاتی محافظ کا بھی کام کرتے۔ یوں افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں ایسے بہت سے افراد کاایک گروہ یا ایک غیر محسوس ڈھانچہ (Cadre)تخلیق ہوگیا۔ ان میں سے اکثریت اشرافیہ کی اولادیں، نیم سیکولر، لبرل طرز زندگی اور نظریات رکھنے والے، مغربی طرزِ زندگی سے والہانہ محبت اور خصوصاً اپنی پشتون قوم کی پسماندگی کا ماتم کرنے اورمذہب کو اس کی بنیادی وجہ تصور کرنیوالے، اس کیڈر کاحصہ بنتے چلے گئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے مراعات اور تنخواہوں کی وجہ سے یہ افراد مالی طور پر مستحکم ہونے لگے۔ کسی فرد میں اگر کوئی تعلیمی کمی تھی تو اسے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم کے مفت مواقع بھی فراہم کئے گئے۔ ان میں سے اکثریت کو امریکہ یا کسی دوسرے یورپی اتحادی ملک کی شہریت اور پاسپورٹ بھی دیا جاتا تھا۔ کئی ایسے تھے جنہوں نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کو یہاں تک یقین دلا دیا تھا، چوں کہ وہ آپ کے ساتھ کام کرتے ہیں، اس لیئے ان کے خاندانوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں اور امریکیوں نے ان پر مہربانی کرنے کے لیئے انکے خاندانوں کو امریکہ اور یورپ کی شہریت کے ساتھ وہاں مستقل کر دیاتھا۔ لیکن جب روس کے جانے کے بعد فوراً بعد امریکہ بھی چلا گیاتواس "مترجم نما گارڈ کیڈر" کے افراد نے اپنی اپنی این جی اوز بنائیں، جنہیں پاکستان میں موجود امریکی اور یورپی ڈونرز اپنے سفارت خانوں کے ذریعے مسلسل فنڈز فراہم کرتے رہے۔ یوں انہیں وفاداریوں کا مسلسل معاوضہ ملتا رہا۔ ایسا ہی ایک کردار "شکیل آفریدی" بھی تھا، جس نے اُسامہ بن لادن کو پکڑوانے کے لیئے امریکی سی آئی اے کے فنڈ سے این جی او بنائی تھی اور امریکی آج تک اس "وفادار" کو واپس لانے میں لگے ہوئے ہیں۔
اکتوبر 2001ء میں امریکہ، اڑتالیس ملکوں کے ہمراہ جب افغانستان میں داخل ہواتو اسے مترجم، گارڈ، ایجنٹ اور مخبرکی صلاحیتیں رکھنے والے افراد کی ضرورت کئی گنا زیادہ تھی۔ ایک دفعہ پھرستمبر 2001ء کے آخر میں کوئٹہ ویسے ہی غیر ملکیوں سے بھر چکا تھا، جیسے اسّی کی دہائی کے آغاز میں بھرگیا تھا۔ لیکن اس دفعہ امریکیوں کومقامی ماہرین کو ڈھونڈنا مشکل نہیں تھا، وہ پہلے سے نسل در نسل یہاں موجود تھے۔ یہ سب کے سب جن کی اکثریت افغان نیشنل تھی، کابل جا پہنچے اور وہاں اپنی خدمات دینے لگے۔ ان کے بارے میں طالبان آج بھی وثوق سے کہتے ہیں کہ یہ سی آئی اے کے ایجنٹوں کا ایسا منظم گروہ ہے، جسے ہمارے خلاف مخبری اور سازش کیلئے زندہ رکھا گیا ہے۔ آزاد دنیا بھی اس خیال کی توثیق کرتی ہے۔
یہی گروہ یا "کیڈر" تھا جو اکتوبر 2001ء میں امریکی افواج، سی آئی اے اور تمام عالمی طاقتوں اور این جی اوز کا بیس سال مددگار اور ایجنٹ رہا۔ یہی تو وہ لوگ تھے جن کی وجہ سے کابل کاریڈزون اپنی سیکولر، تعیش پسندماحول کی رونقوں سے آباد ہوا۔ لیکن جیسے ہی ذلت آمیز شکست کے بعد امریکہ اور عالمی اتحاد افغانستان سے رخصت ہونا شروع ہوا، تو یہ مترجم کم باڈی گارڈ افراد ان سے پہلے ہی افغانستان سے بھاگنا شروع ہوگئے۔ یہ بھاگم بھاگ دیکھ کر امریکی سیاست تک میں گھبراہٹ آگئی اور گیارہ جون 2021ء کو امریکی سینیٹر زجینی شاہن (Jeane Shaheen) اور ڈک ڈربن (Dick Derban)سمیت کئی ایک نے مل کر ایک بل سینٹ میں پیش کیا کہ وہ افغان شہری جنہوں نے امریکہ کی مدد کی تھی، ان کو طالبان کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے پہلے افغانستان سے نکالو اور خصوصاً ترجمانوں اور باڈی گاڈز کوپہلے نکالو۔ امریکہ کو اب تک بائیس ہزار ایسے افغانوں کی درخواستیں پہنچ چکی ہیں، جو افغانستان میں امریکہ کے سپورٹر تھے اور طالبان کے آنے سے پہلے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ پینٹا گون نے ایسے تمام افغانوں کے انخلاء کا پروگرام ترتیب دیا اور وہ اس دفعہ اپنے کسی ایجنٹ کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہتے۔ اس پلان کا ذکر جنرل مارک ملی (Mark Milli)نے بھی کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ بلنکن کو امور خارجہ کی کمیٹی میں لوگوں نے غصے کے عالم میں کہا کہ وقت ضائع مت کرو، گھڑی کی ٹک ٹک چل رہی ہے اور طالبان مارچ کرتے ہوئے آرہے ہیں، ہمارے ساتھی افغانوں کو وہاں سے نکالو۔ ٹیکنالوجی کے دیوتاؤں کا یہ خوف جدید انسانی تاریخ میں میرے اللہ کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ دوسری جانب امارات اسلامی افغانستان نے امریکی سینیٹ کے اس اجلاس کے فوراً بعد ان مترجم اور گارڈ طبقے سے کہا کہ "آپ لوگ بھاگ کر مت جائیں اور معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آئیں اور جس محکمے سے متعلق ہیں، اس کی مہارت سے امارات اسلامی کو فائدہ پہنچائیں۔ اگر کوئی شخص صرف اپنے خطرے کا بہانہ کر رہا ہے اور بیرون ملک جانے کی خاطر جعلی طریقے سے مقدمہ بنا رہا ہے تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔ امارات اسلامیہ کے مجاہدین کا آپ کوخوف نہیں ہونا چاہیے"۔ یہ ہے اسلام کا نظامِ عفو و درگزر کہ وہ لوگ جن کے بارے میں یہ علم ہو کہ وہ سی آئی اے کے پے رول پر رہے ہیں اور کل کو کوئی بھی سازش کر سکتے ہیں ایسے افراد کو عام معافی دینے کا حوصلہ بھی اللہ صرف مومن قیادت کو ہی عطا کرتا ہے۔