اگر کوئی دانشور یہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کے مسلمانوں کے قاتل یہ چند لاکھ اسرائیلی یہودی ہیں، تو اسے عالمی سیاست کی پرپیچ راہداریوں کا بالکل اندازہ نہیں۔ وہ اگر مسلمان ہے تو یقینا اسے قرآنِ پاک اور احادیثِ رسول ﷺ میں وضاحتوں کے ساتھ بیان کئے گئے آخری معرکۂ خیر و شر کے کرداروں کا مکمل ادراک بھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیایہودی، جن پر نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ نے قیامت تک ذلت و مسکنت مسلط کر دی ہو، وہ آج بذاتِ خود اسقدر طاقتور اور قوت والی قوم بن سکتی ہے کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو بزدلی کا تمسخر بنا کر رکھ دے۔ اللہ نے جس آیت میں ان پر ذلت و رسوائی مسلط کرنے کا فیصلہ کیا وہیں، ان کے طاقتور ہونے کی دو وجوہات بھی بتائیں۔ فرمایا "ان کے اوپر ذلت تھوپ دی گئی جہاں کہیں بھی پائے جائیں، سوائے یہ کہ (انہیں کسی وقت) اللہ کا کوئی سہارا حاصل ہو جائے یا لوگوں کی طرف سے کوئی سہارا مل جائے" (آلِ عمران: 112)۔ ان پر ذلت و مسکنت کی دو ہزار سالہ تاریخ اور اس کے بعد لوگوں کی طرف سے سہارا، قرآن پاک کی حقانیت کی دلیلیں ہیں۔ اللہ فرماتا ہے "تو ہم نے ڈال دی ان کے درمیان دشمنی اور بغض قیامت کے دن تک" (المائدہ: 14)۔ قرآن پاک کی یہ آیت یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان مسلسل اور مستقل دشمنی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ 70ء عیسوی میں رومن جرنیل ٹائٹس نے جب یروشلم کو تباہ و برباد کرکے یہودیوں کو دربدر کیا تو ایسے میں قرآن پاک کی ایک اور پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔ فرمایا "اور ہم نے بنی اسرائیل کو گروہوں میں بانٹ کر زمین پرمنتشر کر دیا" (الاعراف: 168)۔ اس دن سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک یہودی قوم کی دربدر ہونے اور عیسائیوں کے ظلم و تشدد کا نشانہ بننے کی دو ہزار سالہ تاریخ ہے۔ یروشلم سے نکلنے کے بعد اگلا بڑا المیہ انہیں مسلم سپین میں پیش آیا۔ یورپ کے عیسائی پادریوں میں یہودیوں کے بارے میں شدید نفرت کی ایک لہر اٹھی۔ سپین کے شہراراگون (Aragon) میں پادریوں نے عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان مناظرے کروانے شروع کئے، جن میں ان کی تذلیل کی جاتی اور بعد میں ان پر بدترین تشدد کیا جاتا۔ بیشمار یہودی اسی خوف سے عیسائی ہوگئے۔ ان کو سرکاری طور پر "Converso" یعنی "نئے عیسائی" کہا جاتا۔ عام عیسائی ان نئے عیسائیوں کو میرانیوس (Marranos)کہتے تھے جس کا مطلب "خنزیر" یا" سؤر" ہوتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ یہودی جو عیسائی بنے تھے، مال دار ہونے لگے اور ان کی دولت کی وجہ سے اعلیٰ عیسائی خاندانوں میں ان کے رشتے داریاں بھی شروع ہوگئیں۔ بعض نے تو عیسائی مذہبی علم اسقدر مہارت اور جانفشانی سے حاصل کیا کہ وہ اعلیٰ سطح کے پادری بن گئے۔
یہاں بغض کے مارے پرانے عیسائیوں اور نئے عیسائیوں (یہودیوں) کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے اور 1449ء سے لے کر 1474ء تک ان یہودیوں کو بھی، جو عیسائی ہو گئے تھے، بے دردی سے قتل کیا جانے لگا۔ ان کی جائیدادیں لوٹی گئیں اور انہیں شہروں سے نکال کر دربدر کر دیا گیا۔ ہوا یوں کہ یہ لوگ خفیہ طور پر یہودی مذہب پر عمل کرتے تھے، اس لیئے سپین کے چرچ نے باقاعدہ "مخبر" جتھے بنائے، جو یہ تلاش کرتے کہ کونسا "نیا عیسائی" ابھی تک یہودی مذہب پر عمل کررہا ہے۔ ان کے پاس خنزیر کا گوشت لے کر جایا جاتا اور انہیں کھانے پر مجبور کیا جاتا یا پھر انہیں ہفتے کے روز کاروبار کرنے کو کہا جاتا۔ اگر کوئی ایسا نہ کرتا تو اس کے جرم میں قتل کر دیا جاتا اور اس کی املاک نذر آتش کر دی جاتیں۔ ایسے تیرہ ہزار یہودیوں کو قتل کیا گیا۔ ازابیلا اور فرڈنیڈ نے 1492ء میں سپین فتح کیا تو یہودیوں کے سپین میں رہنے کے لیئے ایک شرط عائد کی کہ وہ عیسائی ہو جائیں۔ ستر ہزار نے عیسائیت قبول بھی کر لی اور باقی تقریباً پچھتر ہزار بھاگ کر خلافتِ عثمانیہ کی پناہ میں چلے گئے۔
یہ پوری صدی یہودیوں کی بدترین دربدری کی صدی تھی۔ سپین سے آخری ہجرت سے پہلے انہیں 1421ء میں آسٹریا کے شہروں ویانا (Viana)اور، لنز (Linz) سے نکالا گیا، 1424ء میں جرمنی کے شہر کولون (Cologne) سے، 1439ء میں جرمنی کے ہی شہر آگس برگ (Augsburg)سے، 1442میں باویریا (Bavaria)سے اور 1454ء میں انہیں چیکو سلاویکیا کے شہر موراویا (Moravia)سے جلا وطن کیا گیا۔ یہ اپنے زمانے کے بڑے بڑے شہر تھے۔ لیکن نسبتاً کم آبادی والے شہروں سے بھی انہیں دھکے دے کر نکالا گیا، جیسے 1485ء میں اٹلی کے شہر پیروگیا (Perugia)، 1486ء میں سپین کے شہر ویلنشیا (Valencia)، 1488ء میں اٹلی کے شہر پارما (Parma)، 1489ء میں میلان (Milan) اور لوکا (Lucca) سے اور سپین سے مکمل جلا وطنی کے بعد 1494میں اٹلی کے ٹسکنی (Tuscany) کے پورے ریجن سے بھی انہیں نکال دیا گیا۔ یہ خلافتِ عثمانیہ کے مشرقی یورپی حصے میں جا کر آباد ہوتے چلے گئے اور آہستہ آہستہ انہوں نے پولینڈ میں اپنا مضبوط گڑھ قائم کر لیا۔
یہی وہ مرکز تھا جہاں ستمبر 1939ء میں ہٹلر کے نازیوں نے ان کا قتل عام شروع کیا، جو اپریل 1945ء تک جاری رہا۔ اس قتل عام میں تقریباً تین لاکھ یہودی قتل کیئے گئے۔ ان کو قتل کرنے کیلئے بڑی بڑی "گیس وین" بنائی گئیں تھیں جن میں انہیں بند کر کے اس کے اندر سائلنسر سے نکلنے والی گیس کوچھوڑدیا جاتا، جس سے یہ دم گھٹ جانے سے مر جاتے۔ جو بچ جاتے انہیں مشہور زمانہ کنسنٹریشن(Concentration) کیمپوں میں رکھا جاتا جہاں یہ لوگ بھوکاور بیماریوں سے مر جاتے۔ لیکن اسی دور میں یہودیوں کے بارے میں قرآن پاک کی وہ پیش گوئی سچ ثابت ہو چکی تھی کہ" انہیں لوگوں کی طرف سے سہارا مل جائے گا"، اور یہ سہارا یورپ اور امریکہ کے عیسائی تھے۔ قرآن میں اس سہارے کی بھی اللہ نے وضاحت فرما ئی ہے اور مسلمانوں کو بھی بروقت خبردار کردیا۔ اللہ نے فرمایا "اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو اپنا دوست (حمایتی اور پشت پناہ) نہ بناؤ"، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا وہ ان ہی میں سے ہوگا" (المائدہ: 51)۔ یہود و نصاریٰ کے درمیان دو ہزار سالہ دشمنی کے بعد دوستی کی یہ پیش گوئی، 2نومبر 1917ء کو اس وقت پوری ہوئی جب پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور (Arther James Balfour)نے ایک ڈیکلریشن پر دستخط کیئے جس میں فلسطین کو دنیا میں آباد یہودی قوم کا گھر "National Home"تسلیم کرتے ہوئے اس کے قیام میں مدد دینے اور دنیا بھر سے تمام یہودیوں کو بحیثیت قوم وہاں جمع کرنے اور رہائش رکھنے کے حق کو تسلیم کیاگیا۔
یوں 1920ء میں یہودیوں کا اسرائیل کی جانب سفر شروع ہوا اور قرآن پاک کی یہودیوں کے بارے میں ایک اور پیش گوئی بھی سچ ثابت ہوگئی۔ اللہ نے فرمایا "اور جب آخری وعدے کا وقت آجائے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے" (بنی اسرائیل: 104)۔ قرآن پاک کی ان ناقابل تردید سچائیوں کی موجودگی میں اگر کوئی شخص اب بھی فلسطین کو وہاں پر آباد عرب قوم کا مسٔلہ سمجھتا ہے اور اسرائیل کو بزعم خود ایک بہت بڑی طاقت گردانتا ہے تو یقینا اسے اسلام کا ادراک ہے اور نہ ہی حالات حاضرہ پر اس کی دسترس ہے۔ یہودیوں کو قرآن کی پیش گوئی کے مطابق اس وقت جو سہارامیسر ہے وہ امریکہ ہے، جو اس کا پشتی بان ہے۔ امریکی سرپرستی کا عالم یہ ہے کہ خود امریکہ یہودیوں کی ایک کالونی بن چکا ہے۔ امریکہ کی یہودیوں سے محبت کا آغاز 21ستمبر1922ء کو اس وقت ہوا جب امریکی کانگریس نے ایک مشترکہ قرارداد میں فلسطین کو یہودی قوم کا قومی گھر قرار دے کر اس کی مدد کا اعلان کیا۔ (جاری)