دنیا بھرمیں یہودی ابھی تک معتوب ہی سمجھے جاتے تھے، مگر وہ آسٹریا کے مشہور صحافی، ڈرامہ نگاراور سرگرم سیاسی رہنماتھیوڈر ہزال کی (Theodor Herzal) کی سربراہی میں خفیہ طور پر منظم ہو چکے تھے۔ ہزال نے 1897ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بیسل (Basel)میں صیہونیت کی عالمی کانگریس بلائی تھی۔ اس وقت اس کا نام اور مقام تک خفیہ رکھا گیا تھا۔ یہودیوں نے اسی کانگریس میں پوری دنیا کے معاشی اور سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے "پروٹوکولز" تحریر کئے تھے۔ یہ پروٹوکولز صیہونیت کی اگلے سو سال کے لیے حکمت عملی تھی، جسے انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا۔ ہزال وہی شخصیت ہے جسے اسرائیلی ریاست کا باپ کہا جاتا ہے اور اس کا نام اسرائیل کے اعلانِ آزادی میں اس یہودی ریاست کے روحانی پیشوا کے طور پر آج بھی درج ہے۔ یورپ کے تمام یہودی متحد ہو چکے تھے، مگر ابھی تک اپنی تمام کارروائیاں خفیہ رکھے ہوئے تھے اور یورپی حکومتوں، خصوصاً برطانیہ کے ساتھ سفارتی سطح پر اپنے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ "آرتھر بالفور"کا مشہور ڈیکلریشن بھی ابھی تک نہیں آیا تھا مگراس سارے منظرنامے کے برعکس، بحر اوقیانوس کی وسعتوں کے پار 1912ء میں امریکہ میں امریکی صیہونیوں نے اپنی تنظیم "فیڈریشن آف امریکن زایونسٹس" (Federation of American Zionists)کا واضح، کھلم کھلا اعلان کر دیا تھا۔ اس وقت وڈرو ولسن (Woodrow Wilson) امریکی صدر تھا، جو یورپ سے یہودیوں کی امریکہ منتقلی کابہت بڑا حامی تھا۔
اس نے بالفور ڈیکلریشن پر دستخطوں کے دو سال بعد 2 مارچ1919ء کو ایک بیان میں بتایا کہ "میں نے اس ڈیکلریشن کے جاری ہونے سے پہلے ہی اس کے مندرجات پڑھے تھے اور برطانیہ کو خفیہ طور پر امریکی حکومت کی جانب سے مکمل حمایت کا یقین بھی دلایا تھاتاکہ تمام یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کے لیے عالمی برادری پوری طرح مدد کرے "۔ اس بیان کے ایک ماہ بعد 16اپریل 1919ء کو امریکی حکومت نے سرکاری سطح پر "بالفور ڈیکلریشن" کی سرپرستی کا اعلان کر دیا۔ جنگ عظیم اوّل ختم ہوئی، ابھی خلافتِ عثمانیہ موجود ہی تھی کہ مزید عالمی جنگوں کو روکنے کے لیے بنائے جانے والی عالمی تنظیم "لیگ آف نیشنز"(League of Nations) نے 22ستمبر 1922ء کو ایک قرارداد منظور کی جس میں کہاگیا کہ فلسطین میں یہودیوں کا ایک وطن قائم کیا جائے اور پھر اسی دن لیگ آف نیشنز نے برطانیہ کو فلسطین کی سرزمین میں تولیتّ (Mandate) سونپ دی۔ آج اسرائیل کی اس امریکی سرپرستی کو ایک سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس سرپرستی، محبت اور اسرائیلی بالادستی کی مدد میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
جان ایف کینڈی اور لندن بی جانسن کا زمانہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں فوجی طور پر طاقتور ملک کے طور پر مسلح کرنے کا زمانہ تھا۔ اسی دور میں 1962ء میں امریکہ کا طاقتور ترین اسلحے کا جامع نظام مکمل طور پر اسرائیل کو دے دیا گیا۔ صدر کینڈی اور اسرائیلی وزیراعظم گولڈ امیئر نے مل کر امریکی انتظامیہ کو امریکہ اسرائیل خصوصی تعلق" کا سفارتی اور سیاسی تصور دیا۔ اس کے مطابق اب اسرائیل کی سیکورٹی امریکہ کی سب سے اہم ذمہ داری بنا دی گئی۔ اسرائیل کے بانی وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے 21دسمبر 1960ء کو کنیسٹ (knesset)سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ایٹمی پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں، جو صحرا میں زراعت کی ترقی میں مدد دے گا۔ لیکن امریکی انتظامیہ کو معلوم تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے اور اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کو امریکہ کی مکمل خفیہ حمایت حاصل رہی۔ اسرائیل نے ایٹم بم بنائے اور وہ آج ایک غیر اعلان شدہ ایٹمی قوت ہے۔ ابھی تک امریکی پالیسیوں میں ایک تضاد تھا، وہ یہ کہ امریکہ بیک وقت اسرائیل اور عرب دنیا سے تعلقات رکھنا چاہتا تھا۔ جبکہ اسرائیل تو 1967ء کی جنگ کی مکمل تیاری کر چکا تھا۔
امریکی سمجھتے تھے کہ ایسی جنگ کہیں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان عالمی جنگ میں نہ بدل جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیل نے سوویت یونین نواز مصر کی ائیر فورس پر حملے شروع کئے، تو امریکی وزیر خارجہ ڈین رسک (Dean Rusk)نے ان حملوں کی مخالفت میں بیان دے دیا۔ اس کا فوری ردعمل اسرائیل نے یہ دیا کہ مصر کے سمندروں میں جو امریکی جاسوسی بحری جہاز "یو ایس ایس لبرٹی" موجود تھا، اس پر اسرائیلی طیاروں نے حملہ کر دیا، جس میں 34امریکی سپاہی مارے گئے اور 171زخمی ہوئے۔ اسرائیل نے کہا کہ ہم اسے مصری جہاز سمجھتے تھے اور یہ غلطی سے دوستانہ حملہ (Friendly Fire) ہوا ہے۔ امریکہ اس قدر یہودیوں کے کنٹرول میں تھا کہ اسرائیل کی اس وضاحت کو امریکہ میں تسلیم کر لیا گیا۔ امریکہ میں ایسا کچھ کرنے کی صلاحیت صرف صیہونی یہودیوں کو حاصل ہے، جو 1920ء سے لے کر اب تک سو سالوں میں امریکہ کے تقریباً ہر شعبہ زندگی کی باگ ڈور سنبھال چکی ہے۔
امریکہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں بظاہر کوئی جنگ نہیں لڑ رہا ہے۔ اس کی قوت کے اظہار کیلئے نیٹو کی وجہ سے ترکی میں اس کا بہت بڑا اڈہ موجود ہے۔ مگر اس کے باوجود امریکہ نے اسرائیل میں اپنے سات ائیر بیس قائم کئے ہیں۔ ان کے علاوہ اسرائیل میں امریکہ کے چھ ایسے اڈے ہیں جو اسلحے کے بڑے ذخیرے ہیں۔ ہر سائٹ میں اسلحہ، گاڑیوں، ٹینکوں، میزائلوں اور دیگر فوجی سامان کے علیحدہ علیحدہ گودام ہیں، ان گوداموں میں ہر نیا بننے والا اسلحہ اور فوجی سامان فوراً پہنچادیاجاتا ہے۔ امریکہ کے دو بحری بیڑے پانچواں اور چھٹا جن پر کئی سو لڑاکا طیارے موجود ہیں، اسرائیل کے تحفظ کے لیے سمندر میں موجود رہتے ہیں، ڈائیا مونا پر امریکہ نے اپنا طاقتور ریڈار نصب کر رکھا ہے، تاکہ اسرائیل دشمن کے حملوں سے خبردار رہے، امریکی سی آئی اے اور امریکی انٹیلی جنس کے تمام وسیع تر نیٹ ورک کا اسرائیل ایک اہم حصہ ہے۔ اس قدر آپس کے تعلقات کے باوجود 1985ء میں ایک امریکی شخص جونونیتھن پولاراڈ (Jonathan Pollard) کو امریکہ نے اسرائیل کے لیے جاسوسی کے جرم میں گرفتار کیا، اس نے جرم تسلیم کیا، اسے سزا ہوئی، مگر اسرائیل نے فوراً اس امریکی شہری کو اسرائیل کی شہریت دے دی اور آج تک وہ اپنے اس نئے بننے والے شہری کی رہائی کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈال رہا ہے۔
اسرائیل کے قیام کے پہلے سال ہی امریکہ نے اسے 135ملین ڈالر مدد فراہم کی، جو بڑھتی بڑھتی آج تین ارب ڈالر سالانہ بن چکی ہے۔ یہ قرض نہیں ہوتا بلکہ مکمل طور پر ناقابل واپسی مدد ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ فوجی مدد کے ضمن میں 2018ء کے بجٹ میں 3.1ارب ڈالر دیئے گئے، یہ بھی ایک مسلسل گرانٹ ہے۔ جبکہ اسی سال 705.8 ملین ڈالر میزائل پروگرام اور 47.5ملین ڈالر "غزہ" کی سرنگیں ختم کرنے کے لیے خصوصی طور پر دیئے گئے۔ ڈرون پروگرام کے لیئے 19ملین ڈالر مسلسل دیئے جاتے ہیں۔ فروری 2021میں امریکہ کے جدید طیارے، F.35 خریدنے کے لیے 2.74ارب ڈالر کی اسرائیل نے ادائیگی کرنا تھی، مگر مئی 2021کو بغیر فوری ادائیگی کیے یہ طیارے اسرائیل کوفراہم کردیئے گئے اور اس کے ساتھ ہی 735ملین ڈالر میزائل مہارت (Precision) لینزبنانے والی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے دیئے گئے۔ یہ سب اعداد و شمار سرکاری سطح پر دی جانے والی مدد کے ہیں۔ اس سب کے علاوہ امریکہ کاتقریباً ہر یہودی، جن میں بڑے کاروباری اور لاتعداد بینکارشامل ہیں، وہ مسلسل اسرائیل کی حکومت کی مدد کرتے رہتے ہیں۔
یہ سرمایہ دار پوری دنیا میں کارپوریٹ بزنس سے کماتے ہیں اور اسرائیل کی حکومت کو سرمایہ بھیجتے ہیں۔ اس سب سرمائے سے اسرائیل میں اسلحہ خریدا جاتا ہے اور فلسطین میں مسلمانوں کے گھر مسمار اور ان کے معصوم شہید کیے جاتے ہیں، لیکن کوئی ملک امریکہ کا نام تک نہیں لیتا۔ افغانستان میں طالبان کو اللہ نے اس لیے فتح سے ہمکنار کیا تھا، کیونکہ انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم نے اصل غاصب اور قاتل امریکہ سے لڑنا ہے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔ جس دن مسلم اُمہ نے طے کر لیا کہ ہم نے اصل قاتل، اصل مجرم اور فساد کی اصل جڑ امریکہ سے لڑنا ہے، اسی دن اسرائیل کا زوال شروع ہو جائے گا۔ (ختم شد)