Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Diyar e Maghrib Mein Rehne Walo (2)

Diyar e Maghrib Mein Rehne Walo (2)

یورپ کے پاس مسلمانوں سے نفرت کرنے کا ایک ہی تاریخی بہانہ ہے اوروہ 1095ء سے لے کر 1291ء تک کی دو سو سالہ صلیبی جنگوں کی تاریخ ہے، جن میں ایک اندازے کے مطابق دونوں اطراف سے بیس لاکھ افراد جان سے گئے تھے۔ انہی جنگوں کے خاتمے کے بعد فرانس اور انگلستان نے 1337ء سے لے کر 1453ء تک آپس میں 116سال تک جنگ لڑی اور اس کے مقتولین کی تعداد صلیبی جنگوں سے بھی دُگنی بتائی جاتی ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے معرکے بھی آپ کو اسی یورپ کی سرزمین پر ملیں گے، جن میں ایک اندازے کے مطابق 15کروڑ انسان لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ اتحادی ممالک جیسے برطانیہ اور فرانس آج بھی اسی جگہ نقشے پر موجود ہیں اور ہٹلر اور میسولینی کے جرمنی اور اٹلی بھی کہیں نہیں گئے۔ لیکن آپس میں ایک دوسرے کا اتنا خون بہانے والے ان سفید فام سیکولر لبرل اقوامِ یورپ میں آپ کو اب بظاہر کسی بھی قسم کی کوئی نفرت نظر نہیں آئے گی۔ یورپی یونین کے ایک پرچم، ایک کرنسی اور ایک ویزے نے تو ان کو بظاہر ایک ہی قوم بنا دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یورپ نے صلیبی جنگوں کے علاوہ آپس میں ہونے والی تمام جنگوں کو ذہنوں سے کھرچ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں مسلمانوں سے نفرت کی آگ دن بدن تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کا یہ پودا مذہبی تعصب کے بیج سے پروان چڑھایا گیاتھا۔

صلیبی جنگیں تو 637ء میں حضرت عمرؓ کے یروشلم فتح کرنے کے ٹھیک 458سال کے وقفے کے بعد شروع ہوئیں، لیکن ان 458 سالوں میں جب یورپ اپنے بدترین تاریک دور (Dark Ages)سے گذر رہا تھا، جہاں پسماندگی، غربت، افلاس اور شہری سہولیات کی عدم دستیابی کا یہ عالم تھا کہ مشہور تاریخ دان ول ڈیورانٹ لکھتا ہے کہ صلیبی جنگوں کے بعد ہمیں علم ہوا کہ سڑکیں اور گلیاں پختہ بھی ہوتی ہیں، راتوں کو گلیوں میں چراغ بھی جلتے ہیں، سیوریج کا نظام بھی ہوتا ہے اور گھروں میں پائپوں میں دوڑتا گرم پانی بھی ممکن ہے، اس قدر کسمپرسی اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے یورپ کا عیسائی مؤرخ، دانشوراور ادیب چار سو سال تک مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھرپور مواد مرتب کرتارہا۔ قرآن پاک کے تحریف شدہ نسخے تیار ہوتے رہے اور تحریروں میں رسول اکرم ﷺ کی ذاتِ کریم اور صحابہ کرام پر کیچڑ اچھالا جاتا رہا۔ یہ تمام نفرت انگیز مواد دراصل عیسائیوں کے اس عقیدے کی وجہ سے لکھا گیا، جس کے مطابق رسول اکرم ﷺ کی ذات دراصل نعوذ بااللہ بائبل کے ابواب Epistle of Johnمیں دیئے گئے Anti Christ یعنی "دجال" کی ہی ہے۔

ایک ہزار سال سے مرتب کیا گیا یہ تمام غلیظ مواد آج مغرب کی یونیورسٹیوں میں مسلمانوں اور اسلام پر کی جانے والی تحقیقوں کا بنیادی مآخذ (Primary Source)سمجھا جاتا ہے۔ اس سارے مواد کو نویں صدی عیسوی میں پوپ اور بازنطینی رومن بادشاہ کے کہنے پر اکٹھا کیا گیا، جس سے مسلمانوں سے نفرت کی ایک مسلسل چنگاری ہر یورپی مسیحی کے دل میں سلگائی گئی۔ یورپ کا رہنے والا مسلمانوں سے مکمل طور پر ناآشنا تھا، لیکن اس کے سامنے مسلمانوں کی ایک وہشت ناک تصویر پیش کر کے اسکا لہواس بات پرگرمایا جاتا رہا کہ، دیکھو تمام مقاماتِ مقدسہ جنہیں سیدنا عیسیٰ ؑ سیدہ مریم اور لاتعداد پیغمبروں کے قدم چومنے کا شرف حاصل ہے، وہ تمہارے دشمن مسلمانوں کے قبضے میں ہیں۔ اسی نفرت نے صلیبی جنگوں کو جنم دیا اور اسی کی کوکھ سے موجودہ "اسلامو فوبیا"برآمد ہوا ہے۔ نفرت انگیز کام ان ناول نگاروں، افسانہ نگاروں، کہانی نویسوں اور ادیبوں شاعروں نے کیا، جنہوں نے مسلمانوں اور خصوصاً عربوں کے ایسے کردار اپنی کہانیوں میں تخلیق کیئے جو جاہل، غیر مہذب اور تضحیک کی علامت تھے۔ ایسے کردار آج کے ناول، افسانے، کہانیوں اور مضامین میں بھی مسلسل تخلیق ہو رہے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی نیویارک کے پیٹر مورے (Peter Morey)نے 2018ء میں ایک 328صفحات پر مشتمل تحقیقی کتاب لکھی جس کا عنوان تھا"ناولوں میں اسلام دشمنی" (Islamophobia and the Novel)۔ اس میں اس نے گذشتہ صرف دو دہائیوں کے ناولوں کا جائزہ لیا۔ اس نے یورپ اور ایشیا، دونوں جگہ لکھے جانے والے انگریزی ناولوں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ اس کے مطابق امریکی اور یورپی مصنفین ہوں یا انگریزی ادب سے متاثر کاملہ شمسی اور ندیم اسلم جیسے "مسلمان انگریز"، ان سب نے مسلمانوں کا جو خاکہ اپنے ناولوں مین پیش کیا ہے وہ بہت ڈراؤنا ہے۔ اسے حیرانی اس وقت ہوئی جب اس نے مسلمانوں کے بارے میں ان ناول نگاروں کی معلومات کا جائزہ لیا تو وہ بالکل سطحی قسم کی تھیں۔ زیادہ تر معلومات ان تک، اس سیڑھی کے راستے پہنچیں تھیں جو سوشل میڈیا سے شروع ہو کر مین سٹریم میڈیا تک آئی ہے اورپھر ان معلومات کی بنیاد پر لکھے گئے مضامین تھے۔

ناول کے علاوہ یورپ اور امریکہ کا سنجیدہ پریس بھی کم از کم ایک صدی سے مسلمانوں کی بحیثیت قوم کردار کشی کرتا چلا آرہا ہے۔ امریکہ کی دو اخباروں "گارڈین" اور "نیویارک ٹائمز" کی 1970ء سے لے کر اب تک کی "میڈیا کوریج"کامطالعہ فیس وال کیسرے (Faiswal kasirye)نے کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ دونوں بڑے اخبار، اپنی رپورٹوں میں مسلمان عورت کو بدترین روپ میں پیش کرتے ہیں۔ گارڈین اور نیویارک ٹائمزمیں چھپنے والی کہانیوں اور مضامین میں مسلمان خواتین کے جو خواص نظر آتے ہیں وہ1۔ مظلوم (Oppressed)، 2۔ دہشت گرد (Terrorist)، 3۔ شدت پسند (Extremist)، 4۔ جاہل (Uneducated)، 5۔ گھر میں رہنے والی(Housewife) اور6۔ مردوں کے لیئے جنسی شئے (Sexual Object)ہیں۔ اپنی تحقیق کے دوران اس نے لاتعداد دیگر تحقیقوں کا بھی حوالہ دیاہے جن میں اہم ترین تحقیقی ادارے PEWکی 2017ء کی رپورٹ کا ذکر کیا گیاہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یورپ میں مذاہب میں سے صرف اسلام ہی سے نفرت کی جاتی ہے۔

مسلمانوں کا تمسخر اڑانا اور خاص طور پر ان کے خلاف ایسی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا جس سے ان کا منفی تصور ابھر کر سامنے آئے، مغرب کے پریس کا خاصہ ہے۔ مسلمانوں کے حوالے سے شائع شدہ مواد اور خبروں سے ایسے لگتا ہے جیسے اس دنیاپر بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمان دہشت گرد ہیں اور ان کی عورتیں دراصل ان کی جنسی غلام۔ دنیاکے کسی خطے میں اتنے تسلسل کے ساتھ، اسقدر انہماک اور جانفشانی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف نفرت نہیں پھیلائی گئی جتنی یورپ میں پھیلائی گئی۔ اسی یورپ سے لوگ 1492ء میں اس نفرت کو دل میں بسائے امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جاکر آباد ہوتے رہے ہیں اور یہ مسلمان دشمنی ان کی نسلی میراث ہے۔

یہ نفرت کبھی ختم نہیں ہوگی، بلکہ دن بدن مزید بڑھے گی اور سید الانبیاء ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق آخری بڑی جنگ میں پورا یورپ اکٹھے ہوکر مسلمانوں سے لڑنے آئے گا، فرمایا " چنانچہ وہ جنگ عظیم کے لیئے اکٹھے ہوں گے اور اسّی جھنڈوں کے تحت آئیں گے اور ہر جھنڈے کے تحت بارہ ہزار سپاہی ہوں گے" (مستدرک الحاکم، صحیح ابنِ حبان)۔ یہ تو وہ ہیں جو مسلمانوں سے لڑنے کیلئے گھروں سے نکلیں گے لیکن پیچھے جو مسلمان اس وقت مغرب میں رہتے ہوں گے، ان کا جو حشر بتایا گیا ہے وہ دردناک ہے۔ فرمایا "رومی شہروں میں باقی ماندہ عربوں پر حملہ کردیں گے، انہیں قتل کردیں گے، یہاں تک کہ روم کی زمین پر نہ کوئی عربی مرد، نہ کوئی عربی عورت اور نہ کوئی عربی بچہ باقی رہے گا۔ سب قتل کر دیئے جائیں گے" (کتاب الفتن نعیم بن حماد: 1252)۔ صدیوں سے دلوں میں سلگائی ہوئی نفرت، مسلسل منفی پراپیگنڈہ اور تیز ہوتی جنگ کے تناظر میں غور کرو اگر مسلمانوں اور یورپ میں آخری بڑی جنگ کا آغاز ہو گیا تو پھر کینیڈا والے ٹرک کی طرح، ٹرک صرف چند مسلمانوں کو ہلاک نہیں کریں گے، بلکہ رسول اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق جو وہاں ہوگا، روند دیا جائے گا۔ (ختم شد)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.