میرے لئے یہ کس قدر خوش بختی کی بات ہے کہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جو اپنی سوانح عمری تخلیق کر کے پبلشر کو دی تو اس کے ساتھ ان افراد کی ایک فہرست بھی دی جن تک یہ کتاب فوراً پہنچانا تھی، ان خوش نصیبوں میں میرا نام بھی شامل تھا۔ کتاب ان کے دُنیا سے رُخصت ہونے کے بعد شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے پبلشر برادرم عبدالستار عاصم نے کتاب کے ساتھ مراسلے میں تحریر کیا، "گرامی قدر، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خواہش تھی کہ جب یہ کتاب چھپ جائے اس کا ایک نسخہ آپ کو ارسال کیا جائے"۔ کتاب صرف 146 صفحات پر مشتمل ہے جس کے آخر میں 56 اضافی صفحات پر ان کی زندگی سے متعلق تصاویر اور دستاویزات ہیں۔
ان میں چند اہم خطوط بھی شامل ہیں جن میں سب سے طویل خط سابق صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کا ہے۔ یہ خط انتہائی شستہ اور خوبصورت انگریزی میں تحریر کیا گیا اور ہر فقرے سے یوں لگتا ہے جیسے کوئی مقروض شخص اپنے محسن کیلئے بچھے چلا جا رہا ہو۔ اس انگریزی خط کے آخر میں غلام اسحاق خان نے اپنے ہاتھ سے ایک فارسی مقولہ تحریر کیا ہے "مشک آں کہ خود بگوید نہ کہ عطار بگوید"۔ خوشبو خود بتاتی ہے کہ وہ کیسی ہے، خوشبو بیچنے والا عطّار نہیں بتاتا۔ یہ مقولہ ڈاکٹر قدیر خان صاحب کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔
یہ کتاب ایک تاریخ ہے جو دراصل دسمبر 1975ء سے شروع ہوتی ہے، جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی بیگم اور دونوں بیٹیوں کے ہمراہ پاکستان آئے۔ انہیں اس بات کی فکر کھائے جا رہی تھی کہ 18 مئی 1974ء کو بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر لیا ہے اور یوں پاکستان کی حیثیت کمزور ہو گئی ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ایک خستہ حال ریسٹ ہائوس میں انہیں ٹھہرایا گیا۔ اس ریسٹ ہائوس میں رات بھر ان کا اپنی بیوی کے ساتھ مکالمہ چلتا رہا جو یہ کہہ رہی تھی کہ تمہارے پاس اتنی اچھی نوکری ہے، بچیوں کی تعلیم اور ان کا مستقبل سامنے ہے، لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا، یہ میرے ملک کی سلامتی کا مسئلہ ہے اور یہ کام میرے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ دونوں نے پاکستان رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ بیوی ایمسٹرڈیم چلی گئی اور ضروری سامان لے کر واپس آ گئی۔
ڈاکٹر صاحب کو تین ہزار روپے ماہانہ پر اٹامک انرجی کمیشن میں مشیر لگا دیا گیا، جس کا سربراہ منیر احمد خان ہر میٹنگ میں کہتا تھا کہ ہمیں بم نہیں بنانا چاہئے، بھٹو کو تو جنون چڑھا ہوا ہے۔ جس پر تنگ آ کر انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا کہ وہ ایسے حالات میں کام نہیں کر سکتے اور واپس جا رہے ہیں۔ بھٹو لاہورمیں تھا، اس نے فوراً ڈاکٹر صاحب کو وہاں بلایا، تفصیل پوچھی اور پھر دو دن بعد دفتر خارجہ میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی، جس میں آغا شاہی، غلام اسحاق خان، اے جی این قاضی اور جنرل امتیاز موجود تھے۔ فیصلہ ہوا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیلئے ایٹمی پروگرام کو بالکل علیحدہ کر کے انہیں اس کا سربراہ بنا دیا جائے۔ اسکے ساتھ ایک بورڈ بھی تشکیل دیا گیا جو سیکرٹری خزانہ اے جی این قاضی، سیکرٹری خارجہ آغا شاہی اور سیکرٹری دفاع غلام اسحاق خان پر مشتمل تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے پروگرام کے آغاز کے دو دلچسپ واقعات لکھے ہیں۔ پہلا واقعہ یہ ہے کہ "ڈاکٹر صاحب نے گھوم پھر کر دیکھا کہ کہاں پر ایٹمی پروگرام کیلئے لیبارٹری اور دفاتر بنائے جا سکتے ہیں اور انہوں نے کہوٹہ کو منتخب کیا۔ بھٹو کی سربراہی میں میٹنگ کے دوران جب یہ تجویز رکھی گئی تو غلام اسحاق خان نے کہا کہ ایک کمیٹی بنا دیں جو اس جگہ کا معائنہ کرے اور رپورٹ کرے۔ بھٹو نے کہا کہ ان کمیٹیوں نے ہی تو ملک کو تباہ کیا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس کام کو نہیں جانتا، اس لئے جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا مجھے فوج کی انجینئرنگ کور کی ایک ٹیم چاہئے جو اس پلانٹ کی تعمیر کرے۔ بھٹو نے فوراً ضیاء الحق کو بتایا جو آرمی چیف تھے۔ میٹنگ ختم ہوتے ہی وہ باہر کھڑے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ کس رینک کا آفیسر چاہئے، ڈاکٹر صاحب نے کہا بریگیڈیئر، تو اگلے دن زاہد علی اکبر کو وہاں رپورٹ کرنے کیلئے بھیج دیا گیا"۔ دوسرا واقعہ یہ تھا کہ "ڈاکٹر صاحب نے زاہد علی اکبر کے ساتھ مل کر اختیارات کی ایک فہرست بنائی جو انہوں نے بورڈ ممبران کو پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اختیارات تو کسی سیکرٹری یا وزیر کے پاس بھی نہیں، یہ تو صرف وزیر اعظم کے اختیارات ہیں۔ بھٹو اس قدر اس پروگرام کیلئے جذباتی تھے کہ انہوں نے فوراً اپنے تمام اختیارات ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو دے دیئے۔
یہی جذباتی وابستگی تھی کہ اس پراجیکٹ کے آغاز کے صرف آٹھ سال کے اندر پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا تھا۔ ان آٹھ سالوں میں پلاننگ اور لیبارٹری کی عمارت کی تعمیر بھی شامل تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے 10 دسمبر 1984ء کو جنرل ضیاء الحق کو دفتر میں جا کر بتایا کہ ہم نے ایٹم بم بنا لیا ہے، تو وہ خوشی سے جھوم اُٹھا اور ڈاکٹر صاحب کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق پاکستان کے اس ایٹمی پروگرام پر سب سے بڑا احسان غلام اسحاق خان کا ہے جو سولہ سال براہِ راست اس کی نگرانی کرتے رہے۔
کتاب یوں تو ایک تاریخ ہے جو صرف ڈاکٹر صاحب کی زندگی سے متعلق نہیں بلکہ اس مملکتِ خداداد پاکستان کے بے شمار تاریخی حقائق سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ لیکن اس کتاب کا ایک باب آنسو رُلاتا ہے جس کا عنوان ہے "ایک اور قربانی"۔ یہ باب، امریکی غلامی میں لتھڑے ہوئے پرویز مشرف کے چہرے سے نقاب اُلٹتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں "جب پرویز مشرف اپنی حکومت کی حمایت کیلئے امریکی صدر بش سے ملنے امریکہ گیا اور واپسی پر اپنی حکومت کے دوام اور مجھے بدنام کرنے کا امریکہ سے پروانہ لے کر آیا تو اس نے فوراً امریکی ایجنڈے پر کام شروع کر دیا اور مجھ پر مختلف طریقوں سے دبائو ڈالنا شروع کر دیا"۔
اس بات کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے اپنے دوستوں اور سیاستدانوں سے بھی کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایس ایم ظفر سے مشورہ کیا، ایس ایم ظفر نے ان کا مقدمہ ہالینڈ میں لڑا تھا اور ڈاکٹر صاحب پر الزامات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی تھیں۔ ایس ایم ظفر نے صاف صاف کہا کہ وہ ہرگز اقبالِ جرم نہ کریں۔ ڈاکٹر صاحب نے تمام حقائق لکھ کر ایس ایم ظفر صاحب کو دیئے جو ان کے پاس امانتاً محفوظ ہیں۔ 3 فروری 2009ء کو چوہدری شجاعت اور ایس ایم ظفر ان سے ملنے آئے اور انہوں نے ملک و ملت کیلئے انہیں قربانی دینے کیلئے کہا۔
ڈاکٹر صاحب پرویز مشرف سے ملے، چند منٹ کی گفتگو میں اس نے کہا آپ قوم کے ہیرو ہیں، آپ ہمارا ساتھ دیں، ورنہ ہم پر ہر قسم کی پابندیاں لگا دی جائیں گی۔ میں چند دن بعد آپ کو باعزت بحال کر دوں گا۔ ساتھ والے کمرے میں اٹارنی جنرل مخدوم علی خان کا تیار کردہ بیان ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں تھمایا گیا جو انہوں نے ٹیلی ویژن پر جا کر پڑھ دیا۔ اس انکشاف کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ایک امریکی صحافی ایڈرین لیوی (Adrian Levy) کی ای میل کا تذکرہ کیا ہے جس نے امریکی پینٹاگون اور سی آئی اے افسران کے اس معاہدے کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کے تحت پرویز مشرف نے امریکیوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بدنام کرے گا، انہیں خود غرض، منافع خور اور لالچی ثابت کرے گا۔ پھر اس کے بعد وہی کچھ ہوا اور اس ملک کے نام نہاد احسان فراموش دانشور اور سیاستدان بھی مشرف کی حمایت میں بولے۔
ڈاکٹر صاحب نے اس عظیم بلوچ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کا بھی تذکرہ کیا ہے جنہوں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کی قربانی دے دی لیکن ڈاکٹر صاحب کو امریکہ کے حوالے نہیں ہونے دیا۔ یہ کتاب نہیں "عبرت سرائے دہر ہے"? اس ناشکری قوم کا نوحہ ہے، اس عظیم انسان کی قربانیوں کا مینارِ عظمت ہے۔ کتاب جس کا نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے "داستانِ عزم" رکھا ہے وہ عزیمت، لگن، وطن سے محبت اور اخلاص کی کہانی ہے۔ سچ کہا تھا ایک راہ چلتے شخص نے کہ ہر شخص کا کام کوئی دوسرا شخص کر سکتا ہے، لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر کا کام صرف وہی کر سکتے تھے۔