اگر کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعدہمارے نظام عدل نے عزت و ناموس کا معرکہ جیت لیا ہے تو وہ بائیس کروڑ عوام میں سے مشتِ از خروارے چند لوگوں سے ہی اس ملک کے نظامِ انصاف کے بارے میں سوال کرے تو اسے یقین ہو جائے گا کہ اگر سپریم کورٹ کے معزز جج روزانہ اپنے کسی ساتھی کی عزت و عصمت کے تحفظ کے لیئے ایسے فیصلے کریں۔۔ لوگوں کے دلوں میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو نہیں بچا سکتے۔ ایسے فیصلے ایک عام آدمی کو مزید سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں، اور جب ایک عام آدمی سوچنے لگتا ہے تو اسے بہت گہرے زخم یاد آتے ہیں۔ ایسے زخم جن سے بے انصافی کی ٹیسیں گذشتہ ستر سال سے اٹھ رہی ہیں۔
کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک عام سی سوچ رکھنے والا شخص جب یہ موازنہ کرتا ہے کہ پاکستان کی معززترین اور قدیم یونیورسٹی کا پروفیسر جس نے گلاسگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہو، گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے اور پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹل کالج سے عربی میں ایم اے ہو، جو قدیم پنجاب یونیورسٹی میں اورینٹل کالج کا پرنسپل، ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ رہا ہو، جس کی عالمی سطح پر شائع ہونے والی تحقیقات کا دائرہ اس قدر وسیع ہو کہ انہیں احاطۂ تحریر میں لانے کے لیئے کئی کالم درکار ہوں، جو قرآن پاک کی تفہیم، سیرت کے بیان اور مسلم اُمّہ کے مسائل پر خوبصورت گفتگو کرتا ہو، ایسے شخص کو بحیثیت وائس چانسلر جب پاکستان کا نظامِ انصاف کسی مالی بددیانتی نہیں بلکہ اختیارات کے غلط استعمال (Misuse of Authority) کے الزام میں ہتھکڑی لگا کر اسی اعلیٰ عدلیہ کے زیر سایہ چلنے والی عدالتوں میں گھماتا رہے، اور صاحبانِ عدل کے کان پر جوں تک نہ رینگے اور مسلسل ان کے ایوانوں میں ویسے ہی چوب دار آکر زور سے ڈنڈا بجائیں، دروازے کھلیں، شاندار اینگلو سیکسن گاؤن میں ملبوس، روشن چہروں والے جج عدالتیں لگاتے رہیں، وکیل بحث کرتے رہیں اور ماتحت عدالتوں میں صاحبانِ علم کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں شور کرتی رہیں اور ان کے مقابل ایک بہت بڑا "عزت دار" گروہ بغیر ہتھکڑی عدالت میں داخل ہو، پھولوں کی پتیاں اس پر نچھاور ہوتی رہیں اور نظامِ انصاف و عدل اسے "ریلیف" دیتا رہے، تو ایسی حالت میں لوگوں کے دلوں میں عزت نہیں کمائی جا سکتی۔
گزشتہ دو سال اس ملک کے نظامِ عدل و انصاف پر بہت بھاری گذرے ہیں۔ ویسے تو نظام انصاف پر ادبار کا دور اس دن سے شروع ہو گیا تھا جب اکتوبر 1958ء میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس منیرکے قلم کی سیاہی سے "نظریہ ضرورت" کے الفاظ تحریر ہوئے تھے اور پھر عدلیہ نے ایک نیا "اخلاقی اصول" وضع کرتے ہوئے کہا تھا "فاتح انقلاب جائز ہوتا ہے"۔ یوں انسانی تاریخ کے ہر اس معرکے میں جہاں یزید جیت جائے، وہاں سیدنا امام حسین ؓ کے اصولوں کی عدالت عالیہ کی میزان میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ لیکن گذشتہ دو سال تو ایسے گذرے ہیں جن میں پاکستان کے عام آدمی کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ اگر آپ صاحبِ حیثیت ہیں، سرمائے کی طاقت آپ کے پاس ہے، عوام کا ووٹ آپ کی جیب میں ہے تو پھر سیاسی حکومت یا اسٹبلشمنٹ "بے دلی" سے بھی آپ کو ملزم سے مجرم کے سفر کی طرف لے جانا چاہے تو نظامِ عدل و انصاف اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔ ان دو سالوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستان کا نظامِ عدل، یہ قوت و اختیار رکھتا ہے کہ دنیا کے مروجہ اور خود اپنے ہی ملک میں موجود قوانین کو بھی پس پشت ڈال کر فیصلے کرے اور پھر اس بات کو یقینی بھی بنائے کہ اس کے فیصلوں پر عمل درآمد ہو۔
اقوامِ متحدہ کے قیدیوں کے حقوق کے چارٹر کے مطابق ایک "مجرم قیدی" کو علاج کی مکمل سہولت فراہم کرنا اس کا حق ہے، چاہے اس کے لیئے لندن کا پورا ہسپتال ہی جیل منتقل کیوں ناکرنا پڑے، لیکن چونکہ ایک "مجرم قیدی" کی حیثیت سے اس کا گھومنے پھرنے (Freedom of movment) کا حق معطل ہو جاتا ہے، اس لیئے اسے علاج کے لیئے ایسی جگہ منتقل کیا جانا چاہیے جہاں اس کی قید و بند (Confinement) کا بندو بست ہو سکے۔ یہی ہمارے ملک کا قانون بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ستر سالوں میں قیدیوں کے علاج کے لیئے انہیں اگر بہترین ہسپتالوں میں منتقل بھی کیا گیا توان کے فرار کے راستے مسدود کرنے کے لیئے سپاہیوں کی ڈیوٹی کا ساتھ ہی بند و بست کیا جاتا رہا۔ ان دوسالوں میں جب بھی مذکورہ وائس چانسلر اور ان کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے ایک اور پروقار، باعزت اور صاحب علم وائس چانسلر کو ہتھکڑیوں کی ذلت میں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جا رہاتھاتو ان لمحوں میں پاکستان میں انصاف کی بالادستی کی ایک اور تاریخ رقم ہو رہی تھی۔
عدالت ایک سابق وزیر اعظم اور موجودہ "سزا یافتہ قیدی" کو باقی ایسے تمام قیدیوں میں سے "منتخب" کرتی ہے۔ ایسے سزا یافتہ قیدی جو عدالت کے فیصلے کے مطابق جیل میں سزا بھگت رہے ہوتے ہیں۔"منتخب قیدی" کو علاج کروانے کے لیئے ایک ایسے ملک جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے جہاں پر نہ اس عدالت کا اپنا حکم چلتا ہے اور نہ اس مملکتِ خداداد پاکستان کی پیرا ملٹری فورسز اور پولیس سب ملا کر بھی عدالتی حکم پر اسے "ایون فیلڈ" کے فلیٹ سے گرفتار کرکے پاکستان لا سکتے ہیں۔ عدالتی حکم کی بنیاد پر اس "سزا یافتہ قیدی"کوپاکستان واپس لانے کے لیئے اس کے "باعزت" بھائی کو ضامن بنایا جاتا ہے۔ ضامن ہمیشہ عدالت کے اطمینان پر ہوتا ہے، لکھا جاتا ہے "To the satisfaction of the Court "۔ اب اس "ضامن" کی قید و رہائی، دونوں داستانیں بھی حیرت انگیز ہیں۔ منی لانڈرنگ جیسے مقدمے میں کسی کے بھاگ جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا، اگر ملزم کا نام ای سی ایل پر موجود ہو۔ لیکن پھر بھی اس ضامن کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں اور، نیب کو اسے گرفتار کرکے کیا برآمد کرنا مقصود تھا، شاید کچھ بھی نہیں، لیکن اسے ایک طویل مدت "حسبِ منشا" گرفتار رکھا جاتا ہے اور عدالتیں "بھی" اسکی ضمانت نہیں لیتیں۔ لیکن جیسے ہی موسم بدلتا ہے، درختوں پر پھولوں کی کونپلیں پھوٹتی ہیں بہار اپنے ترانے گاتی ہے تو اس شخص کے ہاتھ میں آزادی کا پروانہ پکڑا دیا جاتا ہے۔
حیرت ہے ایک سال بعد یہ شخص اچانک اتنا بااعتماد ہو جاتا ہے، کہ عدالت کو مکمل یقین آجاتا ہے کہ اگرا سے رہا کردیا گیا تو پھر بھی یہ جہاں بھی جائے گا "تعاون" کے لیئے بھاگتا ہوا نیب کے پاس چلا آئے گا۔"ضامن" اپنے اس بھائی سے ملنے کے لیئے بھی بے تاب تھا، جس کی اس نے کبھی ضمانت دی تھی۔ دونوں بھائیوں کے ملنے میں رکاوٹ صرف ایک بلیک لسٹ تھی، لیکن "موسم بہار " میں عدالت سے انصاف ملنے کی امید اس شخص کے دل میں اتنی مضبوط تھی کہ اس نے لندن جانے کی ٹکٹ پہلے بک کرائی اور عدالت میں درخواست بعد میں داخل کی۔ ایسے تماشے روز ہماری احتساب عدالتوں میں لگتے ہیں اور گذشتہ پچیس سال سے لگتے چلے آرہے ہیں مگر عدالت کے روبرو ہتھکڑی والوں کی عزت کبھی بحال نہیں ہو تی ہے خواہ وہ اس معاشرے میں علم و آگہی کا چراغ ہی کیوں نہ ہوں اور نہ ہی بغیر ہتھکڑی والوں پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے۔ ایسے میں پورا عدالتی نظام جس میں جج، وکیل، پراسیکوٹر، تفتیشی شامل ہیں، مل کر بھی اپنی حریّت، ناموس اور حرمت کا ترانہ گاتے پھریں، عوام کو اس ترانے کی گونج تک سنائی نہیں دے گی۔