خواتین پر جنسی تشدد کا ہماری جدید شہری زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ اس جرم کی موجودہ شکل کا آغاز تقریباًڈیڑھ سو سال قبل ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغربی تہذیب قدیم عفت و حیا کے دبیز پردوں سے جسمانی نمائش کی انگڑائی لے کر باہر آ رہی تھی۔ اس سے قبل خواتین جنگوں کے دوران مردوں کی ہوسناکی اور خواہشات کا نشانہ بنتی تھیں۔ بہت ہی خوفناک مناظر ہوتے جب کوئی فاتح فوج کسی شہر میں داخل ہوتی۔ آج بھی ویسے ہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران مفتوحہ علاقوں سے پکڑی جانے والی بچیوں کو "راحت پہنچانے والی" (Comfort Women) کا نام دے کر انہیں ایسے قحبہ خانوں میں بٹھایا گیا جہاں محاذ جنگ پر جانے والے فوجی اپنی جنسی پیاس بجھاتے تھے۔ کوئی "جنیوا کنونشن" اس خوفناک جرم پر قابو نہیں پا سکا۔ گھروں سے دُور، ان فوجیوں کی جنسی بھوک کو مٹانے اور ان کے اندر سے جنس کے ہیجان انگیز درندے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے یہ "سہولت بازار" سجائے جاتے رہے ہیں۔ زمانہ جنگ کے علاوہ عام زندگی میں ایک عورت بہت کم جنسی تشدد کا شکار ہوا کرتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری زندگی میں دیہی طرزِ معاشرت کا غالب ہونا تھا۔ ایک چھوٹے سے گائوں یا قصبے میں ریاست یا حکومت نہ بھی موجود ہو تو وہاں پر رہنے والے ایک معاشرتی ضبط میں گُندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہر کسی کی اپنی اجتماعی زندگی پر نظر رہتی ہے اور ہر شخص اپنے ماحول کو بگڑنے سے بچانے کی چوکیداری کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں عورت جنسی تشدد سے زیادہ معاشی استحصال، بدترین غلامی، رائے سے محرومی اور نسبتاً کہتر یا کمتر مخلوق کی حیثیت سے صدیوں زندگی گزارتی رہی ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ اس کا جنسی استحصال بھی ہوتا تھا، لیکن موجودہ درندگی سے بالکل مختلف۔
جنسی تشدد، جنسی استحصال، ریپ، جنس کی بنیاد پر قتل، سادیت پسندی (Sadism)، اجتماعی آبروریزی، کام کرنے کی جگہ پر جنسی ہراسمنٹ، راستوں، چوراہوں، باغوں، جنگلوں، یہاں تک کہ گھروں میں بھی کسی نہتی عورت پر درندوں کی طرح حملہ آور ہونا اور جنسی درندوں کا ہیجان انگیز آرزوئوں اور خواہشات کی تکمیل کرنا، یہ سب کے سب جدید ترقی یافتہ دَور کے مسائل اور المیے ہیں۔ نفسیات دانوں کی ہزاروں لاکھوں صفحات پر مشتمل تحقیقات، اربن لائف یعنی شہری زندگی کی منصوبہ بندی کے ماہرین کی رائے اور ابلاغِ عامہ کے شعبے کے سنجیدہ محققین گذشتہ ایک سو سال سے ایک ہی بات دہرائے چلے آتے ہیں کہ جدید شہری زندگی میں خواتین پر جنسی تشدد کرنے والے ایک بیمار معاشرے کے تخلیق کردہ بیمار ذہن کے مالک افراد ہوتے ہیں۔ یہ بیمار معاشرہ کس نے تخلیق کیا ہے اور پھر ان درندوں کا یہ بیمار ذہن کون تیار کرتا ہے؟ اگر چھوٹے چھوٹے مجرموں کو ایک طرف رکھ کر صرف ایک بڑے مجرم کا نام لینا پڑ جائے تو "جدید میڈیا" کے علاوہ اور کوئی دوسرا نام سامنے نہیں آتا۔
آج کا یہ میڈیا جو جدید سیکولر لبرل لائف سٹائل کے تحفظ کا ضامن ہے۔ جس طرح ہر مجرم صحتِ جرم سے انکار کردیتا ہے اسی طرح میڈیا کے افراد بھی اس الزام سے صاف مکر جاتے ہیں لیکن جب انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارے ڈراموں، فلموں، اشتہارات یہاں تک کہ خبروں کے بلیٹن تک جنسی تلذذ، نیم برہنگی اور ہیجان انگیز مکالمات سے بھرے ہوئے ہیں۔ تمہاری ترغیبات کی وجہ سے ایک خاتون جس پہناوے میں باہر نکلتی ہے، جس طرح کی حرکات کرتی ہے تو ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے اردگرد لا تعداد ہیجان انگیز بیمار ذہن تیار کر رہی ہوتی ہے، تو اس فقرے پر میڈیا کے یہ لوگ اپنے دفاع میں ایک بے سروپا دلیل مدتوں سے دہراتے چلے آئے ہیں، کہ اگر لباس اور حرکات و سکنات کی بنیاد پر جنسی تشدد ہوتا ہے تو پھر یہ درندے معصوم بچیوں پر ظلم کیوں کرتے ہیں۔ میڈیا پر بیٹھے ہوئے اینکر، کالم نگاریا ڈرامہ نگار کیلئے اپنے جرم سے بچ نکلنے کیلئے کس قدر خوبصورت دلیل گھڑی گئی ہے۔ لیکن صرف ایک نظر اس منظر نامے پر ڈالئے اور اس زہر کو محسوس کیجئے جو جدید شہری زندگی کی رگوں میں گھولا گیا ہے اور جو درندے پیدا کر رہا ہے۔
قصور، شیخوپورہ یا مریدکے کے گائوں کا کوئی نوجوان لاہور کی چکا چوند میں مزدوری کرنے آتا ہے، جہاں اس کیلئے جس طرح شہر کی عمارتیں حیران کُن ہوتی ہیں، وہیں اسے جاذبِ نظر ملبوس میں گھومتی پھرتی خواتین بھی حیران کرتی ہیں۔ ذرا سی آسودگی اسے کسی فلم یا ڈرامے تک رسائی دلاتی ہے جہاں وہ عام زندگی میں گھومتی عورتوں سے کہیں زیادہ "بولڈ" ملبوس والی رقاصائوں کو دیکھتا ہے۔ اس کی زندگی میں یہ سب ایک دہکتے ہوئے انگارے کی طرح داخل ہو رہا ہوتا ہے۔ اگر اسے موبائل میسر آ گیا تو اس پر یا پھر کسی ناجائز منی سینما پر کوئی مکمل فحش فلم اس کے ہیجان میں ایسی آگ لگاتی ہے جس پر پانی ڈال کر بجھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ شہر میں گھومتا ہے تو چوراہوں پر بڑے بڑے بل بورڈوں پر کوئی ماڈل ایسے لیٹی ہوئی دکھائی گئی ہوتی ہے، جس سے اس کے جسم کے تمام خدوخال دعوتِ نظارہ دے رہے ہوتے ہیں۔ اشتہارات میں برہنہ ٹانگوں اور بازوئوں کی ملائمیت کسی کریم کے کرشمہ کے طور پر دکھائی جاتی ہے۔ ایک ایسا نوجوان جس کے پاس نہ تفریحی سہولت میسر، نہ شادی شدہ زندگی، معاشرتی طور پر وہ اتنا تنہا اور پسماندہ ہے کہ گناہ کی دلدل میں اُترنے کے اخراجات اس کے بس میں نہیں ہوتے۔ یہ وہ نوجوان ہے جو ایک ہیجان زدہ خوفناک دہشت پسند ہے، جو گلیوں میں چلتا پھرتا ایٹم بم ہوتا ہے۔ ظاہر بات ہے وہ کسی لینڈ کروزر سے اُترتی یا سٹیج ڈرامے میں سکیورٹی کے حصار میں تھرکتی عورت پر تو حملہ آور ہو کر اپنے اندر لگی آگ کو ٹھنڈا نہیں کر سکتا۔ ایسے میں اس کا شکار زینب جیسی معصوم بچیاں بنتی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں اس ہوسناکی کا جو خون اشتہارات، ڈراموں، فحش فلموں اور اردگرد رنگا رنگ مخلوط طرزِ زندگی کی وجہ سے اُترا ہوتا ہے کسی معصوم کی جان لے کر اُترتا ہے۔
میڈیا کے یہ مجرم ٹھیکیدار کتنی سادگی سے کہتے ہیں کہ ہمیں تو اس سب کچھ میں کہیں کوئی فحاشی نظر نہیں آتی۔ تمہیں کیسے نظر آئے گی۔ تم تو تسکین کے جھولے پر جھولنے والے لوگ ہو۔ تم میں سے اکثر نے اپنی مجلسی زندگی کو خواتین، شراب و نشے کی آسان دستیابی سے رنگین کر رکھا ہوتا ہے۔ تمہاری پارٹیوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوں جو سب براہِ راست نشر کر دیں تو قیامت آ جائے۔ عورت سے گفتگو، اس کا لمس، اس کی محبت، یہاں تک کہ اس سے جنسی تعلقات تمہارے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ اسی لیے تم زنا بالجبر کے خلاف ہو، لیکن زنا بالرضا کے حامی ہوحالانکہ زنا بالرضا دراصل جنسی درندگی اور زنا بالجبر کی سیڑھی ہے۔ ایک زنا بالرضا کرنے والا جب عام طرح کے سادہ جنسی تعلق سے اُکتا جاتا ہے تو پھر وہ مختلف لذّت حاصل کرنے کیلئے نئے نئے طریقے ڈھونڈتا ہے۔ کوئی اذیت دے کر لذّت حاصل کرتا ہے تو کوئی اذیت لے کر۔ ایسے شخص کا جنسی ہیجان اس سے محبوب کو قتل کر کے اس کی گردن کٹواتا ہے، ایسڈ میں پھنکواتا ہے یا زندہ دفن کرواتا ہے۔ ہر نفسیات دان کا ماننا ہے کہ نت نئے جنسی طریقوں کی تلاش (Curiosity) خاتون کے بے تحاشہ میسر آنے کے بعد ہی جنم لیتی ہے۔ اس طرح کے نت نئے طریقوں کی ترغیب کیلئے لاکھوں فحش ویب سائٹس موجود ہیں جسے بڑا مجرم میڈیا فراہم کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر مدرسوں میں یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟
مدرسوں میں تو اس سے بھی زیادہ ہونا چاہئے، کیونکہ مذہبی طلبہ کے دماغ پر مذہبی تعلیمات کا چوہدری مسلسل ڈنڈے برسا رہا ہوتا ہے، لیکن خاندان سے دُوری ان کی فطری جنسی خواہش کی محرومی کی آگ کو مسلسل بھڑکا رہی ہوتی ہے۔ اس طوفان میں اردگرد کا ماحول اور میڈیا جب پٹرول چھڑکتا ہے تو پھر مدرسے کے معصوم طلبہ ہی ان کی ہوس کا کھلونا بنتے ہیں۔ انسانوں کی اصلاح قرآن کی آیات پڑھنے اور حدیثیں سنانے سے نہیں بلکہ ایک صالح، نیک اور عفت مآب معاشرے کی تخلیق سے ممکن ہے۔ باحیا معاشرہ ایک عورت کی عصمت و عفت کے تحفظ کا ضامن ہے اور بے حیا معاشرہ منبر و محراب پر بیٹھے ہوئے تہجد گزار کو بھی جنسی درندہ بنا سکتا ہے۔