Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kashmir Jihad, Wataniyat Se Nifaz e Shariat Ki Taraf

Kashmir Jihad, Wataniyat Se Nifaz e Shariat Ki Taraf

یوں تو 2014ء کے آس پاس امریکہ اور عالمی طاقتوں کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ افغانستان میں طالبان سے جنگ نہیں جیت سکتیں، لیکن عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف شروع کی گئی اس جنگ سے پسپائی اختیار کرنا اور شکست تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ قطر میں طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت مل چکی تھی اور ایک ایسے مناسب وقت کی تلاش تھی، جب افغانستان کی دلدل سے خود کو کم سے کم نقصان کے ساتھ نکالا جا سکے۔

القاعدہ جو شروع دن سے طالبان کی دست و بازو تھی اور انہوں نے اپنا سب سے بڑا ٹھکانہ ہی افغانستان کو بنا رکھا تھا، اس کی قیادت کو بھی اب یہ اندازہ ہو چلا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کی وہاں ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اُسامہ بن لادن کی تقریروں میں فلسطین اور کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد، جہاد اور قتال کرنا ہمیشہ سے شامل تھا۔ فلسطین میں جہاد کرنا القاعدہ کیلئے عرب دُنیا نے اپنی پوری کوشش کر کے ناممکن بنا دیا تھا۔ تمام عرب ممالک میں، القاعدہ کے کارکنوں کو گرفتار کر کے سخت سے سخت سزائیں دی گئیں، یہاں تک کہ وہ ملک بدر ہونے پر مجبور ہو گئے۔

یہ نوے کی دہائی کی بات ہے جبکہ افغانستان میں اس وقت سوویت یونین سے جہاد جاری تھا۔ القاعدہ کو یہاں ایک محفوظ ٹھکانہ میسر آ گیا۔ افغانستان میں القاعدہ آزاد اور خود مختار تھی، لیکن ملا محمد عمرؒ کی حکومت نے اسے حکومتی نظم میں لانا شروع کیا تو اُسامہ بن لادن نے ملا محمد عمرؒ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ اسی بیعت کا حوالہ دیتے ہوئے ملا محمد عمرؒ نے گیارہ ستمبر کے بعد ہونے والے مذاکرات میں اُسامہ بن لادن کو امریکیوں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد القاعدہ نے امریکہ سے جنگ میں طالبان کا بھر پور ساتھ دیا۔ ان کا ماہانہ رسالہ "نوائے افغان جہاد" مسلسل اپنی جہادی کارروائیوں کی خبریں دُنیا بھر کو دیتا رہتا، لیکن جیسے ہی فروری 2020ء میں امریکہ اور طالبان کے درمیان سمجھوتہ طے پا گیا تو القاعدہ نے اپنے اس مسلسل نکالے جانے والے ماہنامے کا نام تبدیل کر کے "نوائے غزوۃ الہند" رکھ دیا۔

القاعدہ اپنا یونٹ برصغیر میں بہت پہلے ہی قائم کر چکی تھی۔ القاعدہ کی جڑیں برصغیر میں بہت پہلے سے موجود تھیں۔ اُسامہ بن لادن نے 1998ء میں جو عالمی جہاد کا فتویٰ جاری کیا تھا، اس پر بنگلہ دیش جہاد تحریک کے امیر مولانا فضل الرحمن کے بھی دستخط موجود تھے۔ اُسامہ بن لادن نے اپنی ویڈیو تقریروں میں بار بار یہ کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی آپس میں دُشمنی دراصل بھارت اور دیگر ممالک میں جہاد کیلئے آئیڈیل ہے، خصوصاً کشمیر جہاد کیلئے۔ افغانستان میں طالبان کی فتح نے القاعدہ کو ایک ایسا اعتماد عطا کیا کہ انہوں نے اب اپنے عرب پسِ منظر سے بالکل مختلف ہندوستانی معاشرے میں کام کا آغاز کر دیا۔

القاعدہ کے بھارت، کشمیر اور بنگلہ دیش میں کام کرنے والے لاتعداد گروہوں سے روابط موجود تھے لیکن ان سب کو ایک تنظیمی ڈھانچے میں پرونا، اب القاعدہ کیلئے بہت ضروری ہو گیا تھا۔ یوں القاعدہ نے عین اس وقت جب طالبان اور امریکیوں کے مذاکرات آپس میں جاری تھے برصغیر میں اپنی پوری تنظیم سازی مکمل کر لی۔ القاعدہ برصغیر کا سربراہ مولانا عاصم عمر کو بنایا گیا۔ یہ کوئی ڈھکی چُھپی شخصیت نہیں تھی۔ ان کی "آخر الزمان"، "امام مہدی" اور "دجال" کے بارے میں لاتعداد کتابیں مارکیٹ میں آ چکی تھیں۔ بھارت کیلئے محمد آصف کو سربراہ مقرر کیا گیا، جسے بھارتی افواج نے 2016ء میں گرفتار کر لیا، بنگلہ دیش کیلئے انصار البنگلہ کے سربراہ سابق میجر ضیاء الحق کو مقرر کیا گیا، برما میں آراکان روہنگیا سالویشن آرمی کے چیف عطاء اللہ جامی کو نگران بنایا گیا اور کشمیر میں برہان وانی گروپ کے اہم رکن ذاکر موسیٰ کو نامزد کیا گیا جو اپنی تنظیم "انصار غزوۃ الہند" کا سربراہ تھا۔

القاعدہ برصغیر کا نام "جماعت قاعدہ الجہاد فی شبہ القارۃ الہندیہ" رکھا گیا۔ مولانا عاصم عمر 2010ء سے القاعدہ کے ساتھ منسلک چلا آ رہا تھا۔ جولائی 2018ء میں امریکہ نے عاصم عمر کو عالمی دہشت گرد قرار دیا اور 23 ستمبر 2019ء کو ہلمند کے صوبے میں ایک امریکی حملے میں انہیں شہید کر دیا گیا۔ یہ ان چند القاعدہ رہنمائوں میں سے ہیں جن کی امریکیوں نے موت کے بعد تصاویر بھی شائع کیں۔ اس کے بعد القاعدہ نے "ہند" کے علاقے کیلئے اپنا سربراہ مقرر تو کیا ہے لیکن اس کا نام صیغۂ راز میں رکھا گیا۔

کشمیر میں القاعدہ کا سربراہ ذاکر رشید بھٹ تھا، جو امیر ذاکر موسیٰ کے نام سے مشہور تھا۔ ایک زمانے میں وہ "حزب المجاہدین" کا آپریشنل کمانڈر تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کے نظریات میں تبدیلی آئی اور وہ ستر سالہ کشمیری جہاد کو قوم پرستی کا جہاد تصور کرنے لگا۔ یہ صرف اس کے خیالات ہی نہیں تھے بلکہ نوجوان کشمیریوں میں بھی ایک بہت بڑی تبدیلی اس وقت سے آنا شروع ہوئی جب انہوں نے طالبان کو افغانستان میں فتح کے قریب ہوتے دیکھا۔ ان کا اس بات پر ایمان پختہ ہوتا چلا گیا کہ اللہ صرف ایسے مجاہدین کی نصرت کرتا ہے جو خود کو اس کے دین اور شریعت کے نفاذ کیلئے خالص کر دیتے ہیں۔

دوسری یہ بات انہوں نے ذہن نشین کر لی تھی کہ آئندہ آزادی کی لڑائی میں وہ کسی بھی قوت، طاقت یا ملک پر بھروسہ نہیں کریں گے۔ ذاکر موسیٰ 9 جولائی 2016ء کو برہان وانی کی شہادت کے بعد "حزب المجاہدین" کا آپریشنل کمانڈر بنا تھا۔ اس وقت تک کشمیری نوجوانوں میں یہ سوچ بہت عام ہو رہی تھی کہ ہمیں کشمیری وطن کیلئے نہیں بلکہ اسلام اور شریعت کے نفاذ کیلئے ایک خطے کے حصول کیلئے جان دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذاکر موسیٰ نے جولائی 2017ء کو "انصار غزوۃ الہند" بنائی اور خود کو القاعدہ کے ساتھ منسلک کر لیا۔

اس نے کشمیری پنڈتوں کو واپس آنے کی دعوت دی اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری لی۔ کشمیر جہاد نے ایک ایسی کروٹ لی کہ وہ اب یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ اگر بھارت میں بسنے والا بائیس کروڑ مظلوم مسلمان ہمارا ساتھ دے تو ہم بغیر کسی دوسرے ملک کی مدد کے بہت جلد آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن 24 مئی 2019ء کو ذاکر موسیٰ کو "ترال" کے قصبے میں بھارتی فوج نے شہید کر دیا۔ اس کا جنازہ کشمیر کی تاریخ کا بہت بڑا جنازہ تھا۔

القاعدہ برصغیر میں برما کے روہنگیا، بنگلہ دیش کے شہری، بھارت کے زخم خوردہ مسلمان اور کشمیری شامل ہیں۔ اس سے پہلے کشمیر میں بھارتی فوج سے لڑائی کسی ایک علاقے یا محاذ پر ایک یا دو دن تک جاری رہتی تھی۔ لیکن حالت یہ ہے کہ اس وقت پورا کشمیر برف سے ڈھک چکا ہے، لیکن گذشتہ تین ہفتوں سے وہاں مسلسل لڑائی جاری ہے۔ باٹھا ڈوریاں کے جنگلی علاقوں میں اٹھارہویں روز سے تلاشی آپریشن شروع ہے اور مسلسل دھماکوں کی آوازیں آ رہی ہیں اور شدید مزاحمت جاری ہے۔ آرمی چیف کو خود وہاں آ کر آپریشن کی نگرانی کرنا پڑی، مگر آپریشن کامیاب نہیں ہو پا رہا۔

اس وقت جنگل کے ساتھ آباد دو گائوں باٹھا ڈوریاں اور سنگھوہٹ کے مکینوں کو اٹھا کر لے جایا گیا ہے کیونکہ بھارتی فوج یہ سمجھتی ہے کہ ان کی مدد سے جنگل پر مجاہدین کا قبضہ ہوا ہے۔ اس طویل جنگ پر دُنیا بھر کے عسکری تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ کے طریقِ کار اور تسلسل سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیریوں کی جنگ اور اب بالکل افغان طالبان کے طرز پر ڈھل چکی ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تو پھر افغانستان میں 48 ممالک کی فوج نے شکست کھائی تھی، یہاں تو صرف اکیلا بھارت مقابلے پر ہے۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.