پرویز مشرف نے اپنے ابتدائی پانچ چھ برسوں میں اس ملک کی صدیوں پرانی تہذیبی و اخلاقی زندگی پر جس طرح عالمی سرپرستی اور مارشل لاء کی طاقت سے جدید مغربی اخلاقیات اور آزادانہ جنسی ماحول کو مسلّط کیا تو ول ڈیورانٹ کے بتائے ہوئے ان معاشروں کی یاد تازہ ہو گئی جہاں جب بھی ایسا کچھ کیا گیا تو لوگوں میں اس کے ردِعمل کے طور پر کٹر مذہبیت پیدا ہوئی اور انہوں نے بزورِ قوت سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ ان دنوں پاکستان میں بھی ویسا ہی آتش فشاں پھٹنے کو تیار تھا۔ عوام کے جذبات کی ترجمانی مذہبی قیادت کیا کرتی ہے لیکن مشرف دَور میں پاکستان کی پوری مذہبی سیاسی قیادت ایم ایم اے کے روپ میں مشرف کی سیاسی بصیرت کے ہاتھ پر بیعت کر چکی تھی۔ ایسے میں ایک پُر امن پاکستانی معاشرے میں کچھ گروہ منظم ہونا شروع ہو گئے جو اپنے اردگرد پھیلی اس بے راہ روی کی لہر کو بزورِ قوت بدلنا چاہتے تھے۔ اس کا عملی اظہار دارالحکومت کے بیچوں بیچ لال مسجد اور جامعہ حفصہ سے ہوا۔ سارا احتجاج فحش مواد اور مساج پارلروں کے خلاف تھا لیکن عالمی "آشیر باد" اور قوت کے نشے میں مست حکمرانوں نے ان چند ہزار مرد و خواتین کو کچلنے کا فیصلہ کر لیا۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات جن کے جرائم کی سزا چند ماہ بھی نہیں بنتی تھی، انہیں ٹینکوں کے گولوں اور بندوقوں کی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اس سانحے کے بعد کا پاکستان ایک بدلا ہوا پاکستان تھا جس سرزمین نے کبھی خواب میں بھی خود کش حملہ آور نہیں دیکھا تھا وہاں اگلے چند برسوں میں ستر ہزار لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔
طاقت سے کچلنے اور ہر قسم کی مذہبی آواز کو دبانے کیلئے صرف اور صرف ایک ہی الزام کافی تھا? "دہشتگرد"۔ اس کے بعد اس ملک میں کسی بے گناہ ملزم کے حق میں بھی بولنا جرم ہو گیا اور ایسے شخص سے دوستی رکھنا تو سہولت کاری کے ضمن میں گنا جانے لگا۔ جس کو جب چاہا، جہاں سے چاہا اُٹھا لیا گیا اور لاپتہ کر دیا گیا۔ پورے معاشرے میں ہر وہ شخص سہم کر رہ گیا جو قدیم اخلاقی زندگی کے خواب آنکھوں میں بسائے ہوئے تھا۔ پولیس کی چیک پوسٹیں اور ناکے جہاں کبھی ایسے لوگوں کو روک کر تلاشی لی جاتی تھی جن کی صورت اور چال ڈھال بدمعاشوں جیسی ہوتی تھی، وہاں اب ایسے لوگ روکے جانے لگے جن کے ماتھوں پر محراب اور ٹخنوں سے اُوپر شلواریں تھیں۔ موسیقی کے کنسرٹ پر لائوڈ سپیکروں کی ٹیکنالوجی دن بدن نکھرنے لگی اور مسجدوں کے سپیکر شر انگیزی اور فتنہ پردازی کے نام پر اُتارے جانے لگے۔ جرم ایک جیسا ہوتا لیکن یونیورسٹیوں، کالجوں میں ہونے والے جرم کی پردہ پوشی کی جاتی اور مدرسے میں ہونے والے جرم کو مہینوں ذرائع ابلاغ پر اُچھالا جاتا۔ جس طرح یورپ نے نفرت انگیز گفتگو (Hate Speech) کا ہتھوڑا ہاتھ میں پکڑا اور ہر مخالف کا سر کچلنا شروع کر دیا، اسی طرح پاکستان میں دہشت گردی، شدت پسندی اور مذہبی منافرت کی تلواریں صاحبانِ اقتدار کے ہاتھ میں آئیں اور پھر جس کسی نے بولنا چاہا اس کی زبان، جس نے احتجاج کرنا چاہا اس کے دست و بازو اور جس نے گروہ بندی کی کوشش کی اس کی زندگی کا چراغ گُل کر دیا گیا۔ خاندانوں کے خاندان سہم کر رہ گئے۔ اس کی ایک مثال علامہ اقبال پارک لاہور کے دھماکے میں مرنے والے ایک بیگناہ کی ہے کہ جب اسے دہشت گرد قرار دیا گیا تو پورا خاندان دو سال تک سماجی نفرت کی علامت بنا رہا، مگر دو سال بعد اس کی بے گناہی بھی ذِلت کا ازالہ نہ کر سکی۔
جس طرح ترقی یافتہ جدید مغربی تہذیب کا مرکز و محور عورت کو قرار دیکر، اس کی چکا چوند میں نئی اخلاقیات کو جنم دیا گیا تھا۔ پاکستانی معاشرے میں بھی زبردستی عورت کو تہذیبی ترقی، معاشی استحکام اور نرم خو معاشرے کی علامت بنا دیا گیا۔ اس کے کسی بھی قسم کے طرزِ عمل پر سوال اُٹھانے پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی۔ شروع شروع میں چند لوگوں نے اسلام، اخلاق، روایات اور معاشرت کے حوالے سے اس مادر پِدر آزاد ماحول پر تنقید کی، لیکن پھر ان آوازوں کو پہلے مین سٹریم میڈیا پر دبا دیا گیا اور ساتھ ہی سوشل میڈیا پر "گالی " بنا دیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان اور اس جیسے لا تعداد ہتھیار ہر ایسے شخص کے سر پر لہرانے لگے جس نے کسی خاتون کی آزادی، لباس، ماحول یا اخلاقی جرم کے خلاف زبان کھولنے کی کوشش کی۔ گزشتہ 5 سالوں کے عرصہ میں وہ تمام جنس زدہ اخلاقیات اس ملک پر قانونی شکل میں مسلّط کی گئیں جن کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ پنجاب اسمبلی نے خاندانی تشدد (Domestic violence) کا بل پاس کر کے ہر خاتون یا بچے کو باپ سے بغاوت کا قانونی اختیار دیدیا۔ چند استثنائی واقعات کا بہانہ بنا کر اسلام قبول کرنے پر پابندی کا بل سندھ اسمبلی نے پاس کیا۔ یہاں تک کہ قومی اسمبلی نے خواجہ سرائوں کا بہانہ بنا کر ایک ایسا قانون پاس کیا جسکے تحت کوئی شخص آزادانہ ہم جنس پرستانہ زندگی گزارنے کیلئے خود کو نادرا میں بحیثیت خواجہ سراء جب اور جس عمر میں چاہے رجسٹرڈ کروا سکتا ہے۔ نصابِ تعلیم، میڈیا اور سرکاری قوانین کے ظالمانہ ہتھیاروں کے استعمال سے وہ سب آوازیں دب سی گئیں جو تھوڑا بہت احتجاج کر لیتی تھیں اور عام آدمی ان کی وجہ سے خود کو تسلی دے لیتا تھا۔
آج چاروں جانب سنّاٹا ہے۔ کیا آج اگر راہ چلتی عورتوں پر جنسی تشدد بڑھ رہا ہے تو کوئی عالمِ دین یا عام شخص سیدالانبیائؐ کی یہ حدیث پورے زور سے میڈیا پر سُنا سکتا ہے کہ "وہ عورتیں جو لباس پہن کر بھی ننگی ہوں وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکیں گی" (مفہوم: مسلم)۔ کوئی یہ گفتگو کر سکتا ہے کہ جو اسلام حج پر عورت کو محرم ساتھ رکھنے کی تلقین کرتا ہے، وہ آزادانہ اختلاط کا کیسے قائل ہو سکتا ہے۔ یہ تو دلائل مذہبی لوگوں کے تھے۔ لیکن اگر کبھی کسی نے مغرب کی سو سالہ تاریخ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زینب جیسی بچیوں کا قتل اس جنسی ہیجان سے پیدا ہوتا ہے جو معاشرے میں فحاشی کو عام کرنے پر نوجوانوں میں جنم لیتا ہے تو چینلوں پر بیٹھے اینکرز خونخوار آوازوں سے اس پر برس پڑتے ہیں۔ اگر کوئی ہزاروں سیریل کلرز کے نفسیاتی تجزیے لوگوں کے سامنے رکھے، یہ بتائے کہ ایسے کئی ہزار پاگل اور جنونی جنہوں نے لاکھوں عورتوں کو قتل کیا، ان کا خمیر اس مادر پِدر آزاد جنسی ماحول سے اُٹھا تھا، تو لوگ اسے قابلِ گردن زدنی قرار دے سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ لاش کے ساتھ زیادتی کرنیوالے مریضوں کے مرض نیکرو فیلیا (Necrophilia) کی طبی وجوہات میں جدید دَور میں جنسی زندگی میں نئے نئے تجربات کی خواہش پوشیدہ ہوتی ہے، اگر آپ ایسا کہیں گے، تو چند بائولے آپ کو پاگل کہنے لگتے ہیں۔ اگر آپ یہ اعداد و شمار بتائیں کہ چہروں پر سب سے زیادہ تیزاب انگلینڈ میں پھینکا جاتا ہے، بے گناہ عورتوں پر حملہ کرنے والے درندے یورپ میں بستے ہیں اور مسلمان ممالک ان سے خالی ہیں تو پھر بھی آپ کی آواز کو صدابصحرا کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہے آج کا ماحول اور جبر کا عالم جس میں آپ کسی بھی جنسی تشدد یا اخلاقی بے راہ روی کے حوالے سے مکمل سچ نہیں بول سکتے۔ آپ غلاظت کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر اسے پھولوں کی کیاری کہنے پر مجبور ہیں۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے، اور جدید نفسیات اس بات کی قائل ہے کہ اللہ نے انسان کی بنیادی جبلتوں میں کھانا، سونا اور جنس کے ساتھ ایک جبلت حیاء بھی رکھی ہے۔ حیاء وہ جبلت ہے جو جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ بے حیاء معاشرہ زبردستی مسلّط کیا تو جا سکتا ہے، لیکن وہ زیادہ دیر تک تاریخ کے صفحات پر قائم نہیں رہتا۔ معاشرہ اپنی کوکھ سے ایسے لٹھ مار گروہوں کو پیدا کرتا ہے جو ساری بساط اُلٹ کر رکھ دیتے ہیں، جیسے انگلینڈ میں ایلزبتھ اوّل کے بعد کرام ویل، انقلابِ فرانس کے بعد نپولین اور روم میں سیزر بورجیا کے بعد سخت گیر عیسائیت نے سب کچھ بدل دیا تھا۔ (ختم شد)