وہ مالکِ کائنات جس کا اس کائنات پر بلا شرکتِ غیرے اقتدار مسلّم ہے۔ جس کے اشارے سے ہوائیں چلتی، بادل برستے، زمینیں سیراب ہوتی اور فصلیں اُگتی ہیں۔ جس کا دعویٰ ہے کہ "ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے زندگی دی" (الانبیائ: 30)۔ اور ساتھ ہی وہ یہ وارننگ بھی دیتا ہے "اگر تمہارے پینے کا پانی زمین میں اُتر جائے تو کون تمہارے لئے صاف پانی لائے گا" (الملک: 30)۔ جو رحمتوں کی بارشوں کا ذکر فرماتا ہے اور عذاب کے کوڑوں کی نوید بھی سناتا ہے۔ گذشتہ صدی سے "تہذیب یافتہ" مغرب نے بحیثیت مجموعی اس فرمانروائے کائنات، "اللہ" کا انکار کرتے ہوئے سیکولر ازم، لبرل ازم اور کیمونزم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی دن کے بعد آنیوالی پوری صدی، جنگ و جدل اور قتل و غارت کی صدی ہے، جس کا آغاز جنگِ عظیم اوّل سے ہوا، پھر جنگِ عظیم دوم اور آج تک پوری دُنیا جنگ کے ہولناک شعلوں سے باہر نہیں نکل سکی۔ اللہ اس قتل و غارت کو دراصل عذاب بتاتے ہوئے فرماتا ہے "تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے آپس میں لڑوا کر ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھائوں " (ـالانعام:65)۔ لیکن انسان نے اس قتل و غارت کو معمول کے واقعات سے گردانا اور اللہ کا انکار جاری رکھا۔ ایسی جمہوریت کو ایمان بنایا، جس کے تحت طاقت اور قوانین کا سرچشمہ اللہ کی ذات نہیں بلکہ انسان کو قرار دیا گیا۔ انسان نے ایڑیاں اُٹھا کر اللہ کو اپنی ٹیکنالوجی کے بَل بُوتے پر چیلنج کرنا شروع کیا۔ دعوے کئے گئے کہ اللہ کے عذاب پر، خواہ وہ زمینی ہو یا آسمانی، بیماری ہو یا وبائ، انسان اپنی سائنسی ترقی سے قابو پا سکتا ہے۔ عذاب تو پسماندہ، غریب اور جدید ٹیکنالوجی سے محروم ملکوں میں ہی آتا ہے۔
میرے اللہ کی حکمت عجب ہے، اس نے گذشتہ دو سالوں میں آنے والے کرونا وائرس کیلئے ایسے ملکوں کا انتخاب کیا جو دولت، طاقت اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دُنیا بھر میں سب سے برتر تھے۔ یورپ اور امریکہ میں اس کا خوف اسقدر نظر آیا جیسے کوئی "بَلا" بستیوں سے گزر رہی ہو۔ اسکے برعکس میرے اللہ نے ٹیکنالوجی سے محروم پسماندہ ترین افریقہ کے ممالک کو ایسے محفوظ رکھا کہ لاتعداد ممالک میں کوئی ایک شخص بھی کرونا کا شکار نہ ہوا۔
یہ عذاب تو ختم ہونا ہی تھا کیونکہ دُنیا میں ہر عذاب ایک وارننگ ہوتی ہے۔ اللہ جھنجھوڑتا ہے، کہ انسان میری طرف لوٹ آئیں، فرمایا "یقینا ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزہ ضرور چکھائیں گے تاکہ وہ لوٹ آئیں " (السجدہ: 21)۔ کرونا رخصت ہو رہا ہے مگر مغرب کا غرور ابھی تک قائم ہے اور وہ اپنی ٹیکنالوجی پر مکمل بھروسے کے "شِرک" میں آج بھی مبتلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب پر عذاب کا برستا ہوا کوڑا اب مزید برسنے والا ہے۔ آنے والا عذاب ایسا ہے کہ انسان اس کے خاتمے کیلئے بالکل بے بس نظر آ رہا ہے۔
یورپ نے گذشتہ چالیس سالوں سے زمین میں موجود اللہ کی نعمتوں تیل، گیس اور کوئلہ پر دو وجوہات کی بنیاد پر بھروسہ کم کر دیا تھا۔ ایک یہ کہ کچھ عرصے بعد انکے ذخائر ختم ہو جائیں گے اور دوسرا یہ کہ ماحولیاتی آلودگی سے بچا جا سکے۔ انہوں نے ہوا، سورج کی روشنی اور پانی کو استعمال میں لا کر اپنی راتوں کو روشن اور صنعتوں کا پہیہ چلانا شروع کیا۔ سوچ یہ تھی کہ ہوا اور سورج کی روشنی تو کبھی نہ ختم ہونے والی چیزیں ہیں جبکہ پانی کا سلسلہ (Cycle) بھی مسلسل چلتا ہی رہتا ہے۔ سمندروں سے سحاب اُٹھتے ہیں، بادلوں میں ڈھلتے ہیں اور زمین پر برستے ہیں۔ یورپ میں اس وقت توانائی (Energy) کے دو بنیادی ذرائع ہیں ایک شمالی سمندری ساحل پر چلنے والی تیز ہوائیں (Wind) اور دوسرا دریائوں پر بند باندھ کر بجلی کی پیداوار۔ وہ اللہ جو ہوائوں پر اپنا اختیار رکھتا ہے اس نے گذشتہ چند ماہ سے حکم صادر کر دیا ہے اور شمالی سمندری ساحلوں پر ہوائوں نے تیز رفتاری سے چلنا بند کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ساحلوں پر لگی ہوئی بڑی بڑی پَن چکیوں کے پَر ساکت و جامد ہو گئے، اور یوں برطانیہ توانائی کے بہت بڑے بحران کا شکار ہو چکا ہے۔
برطانیہ کے ساحلوں پر لگے ہوئے تیز ہوائوں سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ 24 گیگا واٹ بجلی پیدا کرتے تھے، جبکہ اس ماہ انہوں نے ایک گیگا واٹ سے بھی کم بجلی پیدا کی ہے۔ ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی برطانیہ کی کل توانائی کی ضروریات کا چوتھا حصہ ہے۔ واپس کوئلے، گیس اور تیل کی طرف رجوع کیا گیا تو روس کے پیوٹن نے کہا "تم لوگوں نے میری گیس چھوڑ کر پانی، ہوا اور سورج سے بجلی بنانے پر بھروسہ کیا تھا، اب بھگتو"۔ نوٹنگھم شائر میں کوئلے کا پلانٹ شروع کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ مدتوں سے بند ہونے کی وجہ سے 2024ء سے پہلے اس کا آغاز نہیں ہو سکتا۔ یورپ کی دو بڑی کمپنیاں جو ہوا سے بجلی بناتی تھیں شدید خسارے میں چلی گئی ہیں، جن میں جرمن کمپنی RWE چالیس کروڑ یورو کے خسارے میں اور EBITDA گروپ 67 کروڑ یورو کے خسارے میں چلی گئی ہے۔ اگر میرے اللہ نے ہوائوں کو دوبارہ چلنے کا حکم صادر نہ کیا تو ایسی تمام کمپنیوں کا خسارہ اربوں ڈالر تک پہنچ جائے گا بلکہ پورا سیکٹر ہی بند ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ یورپ کا دوسرا بڑا توانائی کا ذریعہ پانی سے بجلی بنانا ہے۔ اس سلسلے میں ناروے کے پانی کے ذخائر شمالی یورپ کو بجلی فراہم کرتے ہیں۔
میرے اللہ نے ناروے میں بارش تو برسائی لیکن میدانی علاقوں پر اور ایسی جگہوں پر جہاں سے ناروے کے پانی کے ذخائر تک پانی نہ پہنچے۔ ناروے کے مغربی اور جنوبی ذخائر اپنی آخری سطح تک آ پہنچے ہیں۔ جس دن برطانیہ نے ناروے سے بجلی حاصل کرنے کیلئے سمندر کے اندر کیبل بچھانے کا کام مکمل کیا، اس دن تک ناروے کے پانی کے ذخائر اس قدر کم ہو گئے تھے کہ برطانیہ کو بجلی مہیا نہ کر سکے۔ ناروے کی اپنی توانائی کا 99 فیصد انحصار پَن بجلی پر ہے۔ اس کے پاس 1000 سے زیادہ پانی کے ذخائر ہیں جو 87 کے قریب TWH (Tera Watt hour) بجلی پیدا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن اس وقت صرف 13 TWH بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ پورا یورپ اب اس عذاب سے نمٹنے کیلئے دُنیا بھر سے تیل، گیس، کوئلہ اور پٹرول خریدنے کے چکر میں ہے، جس کی وجہ سے دُنیا بھر میں ان سب کی قیمتیں دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔
یہ عذاب صرف یورپ پر ہی نہیں نازل ہو رہا بلکہ، ہر اس ملک پر ہے جس نے سیکولر، لبرل تہذیب اوڑھی اور ٹیکنالوجی کے بُت کی پرستش کی۔ جنوبی امریکہ کے ممالک بارش کی کمی کے بدترین بحران کا شکار ہیں۔ پارانا (Parana) دریا جو برازیل، ارجنٹائن اور دیگر ممالک کو زندگی بخشتا تھا وہاں اس وقت پانی کا بہائو 17، 000 کیوبک میٹر سے کم ہو کر 6، 200 کیوبک میٹر رہ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے تمام بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ ایک چوتھائی سطح پر کام کر رہے ہیں۔
جنوبی امریکہ کے بحران پر اس وقت دُنیا بھر میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ برازیل کے ایمزون کے جنگلات ہیں جنہیں دُنیا کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے، وہاں اگر دریا کے سوتے ایسے ہی خشک ہوتے رہے تو پھر ایمزون جنگل صحراء میں تبدیل ہو سکتا ہے اور پوری دُنیا آکسیجن کی کمی کا شکار ہو سکتی ہے۔ یہ صرف آغاز ہے میرے اللہ کی وارننگ کا ?ایک عذاب ہے جسکی طرف دُنیا بڑھ رہی ہے اور حضرت انسان کی بے بسی دیکھیں کہ نہ اس کا ہوائوں پر اختیار ہے کہ وہ انہیں حکم دے کہ زیادہ تیزی سے چلیں اور نہ ہی بادل اور پانی اس کے اختیار میں ہیں کہ انہیں حکم دے کہ مزید برسو۔ اسکے باوجود اس "بے بس" انسان کے دعوے دیکھو۔ آج تک وہ جس ٹیکنالوجی کو پوجتا تھا، جس کے بھروسے پر پَن چکیاں اور ڈیم بناتا تھا۔ میرے اللہ کے صرف ایک حکم نے ان سب کو "ناکارہ" بنا دیا۔