جمہوریت، انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے سب سے بڑے چیمپئن، امریکہ کے صدر جارج بش نے گیارہ ستمبر کے "ورلڈ ٹریڈ سینٹر" کی تباہی کے ٹھیک ایک ہفتے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے، 18 ستمبر 2001ء کو افغانستان میں امریکی افواج اُتارنے کے فرمان پر دستخط کئے۔ اس دن اگر کسی شخص کے پاس دس ہزار ڈالر موجود ہوتے اور وہ اس جنگ کی بُو سونگھتے ہی اپنے اس سرمائے کو امریکہ کی پانچ بڑی دفاعی کمپنیوں میں لگا دیتا تو آج بیس سالہ جنگ کے خاتمے کے وقت اس کے دس ہزار ڈالر کے شیئر 97، 295 ڈالر بن چکے ہوتے۔ یہ شرحِ منافع امریکہ کے سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ پانچ سو بڑی کمپنیوں کے اوسط منافع سے تقریباً دُگنا ہے۔ ان بیس سالوں میں اگر کسی نے ان پانچ دفاعی کمپنیوں کے علاوہ عام کاروباری کمپنیوں میں دس ہزار ڈالر لگائے ہوتے تو اس وقت اسے زیادہ سے زیادہ 61، 313 ڈالر ملتے۔
یہ صرف ان پانچ دفاعی کمپنیوں کے منافع کا ذکر ہے جو ان پانچ سو بڑی کمپنیوں کے مشہور انڈیکس "S&P500" کی فہرست میں شامل ہیں۔ جب کہ دیگر لاتعداد چھوٹی سطح کی دفاعی سازوسامان بنانے اور جنگی ٹھیکیداروں کی کمپنیاں ایسی بھی ہیں جنہوں نے افغان جنگ سے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔ ان پانچ بڑی دفاعی سازوسامان بنانے والی کمپنیوں اور دیگر دفاعی ٹھیکیدار کمپنیوں کے مالکان اور ڈائریکٹرز کی فہرست پر غور کریں تو ایک انتہائی خوفناک حقیقت سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ ان کے مالکان امریکی فوج میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے والے جنرل، ایڈمرل یا فضائیہ کے انسپکٹر جنرل رہے ہیں۔ یہ وہ سابقہ فوجی افسران ہیں جن کیلئے دُنیا کے کسی بھی خطے میں ہونے والی جنگ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ دُنیا کے ہر ملک میں افواج کے سابقہ اعلیٰ افسران کی ریٹائرڈ زندگی انتہائی پُرکشش گزرتی ہے۔ جو جتنے بڑے ملک کی بڑی فوج کا اعلیٰ عہدیدار رہا ہو گا، وہ اتنی ہی شاندار ریٹائرڈ زندگی گزارے گا۔
بڑی طاقتوں مثلاً امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس وغیرہ میں یہ ریٹائرڈ فوجی افسران تین گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ذرا لکھنے پڑھنے سے دلچسپی رکھنے والے کسی بڑے "تھنک ٹینک" کی سربراہی سنبھالتے ہیں اور حکومت کو جنگوں کے فوائد اور نقصانات پر مشورے دیتے ہیں۔ یہ دُنیا بھر میں "دفاعی تجزیہ نگار" کہلاتے ہیں۔ کتابیں لکھتے ہیں، بڑے بڑے جرنلز میں مضامین تحریر کرتے ہیں اور یونیورسٹیوں، فوجی اکیڈیمیوں اور مختلف فورموں پر لیکچر دے کر پیسے کماتے ہیں۔ ان کی زندگی نوکری سے زیادہ خوشحال اور پُرتعیش ہوتی ہے۔ بعض دفعہ صرف ایک کتاب ہی بیسٹ سیلر بن کر انہیں اتنے پیسے دے جاتی ہے کہ یہ اپنی زندگی کا ہر نامکمل خواب پورا کر لیتے ہیں۔ جو ریٹائرڈ فوجی افسران سے ذرا کم لکھنے پڑھنے والے اور جسمانی صحت وغیرہ پر یقین رکھتے ہیں وہ جنگوں کیلئے کرائے کے فوجی مہیا کرنے والی کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
ان میں سے ایک شخص ایرک پرنس (Erik Prince) بہت مشہور اور بدنام ہوا جو "بلیک واٹر کمپنی" کا مالک ہے۔ اپنی فوجی ملازمت کے دوران وہ ہیٹی اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوج کے ساتھ تعینات رہا۔ لیکن جب وہ بوسنیا اور یوگوسلاویہ میں نوے کی دہائی میں فوجی آپریشن کیلئے گیا، تو اس نے اپنی "یادداشتوں " میں لکھا ہے کہ وہاں اسے اندازہ ہوا کہ امریکہ کو دوسرے ملکوں میں "خصوصی فوجی آپریشن" کرنے کیلئے پرائیویٹ لوگوں کی ایک فوج کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی فوج جسے دُنیا بھر کے ممالک سے بھرتی کیا جائے اور پھر اسے وہاں بھیجا جائے جہاں امریکی آپریشن جاری ہو، ان کرائے کے فوجیوں سے ایسے تمام کام لئے جائیں جو غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بلیک واٹر اپنی بدنامی کے باوجود آج بھی امریکہ کی ضرورت ہے اور امریکی فوج کے ساتھ ساتھ ایسے تمام ملکوں میں ظلم و دہشت کی کارروائیاں کرتی ہے جہاں امریکی حملہ آور ہوتے ہیں۔
تیسرا گروہ ان سابقہ اعلیٰ فوجی افسران پر مشتمل ہے جو دُنیا میں ہونے والی ہر جنگ سے ڈھیروں ڈالر منافع کماتے ہیں۔ یہ ہیں وہ دفاعی سازوسامان بنانے والی کمپنیوں کے مالک۔ امریکی عوام افغان جنگ میں تین ہزار ارب ڈالر کے مقروض ہو گئے، لیکن اس جنگ میں ان کمپنیوں نے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔ صرف ان پانچ کمپنیوں کے مالکان اور منافع کا اندازہ لگائیں تو آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بیس سے پچیس لاکھ انسانوں کی لاشوں کے ڈھیر پر ان سابقہ فوجی افسران کا کمایا ہوا مال جگمگا رہا ہے۔ یہ پانچ کمپنیاں ہیں۔ (1) بوئنگ (Boeing)، (2) ریتھون (Raytheon)، (3) لاک ہیڈ مارٹن (Lockheed Martin)، (4) نارتھ روپ گرومین (Northrop Grumman) اور (5) جنرل ڈائنا مکس(General Dynamics)۔
سب سے پہلے بوئنگ کے مالکان ملاحظہ کریں۔ ان میں ایڈمینڈ جونیئر (Edmund Jr.) سابق وائس چیف آف سٹاف، سٹائس .ہیرس (Styce Haris) سابق انسپکٹر جنرل ایئر فورس اور جان رچرڈسن (John Richardson)سابق نیوی چیف شامل ہیں۔ اس کمپنی میں جس شخص نے 2001ء میں دس ہزار ڈالر کے شیئر خریدے تھے، آج ان کی قیمت 107، 588.47 ڈالر ہو چکی ہے۔ دوسری کمپنی ریتھون کے مالکان میں ایلن پائولی کوسکی (Elen Powlikowski) سابق ایئر فورس جنرل، جیمز جوینئر (James Jr.) سابق نیوی ایڈمرل اور رابرٹ ورک (Robert Work) سابق ڈپٹی سیکرٹری دفاع شامل ہیں۔ اس کمپنی نے 332 فیصد کی شرح سے کل منافع اور 8 فیصد کے حساب سے سالانہ منافع کمایا۔ تیسری کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کے مالکان بروس کارلسن (Bruce Carlson) سابق ایئر فورس جنرل اور جوزف ڈن فورٹ جونیئر (Joseph Dunfort Jr.) سابق میرین کور جنرل شامل ہیں۔ اس کمپنی میں جس نے بیس سال پہلے دس ہزار ڈالر لگائے تھے، آج اس کے یہ شیئر 72، 515.58 کے ہو چکے ہیں۔ چوتھی کمپنی نارتھ روپ گرومین ہے، اس کے مالکان میں گیرے روگ ہیڈ (Gary Roughead) سابق نیوی ایڈمرل اور مارک ویلش (Mark Welsh)، سابق ایئر فورس جنرل شامل ہیں۔ اس کمپنی میں منافع کی شرح حیران کن ہے یعنی 2001ء میں دس ہزار ڈالر کے شیئر اب 129، 644.84 ڈالر کے ہو چکے ہیں۔
پانچویں کمپنی جو بہت مشہور بھی ہے یعنی جنرل ڈائنا مکس اس کے مالکان میں بڑے مشہور جنرل شامل ہیں، جیسے جیمز میٹس(James Mattis) سابق میرین کور جنرل اور سابق وزیر دفاع، سیسل ہینی(Cecil Haney) سابق نیوی ایڈمرل، روڈ ڈی لی لون (Rudy Leleon) سابق ڈپٹی سیکرٹری دفاع اور ایک سابق برطانوی جنرل پیٹر وال (Petar Wall) بھی شامل ہے۔ اس کمپنی میں لگائے گئے دس ہزار ڈالر آج 72، 515، 38 ڈالر کے ہو چکے ہیں۔ یہ تو صرف ان پانچ بڑی کمپنیوں کے منافع کا عالم ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ٹھیکیدار، یعنی بندوقیں وغیرہ سپلائی کرنے والے، انہوں نے بھی سالانہ چار سو ارب ڈالروں کا اسلحہ اس دہشت گردی کی جنگ میں فروخت کیا۔
انگریزی میں ایک محاورہ ہے "Tip of iceberg"۔ آئس برگ دراصل وہ گلیشئر ہوتا ہے جو سمندر میں بہتا ہے اور اس کا صرف چھوٹا سا کونا دکھائی دیتا ہے باقی پانیوں کے نیچے چھپا ہوتا ہے۔ یہ تمام حقائق بھی دراصل تمام حقائق کا معمولی سا حصہ ہیں جبکہ جنگوں سے کمائی کرنے والوں کی ایک خوفناک تعداد ہے جو "مہذب" دُنیا کو روز بہ روز امیر بناتی جا رہی ہے۔ ان تمام اداروں کی قیادت سابقہ فوجی جرنیل کرتے ہیں۔ پڑھے لکھے تھنک ٹینک والے سابقہ جرنیل جنگوں کا جواز پیدا کرنے کیلئے رپورٹیں بناتے، مضمون اور کتابیں لکھتے ہیں اور یوں وہ دُنیا کو جنگ پر قائل کرتے ہیں۔ اس کے بعد جب جنگ شروع ہو جاتی ہے تو پھر ایک منافع بخش کاروبار شروع ہو جاتا ہے جس میں پھر انہی سابقہ فوجی افسران کی تجوریاں بھرنے لگتی ہیں۔