میرا کل کا دن اسلام آباد میں شریعت کورٹ کی راہداریوں میں بحیثیت مدعی گزرا۔ ایک ایسے قانون کے خلاف دعویٰ تھا جس کو منظور کرنے کی جرأت نہ صرف یہ کہ ستاون سے زیادہ اسلامی ممالک میں سے کسی ایک کو ہو سکی، بلکہ ایسا قانون دُنیا میں شاید ہی کسی اور ملک نے منظور کر کے، اس قدر چالاکی اور ہوشیاری سے "ہم جنس پرستی" کیلئے قانونی راستہ نکالا ہو۔ پرویز مشرف دَور کے سیکولر، لبرل ماحول میں جہاں اور کئی اخلاقی برائیوں اور بے راہ رو تصورات کو فروغ ملا، وہاں خواجہ سرائوں اور "کھسروں " کو معاشرے کا مظلوم طبقہ گردانتے ہوئے، ان کے حقوق پر ایک طویل بحث شروع کی گئی۔
میڈیا، عدالتیں، سول سوسائٹی اور پارلیمنٹ سبھی اس بحث میں گرم جوشی سے شریک ہونے لگے۔ اسکے پیچھے صرف اور صرف ایک مقصد چھپا ہوا تھا کہ کسی نہ کسی طرح خواجہ سرائوں کے تحفظ کی آڑ میں "ہم جنس پرستی" کو جائز قرار دیا جائے۔ ذرا سوچیں کہ وہ ملک جہاں عالمی ادارۂ صحت کے مطابق تقریباً تین کروڑ دس لاکھ افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہوں، وہاں چند ہزار خواجہ سرائوں کو خصوصی اہمیت کیوں دی گئی۔ یہ ہے وہ سوال جس کے پیچھے چھپی ہوئی "خباثت" اس قانون کی صورت سامنے آئی جو 18 مئی 2018ء کو چار سو سے زیادہ اراکین اسمبلی و سینٹ نے پاس کیا۔ اس قانون کا نام ہے "Transgender Persons (Protection of Rights Act 218)" یہ قانون ایک باریش وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اسکی نون لیگ کا شاید آخری "غیر اسلامی تحفہ" تھا جو نواز شریف کی ذرّیت نے اس ملک کو دیا۔
یہ ہے وہ قانون جس کی شرعی حیثیت کو چیلنج کرنے کیلئے میں اور میرے ساتھی شریعت کورٹ کی راہداریوں میں کل سرگرداں تھے۔ بِل چونکہ ایک ایسے وقت منظور کیا گیا تھا جب حکومت بدلنے والی تھی، نگران حکومتیں آنے میں صرف بارہ دن باقی تھے، اسی غیر یقینی صورتحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اراکین اسمبلی نے اس بِل کو منظور کر لیا۔ چونکہ میڈیا سیکولر، لبرل لوگوں سے بھرا ہوا ہے، اسلئے اس بِل کا تذکرہ تک نہ کیا گیا اور پھر اس کے فوراً بعد ہی الیکشن کی گہما گہمی شروع ہو گئی اور ایک ایسا قانون پاکستان میں لاگو ہو گیا جسکے تحت "ہم جنسیت" کو ایک قانونی راستہ اور تحفظ مل گیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔
دُنیا بھر میں کسی شخص کی جنس یا جینڈر (Gender) کے متعلق فیصلہ اسکی پیدائش کے وقت ڈاکٹر کرتے ہیں کہ یہ بچہ مرد ہے یا عورت پیدا ہوا ہے۔ اگر اس بچے کے جنسی / تولیدی نظام میں کوئی خرابی ہو تو پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ پیدا ہونے والا مجموعی اور بنیادی طور پر عورت تھا مگر جنسی اعضاء کی خرابی کی وجہ سے اسے ٹرانس جینڈر (Transgender) کہا جا سکتا ہے یا وہ مجموعی اور بنیادی ساخت میں مرد تھا لیکن جنسی اعضاء کی مناسب کیفیت نہ ہونے کی وجہ سے اسے مرد یا عورت کی بجائے تیسری جنس کے خانے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ بعض دفعہ پیدائشی معذوری ایسی بھی ہوتی ہے کہ عمر بڑھنے کیساتھ ساتھ ظاہر ہوتی ہے تو پھر ایسی صورتحال میں ڈاکٹر کے معائنے کے بعد یہ طے کیا جاتا کہ یہ ایک مستقل معذوری ہے یا علاج سے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ اگر یہ مستقل معذوری ہو تو پھر ایسے بچوں کو ٹرانس جینڈر کے خانے میں لکھ دیا جاتا ہے۔
دُنیا کے اکثر ممالک میں یہی دستور ہے۔ تمام ٹرانس جینڈر بچوں کے بارے میں ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ بچپن ہی سے ایک شدید نفسیاتی مرض "Gender dysphoria" کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ وہ اپنے آپکو کسی ایک جنس کیساتھ منسلک نہیں کر پاتے۔ ایسی کیفیت انہیں شدید ڈپریشن اور اضطراب (Anxiety)جیسی نفسیاتی اُلجھنوں کا شکار کر دیتی ہے۔ ان نفسیاتی بیماریوں کی وجہ سے یہ بچے عام زندگی میں کامیاب ہونے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اصل میں خواجہ سراء یا "کھسرے" ہیں جو ایک معذوری کیساتھ پیدا ہوتے ہیں دیگر پیدائشی معذوری والے جیسے نابینا، سماعت سے محروم، ذہنی معذور یا جسمانی معذور کا شکار بچے۔ لیکن اس قانون میں خواجہ سرا یا کھسرے (Transgender) کی جو تعریف کی گئی ہے اس نے ہر طرح کی ہم جنسیت کو پسِ پردہ جائز قرار دے دیا ہے۔
اس قانون کو منظور کرنے کا بنیادی مقصد تو یہ تھا کہ ایسے افراد جو پیدائشی طور پر یا کسی بیماری اور حادثے کی وجہ سے جنسی اعضاء میں کجی، کمی یا خرابی (Deformity) کا شکار ہو جاتے ہیں، انہیں معاشرے میں "خواجہ سرائ" جیسے رُسوائے زمانہ کردار سے بچا کر ایک عزت دار شہری بنایا جائے۔ اوّل تو کسی شخص میں جنسی اعضاء کی معذوری یا کمی بالکل ویسے ہی ہے جیسے آنکھ، کان، ہاتھ پائوں یا کوئی ذہنی معذوری ہو، بلکہ باقی تمام معذوریاں اس جنسی معذوری سے کہیں زیادہ اذیت ناک، سخت اور انسان کو مشکل میں ڈالنے والی ہیں۔ لیکن آج تک کسی انسانی حقوق کے علمبردار نے جنسی معذوروں کے سوا کسی اور معذور کیلئے علیحدہ شناختی کارڈ اور علیحدہ گروہی تشخص کا مطالبہ نہیں کیا۔ لیکن پاکستان کے ایک وکیل ڈاکٹر اسلم خاکی نے اس "جنسی کجی" کو بہانہ بنا کر 2009ء میں سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر دی۔ یوں لگتا تھا جیسے تمام جج حضرات اس "عظیم" اور انقلابی پٹیشن کے انتظار میں بیٹھے تھے۔
کچھ ماہ بعد ہی یہ فیصلہ سنا دیا گیا کہ نادرا، اپنے ڈیٹا بیس میں خواجہ سرائوں اور کھسروں کیلئے علیحدہ "جنس" کا خانہ بنائے۔ یوں انسانی تاریخ کے ہزاروں سال سے مسلّمہ حیاتیاتی علم (Biological Science) کو انسانی حقوق کی انجمنوں کے مذبحہ خانے میں قربان کر دیا گیا۔ دُنیا میں لاکھوں جانوروں کے جوڑے ہیں، کسی شیر، گدھا، یا بکرے کو آج تک "جانور خواجہ سرائ" نہیں لکھا گیا، البتہ بس معذور لکھا جاتا ہے۔ اسی لئے لائیو سٹاک کی شماریات میں بھی کبھی ایک تیسری جنس کا خانہ نہیں رکھا جاتا۔
بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھی لیکن پاکستان کی اس "عظیم اسمبلی اور سینٹ" نے ٹرانس جینڈر کی تعریف کرتے ہوئے اس ایکٹ کے آرٹیکل 2(این) میں لکھا ہے کہ "ایک ٹرانس جینڈر مرد یا عورت اور خواجہ سرا وہ شخص ہے جس کا جنسی اظہار معاشرے کے معیارات (Norms) اور معاشرتی توقعات (Expectations) سے مختلف ہے۔" یعنی کسی قسم کی جسمانی کجی اور کمزوری کے بغیر بھی اگر کوئی مرد ایک عورت جیسی حرکتیں شروع کر دے یا جنسی طور پر مفعول طرزِ زندگی گزار رہا ہے تو وہ ایک ٹرانس جینڈر ہے۔ اس کے بعد ٹرانس جینڈر کی پہچان کی تعریف کرتے ہوئے کس قدر چالاکی کیساتھ "ہم جنس پرستی" کو مکمل طور پر تحفظ دیدیا گیا۔"A Transgender person shall have a right to be recognised as per his or her self percieved gender identity۔
ایک ٹرانس جینڈر کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنی شناخت جس مرضی جنس کیساتھ کروائے" یعنی اس کیلئے اسکا جنسی طور پر معذور ہونا یا پیدائشی طور پر عیب زدہ ہونا ضروری نہیں۔ قانون کیلئے اس کا "میلان طبع" ہی کافی ہے۔ پاکستان کے اس قانون کے مطابق اب ایک سات بچوں کا باپ بھی محض اپنے شوق کے تحت خواجہ سرا کہلا سکتا ہے اور نادرا فوراً اسکے جنس کے خانے میں مرد کی بجائے اسے ٹرانس جینڈر یا عورت لکھ دے گا۔ اسکے بعد ایک بظاہر مرد شخص کا شناختی کارڈ عورت کا ہو گا اور وہ خاموشی سے کسی مرد شناختی کارڈ والے کیساتھ شادی کر سکے گا۔ یہی نہیں بلکہ وہ اگر آٹھ دس سال ایسی زندگی گزار کر واپس مرد بننا چاہے تو اسی وقت نادرا کو جا کر کہے کہ اب وہ خود کو مرد محسوس کرتا ہے، اس لئے اسے مرد لکھا جائے تو نادرا اسے فوراً مرد لکھ دے گا۔
یہ ہے "ہم جنس پرستی" کا قانون جسے نافذ کر کے پاکستان نے ایسے پہلے "اسلامی ملک" کا اعزاز حاصل کیا ہے جس کے تحت اب "ہم جنس پرستی" ایک بنیادی انسانی و قانونی حق بن چکا ہے۔