قومی یہودی فنڈ اس وقت مذہبی شدت پسندی، مذہبی منافرت اور غیرقانونی آبادکاری جیسے لاتعداد عالمی سطح کے جرائم میں ملوث ہونے کے باوجوداپنے مقاصد کے حصول کے لیے گذشتہ 120 سال سے کام کررہا ہے اور اس وقت دنیا کی تمام رفاحی (Charity)تنظیموں میں مرتبہ و مقام کے اعتبار سے "چار ستاروں " (Four Star)والا ہے۔ یعنی اس فنڈ نے عالمی حکومتوں، عالمی تنظیموں، انسانی حقوق کی انجمنوں سے چار ستاروں میں سے چاروں والی ریٹنگ (Rating) حاصل کر رکھی ہے۔ یہ بظاہر ایک "رجسٹرڈ خیراتی فنڈ"ہے جسے سرمایہ صرف یہودی سرمایہ دار ہی فراہم نہیں کرتے، بلکہ دنیا کی تین بڑی حکومتیں امریکہ، برطانیہ اور کینڈا بھی اسے ہر سال بہت بڑی گرانٹ دیتی ہیں۔ یہ حکومتیں اس بظاہر "خیراتی" دکھائی دینے والے فنڈ میں سرمایہ لگا کر اس سے مختلف ممالک میں اپنے خفیہ مقاصد بھی حاصل کرتی ہیں۔ امریکہ کے "قومی یہودی فنڈ" کا ایک بہت بڑا سکینڈل 1996ء میں اسوقت سامنے آیا جب یہ معلوم ہوا کہ گذشتہ تیس سالوں میں امریکہ سے اکٹھی کی جانے والی امداد اور سرکاری گرانٹ کا صرف 21فیصد ہی اسرائیل پہنچتا ہے، جبکہ باقی پیسہ تو جنوبی امریکہ کے ممالک میں قومی یہودی فنڈ کے دفاتر کو بھیجا جاتا رہا ہے۔ یہی وہ تیس سال تھے جب امریکہ ان تمام ممالک میں کیمونزم کے خلاف سرد جنگ لڑ رہا تھا۔ اتنے بڑے سکینڈل کو امریکہ میں موجود یہودی سرمائے اور میڈیا میں موجود مضبوط یہودی لابی نے "قومی مفاد" اور "قومی راز" کے نام پر دبا دیا۔ برطانیہ میں یہ فنڈ 38سال بعد 1939ء میں قائم ہوا۔
برطانیہ کے تمام وزرائے اعظم اس یہودی قومی فنڈ کے اعزازی سرپرست (Honorary Patrons) ہوتے رہے ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون نے اسے ایک مذہب اور ایک ملک سے متعلق تنظیم قرار دے کر استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسرائیل کی حکومت نے اسکے اس اقدام کو یہودیوں سے نفرت (Anti Semitism) سے تعبیر کرتے ہوئے اس کے بعد کسی بھی برطانوی سیاستدان کو اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ یہودی قومی فنڈ کا حصہ بن سکے۔ کینڈا میں یہ فنڈ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ جیتنے کے بعد بنایا گیا۔ کینڈا سے اس فنڈ کے لیے 15ملین ڈالر اکٹھے ہوئے، جن سے یروشلم میں 1700ایکڑ اراضی پر "کینڈا پارک"بنایا گیا۔ یہ پارک اس زمین پر بنایا گیا جو اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کے حکم پر تین فلسطینی گاؤں بلڈوز کرکے حاصل کی گئی تھی۔ قومی یہودی فنڈ کامرکزی دفتر یروشلم میں واقع ہے، عالمی سطح پر اس کا مرتبہ و مقام ایک بہت بڑی "خیراتی تنظیم" کا ہے، جس کے اثاثے تقریباً 15ارب ڈالر ہیں، ہرسال تقریباً 5سو ملین ڈالر کی"فنڈ ریزنگ"کی جاتی ہے۔ اس کے تمام پراجیکٹس کے سالانہ اخراجات 511ملین ڈالر ہیں۔ پوری دنیا میں اس تنظیم کے صرف 950ملازمین ہیں اور اس تنظیم کی ایک سو سالہ کارکردگی حیران کن ہے۔
1839ء سال پہلے اس خطے سے ذلیل و رسوا ہو کر نکالے گئے یہودیوں کو گیارہ اپریل 1909ء میں سب سے پہلے چھیاسٹھ لوگوں کو آباد کرنا شروع کیا اور آج "فنڈ" کی ایک سو گیارہ سالہ محنت کہ وجہ سے وہاں ستاسٹھ لاکھ بہتر ہزار (67، 72، 000) یہودی آباد ہو چکے ہیں اور ان کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ تمام غیرقانونی، غیر اخلاقی اور عالمی قوانین کی دھجیاں بکیھرتا ہوا آبادکاری کا سلسلہ، تمام بڑی عالمی قوتوں کی نہ صرف نظروں کے سامنے ہو رہا ہے، بلکہ اس سارے عمل کو ان کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ یہودی قومی فنڈ تو صرف ایک خیراتی ادارے کے روپ بہروپ میں کام کرنے والا ادارہ ہے، لیکن یروشلم اور اس کے گرد و نواح کی مقدس سرزمین پر واپسی اور اس کے لیے تمام مالی، عسکری، انتظامی اور خفیہ ذریعوں کو استعمال کرنے کے لیے اس فنڈ کی ہم پلہ ایک اور تنظیم بھی بنائی گئی ہے جس کا نام "ایلاد"(Elad)ہے۔ ایلاد عبرانی زبان میں "حئی و قیوم" کو کہتے ہیں، یعنی ہمیشہ قائم رہنے والا خدا۔ یہ تنظیم خالصتاً یروشلم کے مقدس شہر میں یہودیوں کی آبادکاری کے لیئے بنائی گئی۔
"ایلاد" اس کا مقبولِ عام نام ہے، جبکہ اس کا اصل اور رجسٹرڈ نام "IR David"فاؤنڈیشن ہے۔ یہ نام ہسپانوی زبان کا ہے۔"IR" کا مطلب ہے "چلو چلیں " اور ساتھ ہی داؤد علیہ سلام کا نام یعنی "چلو چلیں داؤد کی سمت"۔ اس تنظیم کا ہسپانوی زبان میں نام اس لیے رکھا گیا تھا، کیونکہ یہودی یہ سمجھتے ہیں ان کی دوہزار سالہ دربدری کی تاریخ میں سب سے سنہری اور پرسکون دور مسلمانوں کے سپین کا تھا، لیکن پھر ان پر مصیبتوں کے پہاڑ بھی اسی سپین میں ٹوٹے جب سپین پر عیسائیت کا غلبہ ہو گیا۔ اسی سپین سے ایک یہودی ربائی اور تاجر خاندان ان ہزاروں یہودیوں کے ساتھ اسوقت ملک چھوڑ گیا، جب 31مارچ 1492ء کو کیتھولک چرچ آف سپین اور فرڈنیڈ 11آف آرگون نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ تمام یہودی چار ماہ کے اندر 31جولائی تک سپین سے نکل جائیں۔ یہ خاندان میوچس (Meyichas)فیملی کے نام سے مشہور تھا۔ یہودی سپین سے نکل کر زیادہ تر خلافت عثمانیہ کے مشرقی یورپی علاقوں میں آکر پناہ گزین ہو ئے تھے، لیکن یہ خاندان سپین سے بے دخلی کے بعدسیدھا یروشلم شہر کی دیوار کے بیرونی حصے پر موجود ایک پہاڑی پر آباد ہو گیا تھا۔ اس خاندان کے وہاں آنے کے تین سو سال بعد 1873ء کے آس پاس اکّا دکّا یہودی خاندان بھی وہاں آکر آباد ہونا شروع ہوگئے۔
1936ء میں فلسطین پر برطانوی قبضے کے خلاف بغاوت شروع ہوئی جو مسلسل تین سال چلتی رہی۔ فلسطینی عوام کی قیادت مفتی اعظم امین الحسینی اور برطانوی افواج کی قیادت جنرل آرتھرواش ہوپ کر رہا تھا۔ برطانیہ نے بغاوت کے دوران یروشلم شہر کے اس پہاڑی نما سرحدی علاقے پر آباد یہودیوں کو فوراً نکل جانے کے لیے کہا، کیونکہ یہودی براہ راست نشانہ بھی بن سکتے تھے۔ ان نکالے جانے والوں میں میوچس خاندان بھی شامل تھا۔"ایلاد"فاؤنڈیشن 1986ء میں قائم ہوئی جس کا بنیادی مقصدمیوچس خاندان کا گھر اور ایسے دیگر تمام گھروں کو دوبارہ خرید کریروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا کام تیزی سے شروع کرنا تھا۔ یہودی فنڈ نے یروشلم شہر کے اپنے تمام پراجیکٹ "ایلاد" کے حوالے کر دیئے۔"ایلاد"س تنظیم نے بھی اپنے بظاہر مقاصد، سیاحت، تعلیم اور آثار قدیمہ ہی رکھے ہوئے ہیں تاکہ دنیا بھر کو یہ ایک امن پسند تنظیم نظر آئے۔ اس تنظیم کی فنڈنگ قومی یہودی فنڈ کی طرح صاف اور شفاف بھی نہیں ہے۔ ایک رپورٹ جو اسرائیلی اخبار "Haartz"میں شائع ہوئی ہے، اس کے مطابق "ایلاد" کو 2006ء سے 2013ء تک 115ملین ڈالر ملے جو ان آف شور کمپنیوں نے جمع کروائے تھے، جو مختلف جزیروں میں سرمایہ داروں نے ٹیکس چوری کرنے کے لیے بنائی ہوتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں کے مالکان کا نام و پتہ صیغہ راز میں رہتا ہے۔
"ایلاد" کا کمال اور چالاکی دیکھیں کہ یروشلم میں زمینوں کی خریداری کے لیے اس نے جو کارندے یعنی "مڈل مین" یا "بروکر" رکھے ہوئے ہیں وہ سب مسلمان ہیں۔ کیونکہ یروشلم کے "وقف" قانون کے تحت مسلمان اپنی سرزمین کسی غیر مسلم کو نہیں بیچ سکتا۔ یروشلم کے یہ مسلمان "بروکر" اور "مڈل مین" اس وقف قانون سے "کھلواڑ" (Play with)کرکے زمین ایلاد کو بکواتے ہیں۔ اس کے بعد اس زمین پر یہودیوں کی بستیاں تعمیر کی جاتی ہیں۔ ایلاد کی پینتیس سالہ کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ اس وقت یروشلم اور مغربی کنارے پر 440یہودی کالونیاں بن چکی ہیں جن میں پانچ لاکھ یہودیوں کو یورپ سے لاکر آباد کیا جا چکا ہے۔ ان یہودیوں کے تحفظ کے لیے وہاں 565 چیک پوسٹیں قائم ہیں جن پر اسرائیلی سپاہی روز مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور یہ تمام کی تمام آبادیاں اقوام متحدہ کی قرار داد 2334کے خلاف بنی ہوئی ہیں اور بنتی چلی جا رہی ہیں۔ (جاری)