کس قدر حیران کن بات ہے کہ افغانستان میں عالمی طاقتوں کو شکست دینے کے بعد جس دن سے اس بات کا امکان بڑھتا چلا جارہا ہے کہ اب یہاں طالبان کا اقتدار آنے والا ہے، اس دن سے دنیا بھر میں ان کی آمد سے پہلے ایک ایسا خوف پھیلایا جارہا ہے جیسے اچانک کوئی وبا پھوٹنے والی ہو۔ مگر افغانستان میں اسکے بالکل برعکس عالم یہ ہے کہ بیس سالہ جنگ کے خاتمے پر افغانستان میں موجود تقریباً تمام طبقات طالبان کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال اسماعیلی اقلیت کی ہے، جن کی تعداد افغانستان میں صرف ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے اور ان کی اکثریت دنیا کے سب سے اہم تزویراتی (Strategic) "واخان" کاریڈور میں آباد ہے،۔ جب طالبان نے افغانستان میں علاقوں پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنا شروع کیا تو انہوں نے اپنی شمالی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیئے سرحدی علاقوں پر خصوصی توجہ دی۔ اس مرحلے پران کا خیرمقدم کرنے والوں میں اسماعیلی پیش پیش تھے۔ واخان ضلع میں تو صرف چار طالبان نمائندوں کی آمد نے ہی انہیں پورے اسماعیلی ضلع پر اختیار دے دیا۔
خطے کا دوسرا بڑا ملک اورا فغانستان کا پڑوسی، ایران ہے۔ ایران نہ صرف پڑوسی ہے بلکہ 637عیسوی میں سیدنا عمر ؓ کی فتح ایران تک افغانستان اس بڑی مملکتِ فارس کا حصہ بھی رہا ہے۔ عباسی خلافت کے زوال کے ساتھ ہی افغانستان میں مغلوں، غزنویوں، غوریوں اور ترکوں میں اقتدار میں رسہ کشی شروع ہوئی۔ اس رسہ کشی اور جنگ وجدل میں ڈھائی سو سالہ مغل اور صفوی بادشاہوں کی آپس میں کشمکش بہت خوفناک تھی کیونکہ دونوں مختلف مسالک سے تعلق رکھتے تھے۔ صفوی شیعہ تھے اور مغل سُنّی اور یہ کشمکش آج بھی نظر آتی ہے۔ ایران میں آیت اللہ خمینی کے انقلاب کے چند ماہ بعد ہی چونکہ روس افغانستان میں داخل ہوگیا تھا اس لیئے ایران نے جو اپنے تازہ تازہ رابطے افغانستان میں موجود شیعہ گروہوں سے تعلق استوار کئے تھے وہ جہادِ افغانستان میں بہت کام آئے۔ آیت اللہ خمینی کا ایران اگرچہ امریکہ کے ساتھ حالتِ جنگ میں تھا لیکن افغانستان میں اس کی مدد سے بننے والی حزبِ وحدت ان سات جہادی تنظیموں کا حصہ تھی جو امریکیوں اور یورپ کی قوتوں سے مدد لے کر سوویت یونین کے خلاف جہاد کر رہی تھیں۔ سوویت یونین کے جانے کے بعد حزبِ وحدت شمالی اتحاد کا حصہ بن گئی، جس کی لڑائی حکمت یار کی حزبِ اسلامی سے تھی۔
جیسے ہی 1996ء میں طالبان اقتدار میں آئے تو حزب وحدت چونکہ شمالی اتحاد کا حصہ تھی اس لیئے وہ بھی طالبان کے مخالف لڑنے لگی۔ یہاں دونوں جانب قتل و غارت کی ایک طویل داستان ہے، لیکن موجودہ فتح کے بعد لگتا ہے اب یہ سب باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے امریکہ کے افغانستان میں آنے سے پہلے کہانی کچھ اور تھی اور اب کچھ اور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد جب طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو فوری طور پر ایران نے بظاہر مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی، مگرساتھ ہی خفیہ طور پر طالبان کی حکومت کو ختم کرنے میں ایرانی خفیہ ایجنسی اور پاسداران کا بہت بڑا ہاتھ رہا۔ ایران نے تقریباً پندرہ سال افغان حکومت اور نیٹو افواج کا اسطرح خاموشی سے ساتھ دیاکہ پس پردہ طالبان سے بھی رابطہ بڑھاتا رہا۔ ایک اندازے کے مطابق، 2016ء تک ان تمام غیر ملکی طاقتوں کو جو افغانستان میں لڑ رہی تھیں، یہ بخوبی اندازا ہوگیا تھا کہ وہ طالبان سے کسی طور پر یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے اور اب افغانستان کا مستقبل صرف اور صرف طالبان کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے بھی طالبان سے اپنے تعلقات مزید بہتر طور پر استوار کرنا شروع کردیے۔
افغان آرمی کے سربراہ شریف یفتالی نے ستمبر 2017ء میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران مغربی افغانستان میں طالبان کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ اسی زمانے میں ایرانی سرحد پر واقع فرح صوبے کے گورنر عارف شاہجہان نے کہا تھا کہ علاقے میں طاقتور طالبان تو صرف ایرانی طالبان ہیں۔ ملا محمد عمرؒکے انتقال کے بعد طالبان کے نئے امیر ملا اختر منصور کو یوں تو نوشکی کے پاس احمد وال میں ڈرون حملے میں شہید کیا گیا تھا، لیکن وہ اصل میں ایران سے پاکستان آرہا تھا، جہاں اس کا خاندان مقیم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کو آج افغانستان میں طالبان کی حکومت آجانے سے بظاہر کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورہا۔ کیونکہ ایران نے گذشتہ بیس سالوں میں خود کو دونوں جانب زیادہ قابلِ قبول بنائے رکھا۔ مگر ایک معاملہ بہت حساس ہے اور وہ یہ کہ اس خطے میں ایران پراکسی (Proxy)کے ذریعے مختلف ملکوں یعنی شام، عراق، لبنان، یمن اور بحرین وغیرہ میں لڑ رہا ہے، اس لیئے وہ کسی طور پر نہیں چاہتا کہ افغانستان میں بنائی ہوئی قوت و طاقت یا پراکسی جو "حزبِ و حدت" کے طور پر موجود ہے وہ طالبان سے لڑائی میں تباہ ہوجائے۔ اس لیئے وہ اسوقت دونوں کے درمیان پل کا کام کررہا ہے۔ ایران 2009ء سے پہلے تک طالبان کو سعودی عرب کے زیر سایہ سمجھتا تھا، لیکن جب اسی سال ریاض میں طالبان کے سیاسی نمائندے طیب آغا اورسعودی شہزادے مقرن بن عبدالعزیز کی شدید گرما گرمی ہوئی اور طالبان نے سعودی عرب کی مذاکرات کیلئے لگائی گئی کئی شرائط کو ماننے سے انکار کر دیاتو طالبان سعودی عرب تعلق یکسر ختم ہوکر رہ گیا۔
سعودی عرب کی شرائط میں سب سے اہم شرط یہ تھی کہ طالبان فوری طور پر القاعدہ سے لاتعلقی کا اعلان کریں۔ جس پر طالبان نے کہا تھا کہ ہم امریکی افواج کے ساتھ انخلا کے معاہدے کے بعد ہی اس کا اعلان کریں گے اور دنیا شاہد ہے کہ طالبان نے ایسا ہی کیا۔ لیکن سعودی عرب کایہ مطالبہ طالبان سفارت کاری میں بڑا موڑ ثابت ہوا۔ پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا فوراًریاض پہنچا اور وہاں اس نے شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز سے انتہائی سخت لہجے میں کہا کہ" آپ نے ہم سے مشورہ لیئے بغیر ایسا کیوں کیا"۔ اب اسکے نتائج کے آپ خود ہی ذمہ دار ہوں گے"۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا اس دن کے بعدسے سعودی عرب افغان امن مشن سے مکمل طور پر نکل گیا اور یوں ایران نے خاموشی سے طالبان کے ساتھ اپنا خفیہ راستہ بنا لیا۔ طیب آغا کو سعودی عرب سے نکال دیا گیا اور ساتھ ہی اس پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ ایران سے ماہانہ دس ہزار ڈالر وصول کرتا ہے۔ اس کے بعد طالبان نے جرمنی اور قطر کے توسط سے امریکہ سے اپنے مذاکرات کا آغاز کر دیا۔
طالبان بھی ایران پر اس لیئے مکمل بھروسہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ افغان حکومت کے ساتھ ایران کے عسکری سطح پر تعلقات بھی ہیں اور ایران افغان حکومت کی بھرپور مدد بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 29نومبر 2010ء کو جرمنی میں طیب آغا نے امریکی نمائندوں کو کہا "ایران افغانستان کا سب سے خطرناک پڑوسی ہے"۔ لیکن اپنی کامیاب سفارتکاری سے ایران دونوں جانب تعلقات بنائے ہوئے تھا۔ وہ افغانستان میں قائم حکومت کے ذریعے امریکیوں تک افواہیں پھیلاتا اور خبریں پہنچاتا رہتا تھا۔ اس افواہوں سے وہ دہرا مقصد حاصل کرتارہا۔ کسی افواہ سے طالبان کے دل میں جگہ بناتا اور کسی سے امریکی سی آئی اے کہ قربت حاصل کرتا۔ (جاری ہے)