شاہ محمود قریشی کے لہجے میں یہ کھنک، یہ جرأت کس نے بخشی کہ وہ پاکستان کی سینٹ میں کھڑے ہو کر ببانگِ دہل یہ کہے کہ اب اس سرزمین پر کوئی امریکی اڈہ نہیں دیا جائے گا۔ کیا پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد سے لے کر آج تک یہ لہجہ اختیار کر سکتا تھا۔ گذشتہ بیس سال گنگ زبانوں اور مصلحت کوش لہجوں کے گواہ ہیں۔ یہ سب ان مردانِ حّرکی قربانیوں اور جہاد کی دولت کے امین طالبان کی مسلسل جدوجہد، جنگ اور جہاد کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے لیڈروں کو بھی ایسی زبان عطا ہوئی، ورنہ یہ تو بولنے سے پہلے اپنے لہجوں کی منظوری بھی امریکہ سے لیا کرتے تھے۔ کون نہیں جانتا اور کسے نہیں یاد کہ جب امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد یہ الفاظ بولے تھے کہ "فیصلہ کر لو کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے دشمن" تو اس فقرے کی گونج کے بعد پوری ملّت اسلامیہ چپ سی ہو کر رہ گئی تھی۔ میرے ملک میں "غیرت و حمیت" کے متوالے دانشور، ادیب، کالم نگار اور اینکرز تک مصلحت کوشی کے نام پر بزدلی کا لبادہ اوڑھے نظر آتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ مخالف بولنے والے کو "غیرت بریگیڈ" کہا جاتا تھا۔ اگر ان بیس سالوں کے ٹی وی پروگراموں پر وزرائ، ریٹائرڈ جرنیلوں، اعلیٰ سطحی دانشوروں اور سیاسی مبصروں کی گفتگو نکال کر ایک بہت بڑی کتاب (Anthology) مرتب کی جائے تو اس کا عنوان ایک ہی بنتا ہے "ٹیکنالوجی کے سامنے سجدہ ریز"۔
ہر روز اخبارات کے صفحات امریکی بالادستی کے افسانوں سے بھرے ہوتے اور ہر روز شام ہوتے ہی "میک اپ زدہ" اینکرز اپنی دکان سجا کر بیٹھ جاتے، پروگراموں میں ایک ہی سودا بیچا جاتا کہ پاکستان کو دہشت گردی کی اس جنگ میں ان افغان طالبان سے دور کیسے رہنا ہے۔ وہ افغان طالبان جو اس وقت "بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق"کی تصویر تھے۔ کون سا دشنام کا تیر تھا جو پاکستانی میڈیا نے ان پر نہ چلایا ہو، کون سی نفرت کی زبان تھی جو ان کے خلاف استعمال نہ کی گئی ہو۔ یہ تو وہی شاہ محمود قریشی ہیں کہ وزیر خارجہ تھے، جب ہیلری کلنٹن پاکستان آئیں۔ امریکی اس وقت تک اپنے تئیں جنگ جیتے بیٹھے تھے۔ لاہور میں بادشاہی مسجد کا دورہ ہیلری کے شیڈول میں شامل تھا۔ رچرڈ ہالبروک سمیت بہت بڑا امریکی وفد اس کے ساتھ وہاں پہنچا۔ امریکہ سے ساتھ آنے والی سکیورٹی ٹیم نے خطرات کی وجہ سے بادشاہی مسجد کے اندر صرف چار لوگوں کو جانے کی اجازت دی۔ ہیلری کلنٹن، شاہ محمود قریشی، خطیب بادشاہی مسجد عبد الخبیر آزاد اور مجھے بحیثیت ڈائریکٹر جنرل والڈ سٹی۔ میں نے دراصل مسجد کے تعمیراتی حسن اور تاریخی پس منظر سے ہیلری کلنٹن کو آگاہ کرنا تھا، اس لیئے مجھے ساتھ رکھا گیا۔ علامہ اقبال کے مزار پر فاتحہ سے آغاز ہوا۔ ایک عام سی ایصالِ ثواب والی فاتحہ پڑھی گئی۔ مسجد کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے، ہیلری کلنٹن نے سوال کیا "مولانا نے کیا دعا مانگی تھی"، اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا "اس نے پاکستان اور امریکہ کی ایسی دوستی اور محبت کے لیئے دعا کی جو قیامت تک قائم رہے"۔
ہیلری کلنٹن نے حیرت سے سر ہلا کر میری طرف دیکھا، جو سرکاری ذمہ داری کے اس عالم میں اپنی ہنسی کو بمشکل ضبط کر رہا تھا۔ میری اس کیفیت کے ازالے کیلئے یا شاید ویسے ہی مجبوراً قریشی صاحب بولے "ہماری مساجد میں یہ دعا عموماً مانگی جاتی ہے"۔ آج کئی سال بعد جب میں، سینٹ میں انہیں گرجتے، برستے اور یہ اعلان کرتے سن رہا تھا کہ "یہ وہ والا پاکستان نہیں ہے"، تو میں سوچ رہا تھا کہ اس مملکتِ خدادادپاکستان میں یہ لوگ آج بھی ان بدلتے ہوئے حالات کو پاکستان کی اپنی ہی "حکمت عملی" کی فتح قرار دیتے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنما، دفاعی تجزیہ کار، سیاسی مبصر، یہاں تک کہ فوجی قیادت بھی "موجودہ حالات " کو پاکستان کی درست افغان پالیسی کا نتیجہ ہی سمجھتی ہے۔ پاکستان کی یہی" درست پالیسی" تو ایسی تھی، جس کی تعریف و توصیف مدتوں ہر سال امریکی کانگریس میں پیش ہوتی رہی۔ کانگریس ریسرچ سروس (CRS) کی لائبریری میں یہ رپورٹیں آج بھی موجود ہیں۔ ان میں سے 3جولائی 2003ء کو اپ ڈیٹ ہونے والی رپورٹ خوفناک حقائق لیئے ہوئے ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان نے امریکی افواج کو تین ہوائی اڈے فراہم کئے تھے، جہاں سے گذشتہ بیس ماہ میں ستاون ہزار دفعہ امریکی جہاز اڑے اور انہوں نے طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔ یعنی روزانہ تقریباً 95دفعہ امریکی جہاز پاکستانی اڈوں سے افغانستان کی جنگ میں شرکت کے لیئے جاتے تھے۔ اس دور میں ہر کوئی بزدلی کا لبادہ اوڑھے یہی مشورہ دیتا پھرتا تھا، کہ پوری دنیا میں کوئی بھی امریکی قوت اور ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہر کوئی اس بت کے سامنے سجدہ ریز تھا ماسوائے ان سرفروش پچاس ہزار طالبان کے جو اپنے قائد ملا محمد عمرؒ کی قیادت میں شوقِ شہادت کی آرزو دل میں بسائے ہوئے تھے۔
یہی وہ دن تھے جب ملا محمد عمرؒ نے اپنا ایک خفیہ وفد پاکستان کے اہم لوگوں سے ملاقات کے لیئے بھیجا۔ یہ وفد ان لوگوں سے ملاجو اتنی حیثیت رکھتے تھے کہ مشرف حکومت پر اثرانداز ہو کر پاکستان کو طالبان کے خلاف براہ راست امریکہ کی مدد کرنے سے روک سکیں۔ اس وفد میں جلال الدین حقانی بھی شامل تھے۔ یہ وفد2003ء میں سابق آرمی جنرل اسلم بیگ سے بھی ملا۔ جنرل اسلم بیگ نے اس ملاقات کے بارے میں مکمل تفصیل ایک انٹرویو میں بتائی ہے۔ انہوں نے کہا "جب یہ وفد میرے پاس آیا تو میں نے کہاکہ دیکھو کہ تمہاری ایک نسل تباہ ہو گئی ہے، روسیوں سے لڑتے ہوئے، دوسری نسل تباہ ہوئی ہے آپس میں لڑتے ہوئے، اب تم تیسری جنگ کی تیاری کر رہے ہو۔ انہوں نے کہا ہم پرانے مجاہدین سے مل کر آئے ہیں اور ہم اس بار دوبارہ جنگ کریں گے۔ انہوں نے میرا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا جب آپ واپس جائیے تو ملا محمد عمر کو میرا پیغام دیں اور انہیں بتائیں کہ ایک یہ بھی راستہ ہے کہ آپ امریکی ایجنڈے پر عمل کریں، جب جمہوریت ہو گی تو حکومت بھی آپ کی ہوگی، آپ اکثریت میں ہو، اپنی تقدیر کا مستقل فیصلہ آپ خود کریں گے۔ دو ماہ کے بعد جواب آتا ہے، ذرا سنیے گا اور غور کیجئے گا، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم متحد ہو کر لڑیں گے اور انشاء اللہ ہم جیتیں گے۔ اللہ کا حکم ہے کہ تمہارا دشمن خواہ کتنا ہی طاقتور ہو، بڑا ہو، اگر تم ثابت قدم ہو تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا، یہ اللہ کے الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ ملا عمر نے دہرائے تھے کہ ہم لڑیں گے اور جیتیں گے اور ہمارا دشمن پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے لیئے ہماری قومی غیرت، ہماری قدریں اور ہمارے اصول، اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ جو دشمن ہمارے ملک میں بیٹھا ہوا ہے، اس کے ہوتے ہوئے ہم اس کے منصوبے پر کام کریں، کبھی نہیں کریں گے، جب تک کہ اس کا ایک ایک بندہ یہاں سے نکل نہیں جاتا۔ تیسری بات یہ کہ ہمیں دکھ ہے کہ پاکستان ہمارے دشمنوں کے ساتھ مل کر آج ہمارے خلاف جنگ کررہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم پاکستان کواپنا دشمن نہیں سمجھتے، وہ ہمارا دوست ہے دوست رہے گا، کیونکہ اسکی اور ہماری سلامتی کے تقاضے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ہم الگ ہو کر کسی قابل بھی رہیں گے "۔ یہ اس مومن "ملا محمد عمر مجاہدؒ"کی فراست ہے کہ جس کی وجہ سے امریکہ کو افغانستان میں ذلت آمیز شکست ہوئی اور اسی ملا محمد عمرؒ کی قیادت کا معجزہ ہے کہ امریکہ کا اسقدر ساتھ دینے کے باوجود پاکستان اور طالبان کے درمیان اسلامی اخوت کا رشتہ آج بھی برقرار ہے۔