Monday, 02 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Lashon Par Siasat

Lashon Par Siasat

جب بھی ملکی معیشت پٹری پر چڑھنے لگتی ہے توجانے کیوں بانی پی ٹی آئی کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتے ہیں۔ 2013ء سے 24نومبر 2024ء تک کی تاریخ گواہ کہ بانی پی ٹی آئی ہمیشہ موقعے کی تاڑمیں رہتے ہیں۔ ستمبر 2014ء میں چین کے صدرشی جن پنگ 46ارب ڈالرکا پاک چین راہداری منصوبہ لے کر پاکستان تشریف لانے والے تھے لیکن اُس وقت بانی اپنے سیاسی کزن مولانا طاہرالقادری کے ساتھ ڈی چوک پر دھرنا دیئے بیٹھے تھے جس کی وجہ سے دورہ مؤخرہوا۔

2016ء تک پاکستانی معیشت کے قدم مضبوطی سے جم چکے تھے جس کی بیّن مثال یہ ہے کہ پاکستان نے IMFکو خُداحافظ کہہ دیاتھا، تحریکِ طالبان پاکستان کی دہشت گردی کامکمل خاتمہ ہوااور اندھیروں میں ڈوبا پاکستان وافربجلی پیدا کرنے کے قابل ہوا۔ پھرجب پانامہ پیپرزکا غلغلہ اُٹھاتو باوجودیکہ کہ میاں نوازشریف کااِن پیپرز میں نام تک نہ تھا، بانی پی ٹی آئی، اعلیٰ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی ملّی بھگت سے 3بار کے منتخب وزیرِاعظم کوتاحیات نااہل قرار دے دیاگیا۔ ایسے ہی فیصلوں کی بناپر پاکستانی عدلیہ 130ویں نمبر پر پہنچی۔

میاں نوازشریف کونااہل کرنے کے شوق میں اسٹیبلشمنٹ نے ایک ایسا فیصلہ کیاجس نے پاکستان کو عشروں پیچھے دھکیل دیا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتے ہوئے جس بھونڈے اندازسے بانی کے سَرپر وزارتِ عظمیٰ کاتاج سجایا وہ تاریخِ پاکستان کاسیاہ باب ہے۔ اُس کی 3سال 7ماہ 18دن کی حکومت میں تباہیوں کی ایسی داستانیں رقم ہوئیں جن سے ہم آج تک نہیں نکل سکے۔

سابق آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے مطابق اُنہیں 2021ء کے اوائل ہی میں ادراک ہوگیا تھاکہ بانی کابطور وزیرِاعظم انتخاب اُن کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ جب فوج کا دشتِ شفقت بانی کے سَرسے اُٹھاتو وہ پنچھی جنہیں فوج نے گھیرگھار کے بانی کے ہمراہ کیاتھا، پھُرسے اُڑگئے اور 10اپریل 2022ء کو تحریکِ عدم اعتمادکے ذریعے بانی کی حکومت کاخاتمہ ہوا۔ اتحادی حکومت کے حصے میں خالی خزانہ اور تباہ حال معیشت آئی۔ اُس وقت بھی بانی کوچین نہ آیااور اُس نے خیبرپختونخوا کے وزیرِخزانہ سے IMFکو خط لکھوایا کہ اگر حکومتِ پاکستان کوقرض کی اگلی قسط جاری کی گئی تووہ اِس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ یہی نہیں بلکہ IMFکے ہیڈکوارٹر کے سامنے احتجاج بھی کرایا گیا۔

24نومبر کے لیے بانی نے آخری کال دی جس پر علی امین گنڈاپور نے اعلان کیاکہ اگر اُدھرسے ایک گولی آئے گی توہم 10گولیاں چلائیں گے۔ خیبرپختونخوا ہاؤس کی انیکسی میں براجمان بانی کی اہلیہ بشریٰ بیگم نے 9منٹ 27سیکنڈ کے ویڈیوخطاب میں عمران داروں کوتحریک دی کہ اب بانی کوجیل سے چھڑواکر ہی واپس آئیں گے۔ بانی نے 24نومبر کا انتخاب محض اِس لیے کیاکہ اِسی تاریخ کوبیلاروس کے صدر اپنے وفدکے ہمراہ پاکستان کے دورے پر تشریف لارہے تھے۔

24نومبر کوجب احتجاجی قافلہ اسلام آبادکی طرف رواں ہونے لگاتو بشریٰ بیگم نے ضدکی کہ وہ جلوس کے ساتھ جائے گی۔ اِس دوران بشریٰ بیگم اورعلی امین گنڈاپور کے درمیان تُوتُو میں میں بھی ہوئی لیکن بانی کی اہلیہ ہونے کافائدہ اُٹھاکر بشریٰ بیگم اور علی امین گنڈاپور کی مشترکہ قیادت میں یہ احتجاجی جلوس سرکاری مشینری اور سرکاری عہدیداروں کے ساتھ نکلا۔ 24سے 26نومبر تک یہ احتجاجی جلوس رکاوٹیں ہٹاتا ڈی چوک اسلام آبادسے ایک کلومیٹر کے فاصلے پرآن پہنچا۔ اِن 3دنوں میں شَرپسندوں نے پتھروں، غلیلوں اور آنسوگیس کے گولوں کا اندھادھند استعمال کیا۔ یہی نہیں بلکہ گولیاں بھی برسائی گئیں۔

ایک شرپسند نے اپنی گاڑی سے سڑک پرکھڑے رینجرزکو کچل ڈالا جس سے رینجرز کے 3اور پولیس کاایک جوان شہید ہوا۔ ڈی چوک تک پہنچتے پہنچتے رینجرا اور پولیس کے 6جوان شہید ہوچکے تھے جبکہ 200سے زائد زخمی جن میں سے کئی کی حالت مخدوش ہے۔ 26نومبر کورات لگ بھگ 11بجے رینجرز اور پولیس نے شَرپسندوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کیااور تقریباََ آدھے گھنٹے میں سارا مجمع اپنی گاڑیاں، موٹرسائیکلز، جوتے اور کپڑے چھوڑکر فرار ہوگیا۔ اِس دوران بہت سی گرفتاریاں عمل میں آئیں جن میں 37مسلح افغانی بھی شامل ہیں۔ بشریٰ بیگم اور علی امین گنڈاپور احتجاجیوں کوبے یارومددگار چھوڑکر ایک ہی گاڑی میں فرار ہوگئے۔

27نومبر کوتحریکِ انصاف کے رَہنماؤں نے شور مچادیا کہ رینجرز اور پولیس نے احتجاجی جلوس پرسیدھی گولیاں برسائیں جس سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ ہلاکتیں 2سے شروع ہوکر 200تک پہنچیں۔ شیرافضل مروت نے کہا 50ہلاک ہوئے، سلمان اکرم راجہ کے مطابق 20اور شیخ وقاص اکرم کے مطابق 100سے زائد ہلاک ہوئے۔ لطیف کھوسہ نے توکمال ہی کردیا۔ اُس نے کہاکہ 278 افراد ہلاک ہوئے۔ حیرت مگریہ کہ پولیس اور رینجرزکے ایکشن کے صرف آدھے گھنٹے بعد تقریباََ تمام میڈیا رپورٹر وہاں پھرتے رہے لیکن کہیں خون نہ لاش۔

وہ سینکڑوں لاشیں کہاں گئیں؟ اُنہیں آسمان نگل گیایا زمین کھاگئی۔ آخر اُن کے لواحقین بھی تو ہوں گے لیکن کوئی نام نہ محلہ، خاندان نہ بہن بھائی اور ماں باپ، کوئی یاردوست نہ شناختی کارڈ۔ پھر کیایہ سمجھ لیاجائے کہ بشریٰ بیگم کی طرح وزیرِداخلہ محسن نقوی کے پاس بھی بہت طاقتور موکل ہوں گے جنہوں نے یہ ساری لاشیں اور خون پلک جھپکتے میں غائب کر دیا۔ 27تاریخ کومانسہرہ میں تحریکِ انصاف کی پولیٹیکل کمیٹی کی زوم میٹنگ میں بشریٰ بیگم بھی اچانک آن دھمکی اور آتے ہی پارٹی لیڈرشِپ کوانتہائی حقارت سے بے غیرت، بے شرم، مفادپرست اور گِدھ کہا۔

رَدِعمل میں سلمان اکرم راجہ نے بھی اُسے کھری کھری سناتے ہوئے کہاکہ وہ صرف عمران خاں کا حکم مانے گااُس کے خاندان کانہیں۔ اِس کے بعد سلمان اکرم نے تحریکِ انصاف کی کورکمیٹی اور جنرل سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ سُنی اتحادکے صاحبزادہ حامدرضا بھی مستعفی ہوئے۔ عمران خاں بشریٰ بیگم کے بارے میں ہمیشہ کہتے رہے کہ وہ غیرسیاسی خاتون ہیں لیکن بانی کی بڑی بہن روبینہ خاں نے کہاکہ مشعال یوسفزئی، بشریٰ بیگم کی نئی فرح گوگی ہے۔ پنجاب میں بُزدارار فرح گوگی کے ذریعے بشریٰ بیگم کا نظام کوچلانا سب کے سامنے ہے۔