کمال کی آوازیں ہیں۔ آج بھی سنیں تو لگتا ہے کہ کوئی روح کے تار چھیڑ رہا ہے۔ کسی بھی تعصب اور تفریق کے بغیر یہ سب کچھ خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ آخر یہ لوگ کون تھے۔ بلکہ سوال تو یہ بھی ہے کہ اتنی ملکوتی آوازیں کہاں سے لے آئیں۔
کیا قدرت کے کارخانے میں کوئی انجانا ساطریقہ ہے کہ معدودے چند انسانوں کوملکوتی آواز عطا ہو جاتی ہے۔ جو موت سے بے نیاز ہوتی ہے۔ مرنے کے ان گنت سالوں کے بعد بھی یہ مدھر آوازیں آپ کے سامنے زندہ موجود رہتی ہیں۔ علاقائی موسیقی پر ہماری توجہ بہت کم ہے۔
مگر جو خزانہ یہاں موجود ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی۔ اپنے اندر موسیقی کا ایک جہاں چھپائے بیٹھے ہیں۔ اور یہی معاملہ بٹوارے سے پہلے کا ہے۔ سریندر کور جیسی آواز، پنجاب کے فوک میوزک کی آج بھی پہچان ہے۔ طفیل نیازی، حامد علی بیلا اور عالم لوہار اپنی اپنی جگہ ایسے خوبصورت نقش ہیں جو کبھی مٹائے نہیں جا سکتے۔
سوچتا ہوں کہ کیا ان لوگوں یا ان جیسے انسانوں کے متعلق لکھنا چاہیے یا نہیں۔ اس لیے کہ ان گائکوں کو کسی کالم کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ خوشبودار پودے ہیں جو ہوا کے تال سے موسیقی کے سرکشید کر نکالتے تھے۔ مگر شاید نہ لکھنا بھی زیادتی ہو گی۔ تمام لوگوں کے نام درج کرنا تو میرے لیے مشکل ہے۔ مگرچند باکمال انسانوں کو آج کے دور میں یاد کرنا بہت ضروری ہے۔
اس لیے کہ موجودہ موسیقی اچھی تو ہے مگر اب ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر آواز کی کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر اس میں ہمیشہ ناکامی ہوتی ہے۔ خداداد صلاحیتیں کبھی انجان نہیں رہتیں۔ علاقائی موسیقی سے تھوڑی دیر کے لیے صرف نظر کر کے ذرا نصرت فتح علی خان جیسا صرف ایک قوال نکال کر لائیے۔ نصرت کی آواز پر جاپانی سائنسدانوں نے تحقیق شروع کر دی تھی کہ کیا انسانی آواز اتنے اوپر سروں میں لے جائی جا سکتی ہے۔
دل تھام کر بتایئے کہ غلام فرید صابری نے تاجدار حرم گا کر جو معیارقائم کیا ہے وہ آج کا کوئی گویا تصور بھی کر سکتا ہے۔ کم از کم میرے لیے تو یہ تقابلی جائزہ لینا ناممکن ہے۔ بلکہ بساط سے باہر ہے۔
پنجاب کی علاقائی موسیقی کی طرف واپس پلٹتا ہوں۔ سریند کور ایک عام سے نین نقش والی خاتون تھی۔ مگر آواز کا معیار بے مثال تھا۔ اسے "بلبل پنجاب" بھی کہا جاتا تھا۔ لاہور میں پیدا ہوئی۔ لاہور ریڈیو پر پہلی بار 1934ء میں گایا تو پورے برصغیر میں اپنی آواز سے لازوال ہو گئی۔ تقسیم برصغیر کے بعد دہلی پہنچی۔ تو پروفیسر جوگندر سنگھ سوڈی سے شادی ہوئی۔ سوڈی بذات خود ایک عظیم انسان تھا۔ اسے احساس تھا کہ سریندر کور کی آواز حد درجہ نایاب ہے۔
اپنی اہلیہ کو دنیا کے سامنے بطور گائکہ لانے میں سوڈی کا بہت کردار ہے۔ پھر ماسٹر غلام حیدر۔ انھوں نے سریندر کور کے سروں کو چمکا دیا۔ سوڈی بہت جلدی فوت ہو گیا۔ چن کتھا گزاری اے رات وے، لٹھے دی چادر، سڑکیں سڑکیں جاندی مٹیارے نی، ڈاچی والیا موڑ مہاروے، یہ وہ گانے تھے جو سریندر کور اور سوڈی نے مشترکہ طور پر ترتیب دیے۔ اور پھر یہ آفاقی ہو گئے۔
سریندر کور نے اپنی زندگی میں دو ہزار سے زیادہ نغمے گائے۔ اس کو جتنے ایوارڈ ملے، وہ گنے نہیں جا سکتے۔ ڈاچی والیاموڑ مہار آج بھی سنیں تو انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ اتنی سادگی اور اتنی خوبصورتی۔ سریندر کور جس سطح پر گا گئی ہے، اسے دوبارہ گانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔
ذرا عالم لوہار کی طرف نگاہ مرکوز کیجیے۔ 1928 میں گجرات میں پیدا ہونے والا یہ شخص محض تیرہ سال کی عمر میں اپنی پہلی البم ریکارڈ کروا چکا تھا۔ اس شخص کی ذہانت اور یاد داشت کا اندازہ لگایئے کہ وہ پوری پوری رات پنجابی داستانیں گا کر سناتا تھا اور ایک لفظ بھی دوبارہ نہیں بولتا تھا۔ ایک میوزک کمپنی نے عالم لوہار کو پندرہ "سنہری ڈسکس" دیں جو اس بات کا ثبوت تھیں کہ اس کے ریکارڈ حد درجہ سرعت سے فروخت ہوئے ہیں۔
عالم لوہار کا منفرد انداز اس قدر دل آویز تھا کہ انسان آج بھی حیران رہ جاتا ہے۔ پنجابی گائیکی میں "چمٹا" بجانے کے انداز نے اسے مقبولیت کی اس سطح پر پہنچا دیا جس کا عام آدمی کے لیے تصور کرنا بھی ناممکن ہے۔ اس گائک نے جگنی، سیف الملوک، قصہ یوسف زلیخا، بول مٹی دے باویا، قصہ مرزا صاحباں، قصہ ہیر، قصہ دلا بھٹی جیسے نادر مضامین کو گا کر امر بنا دیا۔
پورے ملک کے دیہاتوں میں جاتا تھا۔ میلوں پر پوری پوری رات اکیلا گاتا تھا۔ اور لوگ بت بن کر اسے سنتے رہتے تھے۔ صوفی کلام کو جس طرح عالم لوہار نے گایا ہے۔ اس طرح کسی نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔ دیہاتوں میں اسے "ہیرا" کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ کئی لوگ اسے "شیر پنجاب" بھی کہتے تھے۔ ویسے ایک بات آج تک سمجھ نہیں پایا۔ وہ لوگ جو کسی بھی لحاظ سے منفرد ہوتے ہیں۔ یا کسی بھی طرح سے عام آدمی سے برتر بھی ہوتے ہیں، ان کی اکثریت حد درجہ کم عمرکیوں لے کر آتی ہے۔ اکثریت کا عرض کر رہا ہوں۔ کے ایل سہیگل جس کو برصغیر کی قیمتی ترین آواز کہا جا سکتا ہے۔
صرف 42 برس کی عمر لے کر آیا تھا۔ 1904 میں پیدا ہوا اور 1947میں قدرت نے واپس بلا لیا۔ اور بہت سی مثالیں ہیں۔ بالکل اسی طرح عالم لوہار اپنے فن کی عظمتوں کو چھو رہا تھا۔ جب 1979میں ایک ٹریفک حادثہ کا شکار ہو گیا۔ فوت ہونے کے بعد 1979 میں ہی اسے "پرائڈ آف پرفارمنس" سے نوازا گیا۔ ویسے ہم لوگ بھی عجیب ہیں۔ ہر ایک کو مرنے کے بعد ہی "توقیر کے چبوترے " پر فائز کرتے ہیں۔ اور پھر اس کے فن اور شخصیت کے گن گانے شروع کر دیتے ہیں۔
ہم لوگ شخصیت پرستی کے پرتو سے باہر نکل ہی نہیں پائے۔ شاید یہ بت پرستی کی ہی ایک نئی شکل ہے۔ مگر یہ بات تو طے ہے کہ ہم زندگی میں کسی بھی فنکار، ایکٹر، شاعر یا اسی طرح کے تخلیق کار کی عزت بہت کم کرتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا خوش قسمت فنکار ہو، جو زندگی میں تکریم کا مستحق قرار دیا ہو۔ آج آپ کو منیر نیازی کے شعر ہر جگہ سنائے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی شاعری کے ڈنکے بجتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ موت کے بعد ہوا۔ جب تک زندہ رہے، حددرجہ بے سروسامانی کی زندگی گزارتے رہے۔
اگر پنجاب کی علاقائی موسیقی کی بات ہو تو طفیل نیازی کا نام نکھر کر سامنے آتا ہے۔ طفیل ضلع جالندھر میں پیدا ہوا۔ 1916میں۔ ان کے والد رحیم بخش بھی فنکار تھے۔ پنڈت امر ناتھ اور میاں ولی محمد نے موسیقی کی بے مثال تربیت دی۔ 1947کے بعد طفیل پاکستان گیا۔ دودھ دہی کی دکان کھول لی۔ موسیقی کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا تھا۔ شوق اسے ریڈیو پاکستان اور ٹی وی تک لے آیا۔
یہاں سے یہ ملکوتی آواز لوگوں کی توجہ کا باعث بنی۔ اس کے بعد طفیل نے واپس مڑ کر نہیں دیکھا۔ حد درجہ پرسکون اور ٹھہری ہوئی آواز کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ایک عجیب بات بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ طفیل، ذات کے حساب سے نیازی نہیں تھا۔ ان کے مرشد کا نام پیر نیاز علی شاہ تھا۔ جب پی ٹی وی کے پروڈیوسر اسلم اظہر کو یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے ماسٹر طفیل کو بلایا۔ اور ان کو مرشد کی نسبت سے طفیل نیازی کا نام دے ڈالا۔ پھر پوری زندگی، میاں طفیل یا ماسٹر طفیل، اپنے اصلی نام کی بجائی طفیل نیازی کے نام ہی سے مشہور رہا۔
گاتے وقت اکثر وہ پنجاب کا دیہاتی لباس یعنی کرتا اور لاچا پہن لیتا تھا۔ "ساڈا چڑیاں دا چنبا وے" آج بھی طفیل کی آواز کی وہ معراج ہے جسے چھونا ہر خاص عام کا کام نہیں ہے۔ "لائی بے قدراں نال یاری" اس گائک کا کامیاب شہکار ہے۔ پھر عکسی مفتی نے طفیل کو اپنے ساتھ منسلک کر لیا۔ طفیل پورا پنجاب پھرا۔ قصبوں اور دیہات میں گھومتا رہا۔ مقامی فوک موسیقی کے وہ ذخائر جمع کیے، جو اسلام آباد کے "لوک ورثہ" میوزیم میں آج بھی موجود ہیں۔
ویسے لوک موسیقی کو جمع کر کے محفوظ کرنے کا کام، عکسی مفتی کی موسیقی کے حوالے سے بہت خوبصورت کام ہے۔ مقامی دھنوں کو حکومتی سطح کا ایک پلیٹ فارم دینا حد درجہ قابل تحسین کام ہے۔ بالکل اس طرح "حامد علی بیلا" کا گایا ہوا صوفیانہ کلام "مائے نی میں کنوں آکھا" سنے بغیربات نہیں بنتی۔ یہ نغمہ آج بھی پنجابی گائیکی میں ایک بلند مقام رکھتا ہے۔
اکیلے بیٹھ کر سنیں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ امریکا میں ایک دوست نے پوچھا کہ آپ کو کون سا نغمہ امر لگتا ہے۔ میں نے اسے یوٹیوب پر حامد علی بیلا کا مشہور ترین صوفی کلام "مائے نی میں کنوں آکھا" سنایا تو وہ بے ساختہ رونے لگ گیا۔ صاحب، اس گانے میں بھی تاثر ہے اور بیلا کی آواز نے اسے لازوال بنا دیا ہے۔
مقامی موسیقی کی قدر کرنی چاہیے۔ کئی ایسے گمنام فنکار ہیں جو افتاد زمانہ کی بدولت شہرت نہ پا سکے۔ مگر جو سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے، اس کی تکریم ہونی چاہیے۔ کلام اور گائک کا احترام کرنا چاہیے۔ میری نظر میں یہ افراد گائیکی کی عزت ہیں۔ پنجابی موسیقی کی پہچان ہیں۔ اس زبان کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے والی آفاقی آوازیں ہیں۔