ابوالنصر فارابی نے اپنی ایک نظم میں لکھا ہے۔ "میں اپنے گھر کے گوشۂ تنہائی میں بیٹھ گیا ہوں، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ زمانہ اپنے سر گھٹنوں میں جھکائے ہوئے ہے۔ محبت کاکوئی فائدہ نہیں ہے جتنے بھی بڑے بڑے لوگ ہیں، وہ سب غم واندوہ کا شکار ہیں اور ہر کوئی کسی نہ کسی درد میں مبتلا ہے"۔
ذرا علم دوستی کا اندازا فرمائیے کہ فارابی ابتدائی دور میں ایک دفعہ رات کے وقت مطالعہ میں مصروف تھے کہ تیل ختم ہونے سے چراغ بجھ گیا، تیل خریدنے کی سکت نہیں تھی مگر شوق مطالعہ آپ کوکھینچ کر باہر لے آیا اور گشت کرتے ہوئے پہرے دار کے سامنے لا کھڑا کیا۔ فارابی نے پہریدار سے سارا ماجرا کہہ سنایا اور اسے وہاں تھوڑی دیر رکنے کی گزارش کی تاکہ اس کے چراغ کی روشنی میں اپنا سبق یاد کر لے۔
پہریدار اس دن مان گیا، مگر دوسرے دن اس نے رکنے سے انکار کر دیا مگر فارابی نے گزارش کی کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہے گا تاکہ لالٹین کی روشنی میں مطالعہ کر سکے۔
کچھ دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر ایک دن پہریدار نے اس کی علمی لگن اور جستجو سے متاثر ہو کر اسے نئی لالٹین لاکر دے دی۔
فارابی کے حصول علم کا یہ بے مثال واقعہ آج تک طالب علموں کے لیے مشعل راہ ہے۔ انھوں نے تقریباً 50 سال حصول علم میں صرف کیے۔ فارابی نے مسیحی طبیب یوحنا بن حیلان سے بھی استفادہ کیا، سیف الدولہ ہمدانی کے دربار سے وابستہ ہوگیا۔
علم ریاضی، طب، فلسفہ اور موسیقی میں تحقیق و تحاریر اور منطق کی علمی گروہ بندی کی۔ آپ کوارسطو کے بعد دوسرا بڑا فلسفی بھی کہا جاتا ہے۔ آپ نے علم طبیعیات میں وجود خلا پر اہم تحقیقات کیں۔ اس کے علاوہ آپ ماہر عمرانیات، سیاسیات وموسیقیات بھی تھے۔
کہاں وہ مسلمان سائنسدان، مفکر، فلسفی، علماء جنہوں نے دنیا کا رخ تبدیل کر ڈالا اور کہاں ہم!یہ جملہ کہ یورپ کیrenaissance مسلمانوں کے علم کی بدولت ہوئی تھی۔
یہ بات درست ہونے کے باوجود عجیب لگتی ہے۔ اب مسلمان ممالک کی طرف نظر جاتی ہے تو تکلیف ہوتی ہے بلکہ اب تو دکھ بھی ختم ہو چکا ہے۔ کیونکہ سائنسی علم، ایجاد، ترقی پسند سوچ کی امید تک ختم ہوچکی ہے۔
جب آس ختم ہوجائے تو غم کس بات کا۔ پوری اسلامی دنیا میں ایک بھی عالمی معیار کی یونیورسٹی موجود نہیں ہے، کوئی ایسا سائنسی ادارہ نہیں ہے جسے عالمی شہرت حاصل ہو۔ ہاں! ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے درخشاں دور میں فکری آزادی تھی، تمام مذاہب کے پیروکار علم و دانش کے موتی بکھیر تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی مگر اب مسلم ممالک فکری قحط اور جبر کا شکار ہیں اور یہ ظالمانہ رویہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
مجھے اب صرف اپنے ملک یعنی پاکستان سے نسبت ہے، کسی اور ملک کی فکر اب کم ہی ہوتی ہے۔ ذرا سوچیئے! ہم نے سات دہائیوں میں اپنے ملک کے ساتھ کیا سلوک کر ڈالاہے، ملک کے متعلق کوئی خیرکی خبر نہیں سنائی دیتی۔ مقامی دانشور، قائداعظم کے فرمودات کی شان میں قصیدے کہتے ہیں، سیمینار، کانفرنسوں اور جلسوں میں ان کے عظیم افکار کا ذکر حد درجہ جذباتی انداز میں کیا جاتا ہے۔
ہر سیاست دان قائد کے احکامات کا ذکر کرتا ہے۔ اچھی بات ہے، مگر پاکستان کا ایک ادارہ یا سیاسی جماعت بتایئے جو جناح صاحب کے فکری اصولوں کی پیروی کر رہا ہو۔
جناب! ہم حد درجہ دروغ گو اور منافق لوگ ہیں۔ ہماری اصل ذاتی اور قومی فکر جائز یا ناجائز دولت کمانے سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہو جاتی ہے، باقی سب کچھ ڈھکوسلا ہے۔ فریب ہے، دھوکہ ہے، عیاری اور مکاری ہے جس کے ہم عادی ہوچکے ہیں۔
کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔ پشاور میں ایک مقامی سکھ دکاندار نے اعلان کیا کہ ماہ رمضان میں مسلمانوں کے لیے کم نرخوں پر بنیادی اشیاء فراہم کرے گا۔ اس نے رمضان کے تقدس کو سامنے رکھ کر ایسا کیا تھا۔
ویسے ایک لحاظ سے یہ ہم مسلمان تاجروں کے مونہہ پر تمانچہ بھی تھا جورمضان میں منافع خوری کا عالمی ریکارڈ قائم کرتے ہیں لیکن ہوا کیا، اس سکھ دکاندار کوٹی ٹی پی کے ذیلی خراسانی گروپ نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایک غیر مسلم کی اتنی جرأت کہ ہمیں تجارت کے اصولوں کو بتانے کی جرأت کرے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ ہاں اگر وہ سکھ تاجر، عام مسلمان تاجروں کی طرح خوب منافع خوری اور چور بازاری کرتا، تو کسی نے بھی اسے نقصان نہیں پہنچانا تھا۔
بہر حال یہ واقعہ ہماری بیماراور حاسدانہ و منافقانہ ذہنیت کی خوب عکاسی کرتا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیے۔ دنیا کو بھی معلوم ہوچکا ہے کہ ہماری چند مذہبی شخصیات قتل جیسے جرم کو بھی کارثواب قرار دے دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مذہب کا لبادہ اوڑھے کوئی بھی نام نہاد عالم دین کسی کو بھی جہنم واصل کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ بھلا، ہمارے جیسی دس نمبر ریاست، کیسے کسی کی حفاظت کر سکتی ہے۔
دس نمبر بڑے سوچ کر درج کیا ہے۔ دو نمبر، کیونکہ ایک نمبر کے نزدیک ہوتا ہے، اس لیے وہ اصل کی کاربن کاپی ہوتی ہے۔ مگر دس نمبر سے بات سمجھنی اور سمجھانا کافی آسان ہو جاتی ہے۔ بہرحال میری کیا بساط کہ میں کسی مذہبی شخص کے کسی بھی اعلان پر ذرا سی بھی تنقید کروں کیونکہ جن کے پاس اختیار ہے، وہ بے بس ہیں، تو ایک قلمکار کی فریاد کون سنے گا۔
حقیقت تو یہ ہے سات سو برس سے اسلامی دنیا ایک جمود کا شکار ہے۔ مجھے سمجھائیے کہ دنیا میں پچاس کے لگ بھگ مسلمان ممالک ہیں، ان میں اہل ایمان کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔
مگر کیا یہ المیہ نہیں کہ یہ ڈیڑھ ارب افراد، کسی تحقیق، کسی سائنسی ایجاد، کسی جدید فکر کا حصہ نہیں۔ بین الاقوامی سطح کے اداروں کو تو چھوڑیے۔ ہم توٹوٹے پھوٹے قابل ذکر اداروں سے بھی محروم ہیں۔ اپنے ملک کی طرف آتا ہوں کیا یہ قیامت نہیں ہے کہ ہمارا ایک بھی ریاستی یا حکومتی ادارہ نئی جہت پر گامزن نہیں۔ آج کل عدلیہ کی آزادی کا چرچا ہے۔
ہر طرف عدلیہ کی عزت اور اس کی حرمت پر حرف نہ آنے کے قیمتی دعوے ہو رہے ہیں۔ پر دل تھام کر جواب دیجیے۔ کیا واقعی ہمارا نظام انصاف کسی بھی سطح پر عوام کو انصاف فراہم کر رہا ہے۔ جواب نفی میں ہے۔ عام آدمی تو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ تک جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کیوں؟ ذرا وہاں کے وکلاء کی فیس معلوم کر لیجیے۔ اچھے وکیل کروڑوں میں فیس لیتے ہیں اور جناب اس کی کوئی رسید بھی نہیں ہوتی۔
ایک فیصد سے بھی کم لوگ، اعلیٰ عدالتوں میں جانے کی مالی استطاعت رکھتے ہیں۔ ذرا فرمایئے جناب! عام شہری کو تو آپ انصاف فراہم کر نہیں پائے، پھر آپ ایک سوموٹو نوٹس لیں، یا دس، عوام کی صحت پر اس سے کیا فرق پڑے گا۔ بالکل اسی طرح اگر پارلیمنٹ کسی بھی ریاستی ادارے کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کر لے تو عام آدمی کا اس سے کیا لینا۔
جناب یہ طاقتور ہاتھیوں کی لڑائی ہے اور ہم لوگ گھاس کے تنکے ہیں۔ بڑوں کی اس جنگ میں نقصان گھاس کا ہی ہو نا ہے۔ نہ پہلے کوئی ادارہ سرخیل کے پر لگا کر بیٹھا تھا اور نہ اب کوئی مثبت تبدیلی آنے کا امکان ہے۔ بس تماشا دیکھتے رہیے۔
معلوم نہیں، کیوں اتنی سچی اور تلخ باتیں لکھ رہا ہوں۔ مجھے بھی لکھنا چاہیے کہ سویڈن کی جھیلیں اور جنگلات کتنے حسین ہیں۔
میں کیوں نہیں لکھتا کہ لندن اور نیویارک میں ہرمذہب اور نظریہ بڑے آرام سے گھل مل جاتا ہے۔ کیوں نہیں لکھتا کہ مغرب کی ترقی اب صرف سیاست پر نہیں، بلکہ سائنسی اصولوں پر قائم ہے! یہ لکھنے میں کیا عذر ہے کہ کینیڈا مہاجرین کے لیے دنیا میں جنت فراہم کر رہا ہے۔ پر جناب میں تو یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے آج ہم ابوالنصر فارابی جیسا ایک بھی زرخیز ذہن پیدا نہیں کر سکے! ذرا سوچیے، کیوں؟