ملتان سے ایک انتہائی سنجیدہ سیاست دان کا فون آیا۔ لاہور آیا ہوا ہوں، تحریک انصاف کے جلسہ میں شامل ہونے کے لیے۔ گاڑی کھڑا کرنے کا مسئلہ ہے، آپ کے گھر کھڑی کر سکتا ہوں۔ بزرگ سیاست دان والد صاحب کے دوست تھے۔ میرے ساتھ بھی عقیدت و احترام کا رشتہ تھا۔
میرے گھر میں گاڑی کھڑنے کی جگہ تھی۔ جلسہ شام کو تھا۔ مگر وہ، دوپہر کو آ گئے۔ لان میں کرسیاں لگا کر کافی دیر بات کرتے رہے۔ وہ کافی پرجوش تھے۔ یہ جو خان ہے نہ، یہ سیاست کو تبدیل کر دے گا۔ اس میں عزم ہے، ہمت ہے، ایماندار ہے اور اس نے ہر جگہ پاکستان کی عزت میں اضافہ کیا ہے۔ غور سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ ان کے پاس مرسیڈیز کار تھی، امیر آدمی تھے، پارلیمنٹ میں کئی بار ممبر رہے۔ شائستگی اور وضع داری کے امین بھی نظر آتے تھے۔ ان کے لہجے میں اس وقت بچوں کی سی معصومیت تھی۔
سوال کیا کہ عمران خان تو تقریر کرنے رات گئے آئے گا تو آپ اتنی جلدی کیوں جلسہ گاہ پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہنستے ہوئے جواب دیا۔ تھوڑی دیر میں راستے بند ہو جائیں گے۔ اس وقت بھی لوگ ہزاروں کی تعداد میں یادگار پاکستان کی طرف رواں دواں ہیں۔ خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا۔ طے یہ پایا کہ جلسہ ختم ہونے کے بعد ملاقات دوبارہ ہو گی۔ اس کے بعد معلوم ہو گا کہ خان صاحب کتنے پانی میں ہیں۔ رات گئے واپس آئے۔ انتہائی تھکے ہوئے تھے۔
بتانے لگے کہ تین میل پیدل چل کر یادگار پاکستان پہنچا۔ دور دور تک لوگ ہی لوگ تھے۔ مجھے گراؤنڈ کے باہر بھی جگہ نہیں مل سکی۔ اتنا بڑا ہجوم تو کبھی کوئی سیاست دان اکٹھا نہیں کر پایا تھا۔ پیدل چل چل کر پاؤں سوج چکے تھے۔ بہر حال شگفتگی سے روداد سناتے رہے۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ وہ جلسہ نہیں، پاکستان کی تقدیر کو بدلتے ہوئے دیکھ کر آئے ہیں۔ میں عمران خان کے لاہور میں منعقدہ اس فقید المثال جلسے کی بات کر رہا ہوں جو تقریباً آٹھ دس برس پہلے منعقد ہوا تھا۔ جس نے عمران خان کو صرف ایک رات میں ملکی سیاست کی صف بندی میں اول درجہ پر پہنچا دیا تھا۔
بہر حال دیر تک خان صاحب کے خیالات اور انقلابی فلسفہ پر بات کرتے رہے، مگر میں انتظامی نظام کا ادنیٰ سا طالب علم ہونے کی بدولت ان کی خوش فہمی کو رد نہ کر سکا۔ کچھ دن بعد معلوم ہوا کہ انھوں نے باضابطہ طور پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ جلد ہی اپنی سیاسی پختگی کی بدولت خان صاحب کے کافی نزدیک ہو گئے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ خان صاحب، اپنے دوستوں اور حلیفوں سے واٹس ایپ کے ذریعے ہر وقت منسلک رہتے ہیں۔ بہر حال 2013 کا الیکشن ہوا۔ موصوف الیکشن ہار گئے یا ہروا دیے گئے۔ 2018میں الیکشن میں کامیاب ہو گئے۔
کوئی تین ماہ قبل، وہی بزرگ سیاست دان گھر تشریف لائے تو کافی حد تک بجھے بجھے سے نظر آئے۔ بھٹو، ضیاء الحق، پرویز مشرف کی پرانی باتیں بتاتے رہے۔ اپنے طویل سیاسی کیریئر میں ہمیشہ مقتدر طبقے کے قریب رہے تھے۔ پوچھا کہ آپ اب خوش نظر نہیں آ رہے۔ اب تو آپ اپنے لیڈر کے کافی حد تک نزدیک ہیں۔ آپ کی بات غور سے سنتے بھی ہیں۔ آپ سے دل کی بات بھی کبھی کبھی کر لیتے ہیں۔ کہنے لگے۔ تمہیں علم ہے کہ خان صاحب کا مسئلہ کیا ہے؟
دراصل انھیں یہ علم نہیں ہوتا کہ کونسی بات کس وقت کرنی ہے اور کس مقام پر کرنی ہے۔ مناسب ترین بات بھی غیرمناسب مقام پر کر جاتے ہیں۔ اس کے بعد ایک ایسا طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے۔ جس کی گرد سے خود بھی محفوظ نہیں رہ پاتے۔ ہاں ایک اور بات، حساس ترین فیصلوں میں بھی جلد بازی سے کام لے جاتے ہیں۔ وہ فیصلے، جن سے ان کی حکومتی ساکھ براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ وہ بھی متعدد بار حد درجہ شتابی میں ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد فیصلوں کا ملبہ اور بوجھ برداشت کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
مجھے یہ سن کر تعجب ہوا۔ اب مجھے ان کے اندر وہ جوش وولولہ نظر نہیں آ رہا تھا، جو ہمیشہ سے موجود تھا۔ بتانے لگے کہ دو ہزار اٹھارہ کا الیکشن جیتنے کی مبارک باد دینے کے لیے بنی گالہ گیا۔ تو شروع کے دور کے لیے اہم ترین افسروں کے انٹرویو ہو رہے تھے۔ میں بھی خان صاحب کے ساتھ بیٹھ گیا۔ جب پہلا افسر داخل ہوا۔ تو خان صاحب بتانے لگے کہ یہ حد درجہ قابل افسر ہے اور میرے معتمد ترین دوست نے اس کی سفارش کی ہے۔ میرا دل بیٹھ گیا۔ کیونکہ اس افسر کو بیس سال سے جانتا تھا۔ سابقہ حکمرانوں کا ناک کا بال رہا تھا۔ بلکہ مجھے حیرانی ہوئی کہ خان صاحب کو اتنی اہم معلومات کیوں نہیں ہیں۔
تمام اہم اداروں کی معاونت انھیں حاصل تھی۔ بہر حال حد درجہ بے وقوفی کی اور سب کے سامنے اپنی رائے دے ڈالی کہ اس افسر کو مت لگایئے۔ یہ تو فلاں دور میں، ہمارے سیاسی مخالفین کا قیمتی ترین اثاثہ تھا۔ بہر حال یہ بات مجھے کہنی نہیں چاہیے تھی، غلطی کر گیا۔ خان صاحب نے فیصلہ وہی کیا جو وہ انٹرویو سے پہلے ہی کر چکے تھے۔ افسر تو تعینات ہو گیا۔ مگر میرے اوپر بہت سختی شروع ہو گئی۔ میرے تمام کام تقریباً رک گئے۔ میری وزیراعظم سے ملاقاتیں بھی کھٹائی میں پڑ گئیں۔
جب بھی ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ تو یہی جواب ملا کہ وزیراعظم بہت مصروف ہیں۔ خیر اب تو آخری ملاقات چھ سات ماہ پہلے ہوئی تھی۔ جس افسر کی تعیناتی کی مخالفت کی تھی، وہ اپنی سیٹ پر براجمان ہے، اور اسی جانفشانی سے وزیراعظم کے ذہن پر اثر انداز ہو رہا ہے، جس طرح پہلے حکمرانوں پر تھا۔ مجھے اپنا خاص دشمن سمجھتا ہے، جو نقصان پہنچنا تھا پہنچ چکا ہے۔ شاید اگلا الیکشن میں نہ لڑ پاؤں۔ کیونکہ تحریک انصاف عوامی سطح پر کافی حد تک ناکام نظر آ رہی ہے۔
آج خان صاحب کی عوامی پذیرائی بہت کم ہو چکی ہے۔ ان کے کارکنان تک مایوسی ہیں۔ ایک بڑی وجہ اہم ترین لوگوں کی غیر سنجیدہ سلیکشن ہے۔ انھوں نے چند خاص ترین سیاسی اور انتظامی عہدوں پر ایسے لوگ براجمان کر دیے جو کام کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ مسئلہ جی حضوری کا نہیں۔ وہ تو ہر سیاسی اور غیر سیاسی دور میں ایک جیسی رہتی ہے۔ مسئلہ، عوامی سطح پر معاملات کو حل نہ کرنے کا ہے۔
خان صاحب کی کور ٹیم وہ صلاحیت ہی نہیں رکھتی جو عام فہم معاملات پر گرفت رکھتی ہو۔ وہ آسان ترین کام بھی نہیں کر سکتے۔ اگر آپ الیکشن کے بعد کے پانچ چھ ماہ دیکھیے تو اپوزیشن مکمل طور پر دل گرفتہ نظر آ رہی تھی۔ ناکام سیاسی حریف اپنی ہار پر حیران تھے۔ انھیں علم تھا کہ وہ ریاستی سیڑھی جو ہمیشہ ان کو عروج ثریا پر پہنچایا کرتی تھی۔ اب ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ اپوزیشن کا یہ رویہ کافی دیر تک ایسا ہی رہا۔
مگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب انھیں یہ ادراک ہوا، کہ خان صاحب نے تو ان کی اے ٹیم کے ذریعے کام کرنا قبول کر لیا ہے۔ تو معاملہ ہرا ہی ہرا ہو گیا۔ جو انقلابی تبدیلی، خان صاحب کے خیالات کی اصل محرک تھی۔ وہ ان کی عملی ٹیم نے غیر متحرک کر ڈالی۔ اب مخالفین کے سوکھے دھانوں پر پانی پڑ گیا۔ وہ لوگ جو دہائیوں سے ملک کو ہر طریقے سے لوٹ رہے تھے۔ کارکردگی اور گڈ گورننس کا لبادہ چڑھا کر عوام کے سامنے آ گئے۔ کیونکہ خان صاحب کی ٹیم اچھی کارکردگی نہیں دکھا پائی تھی۔ لہٰذا پرانے لوگوں کی باتیں مثبت نظر آنے لگیں۔
ایک کے بعد ایک انتظامی آفت کو حل نہ کرنا اب خان صاحب کے لیے حد درجہ مشکلات برپا کر چکا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت ناکام ہی نظر آتی ہے۔ معاملات کا حل، موجودہ حالات میں شاید ممکن بھی نہیں رہا ہے۔ بقول اس بزرگ سیاست دان کے، جو نقصان پہنچنا تھا وہ تو پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا اب کونسا شکوہ اور کیسی شکایت۔ قیافہ یہی ہے کہ اگلا الیکشن شاید تحریک انصاف کو پذیرائی نہ دے پائے۔
اگر ماضی کی ڈینوسار سیاست پھر عروج پکڑ گئی تو ملک کہاں پہنچ جائے گا؟ اگر یقین نہیں آتا تو سندھ کی ابتری اور بربادی پر غور فرما لیجیے۔ فیصلہ کرنا شایدآسان ہو جائے، مگر ایسا لگتا ہے کہ اس دھند میں دلیل پر فیصلہ کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔