Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Taleemi Jadugar

Taleemi Jadugar

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا چھوٹا بیٹا شاہنواز بھٹو، کیڈٹ کالج حسن ابدال داخل ہوا۔ قانون تھا کہ فرسٹ ایئرکے طالب علموں کو علیحدہ کمرہ نہیں دیا جائے گا۔

بھٹو صاحب کا طوطی پورے ملک میں بولتا تھا۔ شاہنواز کو عمر ونگ میں کمرہ ملا۔ ضابطے کے مطابق اس کے دو روم میٹ اور بھی تھے۔ بالکل عام کیڈٹس کی طرح سادہ سی چارپائی جس پر فوم نہیں تھا، چھوٹی سی الماری، ایک عام سی اسٹڈی ٹیبل اور کرسی، تمام فرنیچر بالکل اسی طرح کا تھا جو ہر طالب علم کو کالج کی طرف سے مہیا کیا جاتا تھا۔

وزیراعظم کے چہیتے بیٹے کے لیے رتی بھر بھی خصوصی انتظام نہیں کیا گیا۔ وہی سادہ سے کپڑے، فوجی یونیفارم، بوٹ اور وہی ٹوپی۔ شاہنواز کو بالکل وہی رویہ ملا جو ہر ایک کو نصیب ہوتا تھا۔ ایسا کیوں تھا۔ اس کی صرف ایک بلکہ صرف اور صرف ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ کرنل این ڈی حسن، کالج کے پرنسپل تھے۔ حد درجہ اصول پسند اور سخت مزاج انسان۔ بھٹو صاحب کو ان کی طبیعت کا علم تھا۔

لہٰذا انھیں جرأت ہی نہ ہو سکی کہ بیٹے کے لیے کسی قسم کی کوئی رعایت مانگ سکیں۔ اس میں وزیراعظم کی تعریف نہ کرنا بھی ادنیٰ بات ہو گی۔ مگر اصل فولادی انسان، کرنل این ڈی حسن کی وہ شخصیت تھی جسے ان کا کوئی طالب علم یا ملنے والا کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ایک عہد ساز انسان۔ مجھے بطور طالب علم پورے پانچ برس اس مرد عجیب کو بغور دیکھنے کا موقع ملا ہے۔

کرنل این ڈی حسن کیا تھا۔ اس کا جواب میرے لیے بہت مشکل ہے۔ اس کی وجہ عقیدت یا احترام کا جذبہ نہیں۔ بلکہ وہ محیر العقول عوامل اور واقعات ہیں جو اس شخص کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ذہن میں ہلکا سا شخصی ہیولا اس وقت کا بھی ہے۔ جب کیڈٹ کالج میں داخلہ کے لیے کرنل صاحب کے سامنے انٹرویو کے لیے پیش ہوا۔ میری عمر اس وقت صرف گیارہ برس تھی۔ کرنل صاحب نے دو تین سوال کیے۔ جس کا جواب دینے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی۔

این ڈی حسن نے سرمئی رنگ کا بہترین سوٹ پہنا ہوا تھا۔ ویسے مجھے علم نہیں تھا کہ اچھے اور معمولی سوٹ میں کیا فرق ہے۔ مگر اس شخص کی آنکھوں میں کچھ غیر معمولی عنصر ضرور تھا۔ انسان کے جسم کو آر یا پار کرنے کی قوت رکھنے والی شخصیت۔ مجھے اس وقت بالکل علم نہیں تھا کہ اگلے پانچ برس یہ شخص میرے جیسے ہزاروں طالب علموں کی زندگی کو جوہری طور پر بدل کر رکھ دے گا۔ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔ کیڈٹ کالج کی روزمرہ کی ترتیب حد درجہ سخت تھی۔ محنت بلکہ مسلسل مشقت کے علاوہ کوئی بھی چارہ نہیں تھا۔

یہ شدید محنت صرف طالب علم ہی نہیں کرتے تھے بلکہ تمام اساتذہ اس میں شامل ہوتے تھے۔ مگر اس تمام مثبت روٹین کا منبع پرنسپل یعنی این ڈی حسن کی ذات تھی۔ غور سے سنیے۔ صبح ساڑھے چھ بجے، ایک دن پی ٹی اور دوسرے دن پریڈ ہوتی تھی۔ علی الصبح، بلاناغہ، کرنل صاحب، بہترین سوٹ زیب تن رکھے، کسی بھی تردد کے بغیر پریڈ اور پی ٹی کے درمیان موجود ہوتے تھے۔ انتہائی باوقار طریقے سے چلتے ہوئے ہر ایک طالب علم کو بڑے غور سے دیکھتے تھے۔ ہاں ایک چیز بھول گیا۔ ان کے ہاتھ میں حد درجہ خوبصورت چھڑی بھی ہوتی تھی۔ اس کے اوپر والے حصے پر چاندی کا خول چڑھا ہوا ہوتا تھا۔ یہ عصا ان کی شخصیت کا حصہ بن چکا تھا۔

اس کے بعد ہم تمام بچے، اپنے اپنے ہوسٹل میں جا کر یونیفارم پہنتے تھے۔ ناشتے کے لیے میس جاتے تھے تو این ڈی حسن وہاں بھی موجود ہوتے تھے۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر وہ ناشتہ کیے بغیر پرنسپل ہاؤس چلے جاتے تھے۔ ٹھہیرے اب غور سے سنیے۔ وہاں دوبارہ بالکل مختلف سوٹ پہنتے تھے اور دفتر چلے جاتے تھے۔ اس درجہ کا خوش لباس انسان، جو صرف کتابوں میں موجود ہوتے ہیں۔ کرنل صاحب اس وصف کی عملی تصویر تھی۔ ان کے پاس کتنے سوٹ تھے۔ کم از کم میرے لیے گننا ممکن نہیں ہے۔ بے مثال ٹائیاں اور چمکتے ہوئے جوتوں کو بھی شمار کرنا ازحد مشکل تھا۔

ان کے دفتر کا دورانیہ، ہماری کلاسوں کا ٹائم ہوتا تھا۔ ان پانچ چھ گھنٹوں میں کرنل صاحب، بہت کم کلاسوں میں آتے تھے۔ مگر کبھی کبھی آتے ضرور تھے۔ ہر ایک کے دل میں دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ اب آئے کہ اب آئے۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے لیے کھیلوں کا وقت شروع ہو جاتا تھا۔ یہ دن میں اس عظیم شخص سے دوسری ملاقات ہوتی تھی۔ ویسے ملاقات کا لفظ تھوڑی سی خوش نمائی کے زمرے میں آ جاتا ہے۔ بس دور سے دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ ایک شاندار انسان، جو طالب علموں کو کھیل کے میدان میں بھی مکمل ہوتا دیکھنا چاہتا تھا۔ شام کو پہلی پریپ ہوتی تھی۔ یہ بچوں کے سکون سے پڑھنے کا دورانیہ تھا۔

تقریباً ایک گھنٹے کا۔ کالج میں چھ ہوسٹل تھے۔ کرنل صاحب، پریپ میں ہر ہوسٹل میں جاتے تھے۔ جہاں جہاں بچے پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ہر اس جگہ پر ہاؤس ماسٹر کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔ شاید آپ کے لیے یقین کرنا مشکل ہو۔ شام کو مختلف سوٹ میں ہوتے تھے۔ یعنی ایک دن میں کم از کم تین مختلف سوٹ اور اس کے علاوہ طلباء کی تعلیمی کارکردگی پر گہری نظر۔ اس طرح کا توازن میں نے کسی اور شخصیت میں موجود نہیں پایا۔ جب ہاؤس ماسٹر کے ساتھ شام کو پریپ میں چکر لگاتے تھے۔ تو ہمیں صرف ایک جملہ بار بار سنائی دیتا تھا۔ اچھا، اچھا، اچھا۔ یہ اس نیک بخت انسان کا تکیہ کلام تھا۔ بات سننے کے بعد دوتین بار یہ لفظ ضرور بولتے تھے۔ جب اس تکرار کی گونج ختم ہو جاتی تھی۔

تو اندازہ ہو جاتا تھا کہ پرنسپل صاحب جا چکے ہیں۔ اگلے دن صبح کے وقت پھر گراؤنڈ میں موجود ہوتے تھے۔ جتنی محنت ہم کرتے تھے۔ شاید اتنی یا اس سے زیادہ مشقت وہ بذات خود کرنے کی کامیاب کوشش کرتے تھے۔ کیڈٹ کالج کے پرنسپل کے لیے ایک آسان سا چلن یہ بھی ہو سکتا تھا کہ دن میں ایک آدھ چکر لگائے اور پھر آرام سے اپنا وقت گزارے۔ پر نہیں صاحبان، بالکل نہیں۔ وہ ہر جگہ اور ہر وقت طلباء کے ساتھ رہتے تھے۔ اساتذہ کی کارکردگی پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے۔ تمام طلباء کو یقین تھا کہ این ڈی حسن انھیں ہر وقت جانچ رہا ہے۔ اور شاید یہ بات درست بھی تھی۔ ایک ایسا ان تھک انسان جو صرف اپنے طلباء کی کردار سازی اور کامیابی پر خوش ہوتا تھا۔

کیڈٹ کالج میں سالانہ پیرنٹس ڈے (Parents Day) ایک شاندار تقریب ہوتی تھی۔ اس میں مہمان خصوصی، عوامی طور پر وزیراعظم، صدر یا آرمی چیف ہوتا تھا۔ تیاری تقریباً دو ماہ قبل شروع ہو جاتی تھی۔ چیف گیسٹ کو کس طرح خوش آمدید کہنا ہے، پریڈ کیسی ہو گی، بچے انعام لینے کے لیے ڈائس پر کیسے آئینگے، چیف گیسٹ سے ہاتھ کس طرح ملائینگے، واپسی کیسے ہو گی۔ ان تمام جزئیات کی حد درجہ مشکل تیاری ہفتوں جاری رہتی تھی۔ اور اس پورے دورانیہ میں کرنل صاحب ہمہ وقت موجود رہتے تھے۔ تقریب سے دو چار دن پہلے ڈریس ریہرسل ہوتی تھی۔

اس میں کرنل صاحب کی پرانی سی گاڑی، گھوڑوں کے دستوں کے جھرمٹ میں آتی تھی۔ اور پھر پیرنٹس ڈے، بڑے انہماک اور شان و شوکت سے منعقد ہوتا تھا۔ یاد ہے کہ صادق حسین قریشی، جنرل ضیاء الحق اور دیگر اکابرین اس تقریب کے مہمان خصوصی ہونے کو اعزاز سمجھتے تھے۔ واقعات تو ان گنت ہیں۔ ایک دن صبح پریڈ ہو رہی تھی۔ عام سا دن تھا۔ تمام کیڈٹس گراؤنڈ میں حسب ضابطہ موجود تھے۔ یک دم پرنسپل صاحب آئے اور ان کے ساتھ ملک کے وزیراعظم بھٹو صاحب موجود تھے۔ کسی کو بھی بھٹو صاحب کے آنے کا علم نہیں تھا۔ وزیراعظم اور کرنل این ڈی حسن کے درمیان یہ فیصلہ کرنا آج بھی مشکل ہے کہ ان میں کون سا انسان زیادہ خوش لباس ہے۔ بھٹو صاحب تھوڑی دیر پریڈ دیکھتے رہے۔ پھر کرنل صاحب کے ساتھ خاموشی سے واپس چلے گئے۔ ایک بات کا ذکرکرنا ضروری ہے۔

کرنل صاحب، کسی طور پر بھی بھٹو صاحب سے مرعوب نظر نہیں آئے۔ وہی وقار، وہی شرافت اور بالکل وہی چال ڈھال۔ دراصل کرنل صاحب میں اس قدر اعتماد تھا کہ مرعوب ہونا نہیں بلکہ مرعوب کرنا جانتے تھے۔ وقت کے وزیراعظم کے سامنے میں نے بڑے بڑے جغادری لوگوں کو نیم سجدہ حالت میں دیکھا ہے۔ مگر شاید این ڈی حسن ہر طور پر عامیانہ پن سے بالاتر تھا۔ ہاں، ان کا رویہ ہر طالب علم سے بالکل یکساں تھا۔ کوئی امیر کا بچہ ہے یا غریب کا، جرنیل کا بیٹا ہے یا مزدور کا، کوئی ادنیٰ نسب سے ہے یا بلند نسب سے۔ پرنسپل صاحب کا عملی رویہ سب کے لیے بالکل ایک جیسا تھا۔ اسکول کے قوانین ہر ایک کے لیے بالکل یکساں تھے۔ ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سزا بھی بالکل یکساں تھی۔ کس کس بات کا ذکر کروں اور کس کو رہنے دوں۔ لکھنے کو تو ان پر کتاب لکھ سکتا ہوں۔

پانچ برس مسلسل کرنل این ڈی حسن کو دیکھنے اور ان سے سیکھنے کے عمل میں شامل رہا۔ اب تو سب کچھ ایک دھند لا سایہ سا نظر آتا ہے۔ اس دھند میں کرنل صاحب کے قدموں کی چاپ بڑی تسکین سے سنی جا سکتی ہے۔ اچھا، اچھا اور اچھا کے الفاظ آج بھی کانوں میں گونج رہے ہیں۔ میری نظر میں وہ ایک تعلیمی جادوگر تھا جو ہزاروں بچوں کے مقدر کو سنوار گیا۔