ساٹھ کی دہائی کی جناح کالونی ایک خواب سا دکھائی دیتی ہے۔ ایسی جگہ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو مگر سچ تو یہ ہے کہ جناح کالونی آج بھی شاد اور آباد ہے۔ ہمارے گھر سے ڈیڑھ چوک آگے دو بیکریاں اور ایک مٹھائی کی دکان تھی۔
چوک سے اُلٹی جانب سائیکلوں کی ایک دکان موجود تھی جہاں سے سائیکل کرائے پر بھی ملتے تھے۔ ویسے ایک زمانے میں سائیکل حددرجہ محترم سواری تھی۔ بچوں میں تو خال خال ہی اپنی ذاتی سائیکل کے مالک ہوتے تھے۔ مجھے والد صاحب نے 1971 یعنی تقریباً ساتویں جماعت میں سائیکل لے کر دی تھی۔
لائل پورکو جاننے والے سمجھتے ہیں کہ انگریزوں کی بنائی ہوئی گمٹی یادگار کے ساتھ نئی سائیکلوں کی چار پانچ دکانیں تھیں۔ دکاندار سے ضد کر کے میں نے گھنٹی بھی لگوائی تھی۔ سائیکل مجھے دی گئی کہ گھر لے جائو تو خوشی سے بالکل یقین نہیں آیا۔ نئی نکور ذاتی سائیکل پر سوار ہو کر گھر جانے کے لیے عجیب وغریب راستہ اختیار کیا۔
پہلے کارخانہ بازار، پھر گھنٹہ گھر، اس کے بعد تین چار چکر لگانے کے بعد جھنگ بازار سے ہوتا ہوا پتہ نہیں کہاں نکل گیا۔ یہ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر تھا۔ جس میں اکثر وقت گھنٹی بجاتا رہا۔ لگتا تھا کہ اردگرد ہر آدمی میری سائیکل کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ یہ کیفیت جب زندگی میں پہلی کار خریدی، اس وقت بالکل موجود نہیں تھی۔
سول سروس اکیڈمی جانے سے پہلے والد اور والدہ سے ضد کر کے پیسے قرض لیے جو آج تک واپس نہیں کر پایا۔ میرے پھوپھا رائو مجاہد دوست زیادہ اور رشتے دار کم تھے۔ لاہور جیل روڈ پر گئے۔ انتہائی سستے داموں ایک سیکنڈہینڈ گاڑی خریدی۔ پیسے دیکر جب گھر کی طرف واپس آرہے تھے تو دل میں کوئی خوشی نہیں تھی۔ یکسانیت ہی یکسانیت تھی۔
کار میں کوئی گھنٹی بھی نہیں لگی ہوئی تھی جس طرح پہلی سائیکل پر موجود تھی۔ چند دن پہلے، ڈاکٹر احمد صاحب سے سائیکل مستعار لے کر چلانے کی کوشش کی تو توازن ہی قائم نہیں ہو پایا۔ ہینڈل سیدھا کیاریوں کی طرف چلا گیا اور اس کے ساتھ میں بھی۔ دوچار بار کی ناکام کوششوں سے یقین ہو گیا کہ اب سائیکل نہیں چلا سکتا۔ کیاریوں سے جب سائیکل اور اپنے آپکو باہر نکال رہا تھا تو ایک چھوٹا سا بچہ تیزی سے چھوٹی سی سائیکل چلاتا ہوا نزدیک سے گزر گیا۔
جناح کالونی کی عرض کرونگا کہ چھتری دان گرائونڈ کے بالکل نزدیک ایک لائبریری تھی۔ دراصل یہ ایک دکان سی تھی اور اس میں کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ وہ ساری کرایہ پر دی جاتی تھیں۔ کرایہ ایک آنہ تھا۔ شاید دو آنے تھا۔ پھر بڑھ کر کرایہ حددرجہ زیادہ ہو گیا تھا۔ چار آنے۔ ساٹھ کی دہائی میں چار آنے واقعی بچوں کے لیے حددرجہ زیادہ پیسے تھے۔ اسکول جانے سے پہلے والدہ جو پیسے دیتی تھیں، اکثر اوقات انھیں کینٹین پر صَرف نہیں کرتا تھا۔ بلکہ لائبریری کی کتابوں کے کرایہ پر خرچ کر دیتا تھا۔ روزانہ دو سوالات ضرور پوچھتا تھا۔ ایک تو یہ کہ امیر حمزہ کی داستان کی کوئی نئی کتاب آئی ہے۔ دوسرا سوال ہوتا تھا کہ ابنِ صفی کا لکھا ہوا کوئی نیا جاسوس ناول یعنی عمران سیریز شایع ہوا ہے کہ نہیں۔
اکثر اوقات دونوں سوالوں کے جوابات نفی میں ہوتے تھے۔ امیر حمزہ کی داستان کمال تھی۔ اس کے سارے کردار ذہن پر نقش ہیں۔ عادی پہلوان جو بیٹھے بیٹھے پورا اونٹ کھا جاتا تھا۔ جسکی بھوک کے سامنے تمام لوگ بے بس تھے۔ لندھور جوگرز سے دشمنوں کے لشکر میں مکمل صفایا کر دیتا تھا۔ عمرو عیار، جسکی زنبیل میں دنیا کی ہر چیز موجود ہوتی تھی۔ جسکے پاس ہر مسئلے کا حل بھی موجود ہوتا تھا۔ مگر ہرگز ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا کہ عملی زندگی میں ان جیسے کرداروں کو دیکھنا پڑے گا بلکہ کئی مقامات پر تو بھگتنا بھی پڑیگا۔
عادی پہلوان تو ایک اونٹ کھا کر تھوڑی دیر کے لیے اپنی بھوک مٹا لیتا تھا۔ مگر ہم پر مسلط حکمران تو اربوں ڈالر کھا کر بھی آج تک بھوکے کے بھوکے ہیں۔ ان کی دولت کی بھیانک بھوک وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے۔ ہاں ایک اور بات۔ عادی پہلوان اپنی بھوک کے معاملے میں بالکل جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ اگر اس نے پورا بکرا کھانا ہوتا تھا تو بتا دیتا تھا۔ مگر ہمارے حکمران تو دولت کی بھوک کو لفظوں کے گرداب میں ایسے چھپاتے ہیں جیسے ان کا دولت کی ہوس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اب وہ ڈالروں کی ہوس کو میرٹ، شفافیت، ایک دھیلے کی کرپشن، تبدیلی اور عوامی خدمت کے دھویں میں گم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ناکام ہیں۔
امیر حمزہ کی داستان کا عادی پہلوان بالکل دروغ گو آدمی نہیں تھا۔ بالکل اسی طرح لندھور کہانی میں حددرجہ بہادر تھا۔ جہاں جاتا تھا، وہاں فتح اس کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی۔ بالکل نہیں کہتا تھا کہ وہ بہت بہادر اور جری ہے۔ مگر ہمارے اردگرد سارے سیاسی، سماجی، مذہبی، ریاستی اور لسانی اداکار ہر وقت اپنی نقلی بہادری کا یقین دلاتے رہتے تھے۔ بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرنے کے باوجود اتنے بزدل ہیں کہ محافظوں کی اَن گنت قطار ساتھ رکھتے ہیں۔ پھر بھی تسلی نہیں ہوتی تو بلٹ پروف جیکٹ پہن لیتے ہیں۔
اب سمجھ آتی ہے کہ ہر دور کا اپنا عمرو عیار ہوتا ہے۔ اس کی زنبیل بھی ایک حقیقت ہے۔ اس کے پاس لوگوں کو بیوقوف بنانے کی حیرت انگیز طاقت ہوتی ہے۔ ڈگڈگی بجا کر اپنی زنبیل سے ضرورت کی ہر چیز نکال لیتا ہے۔ ہاں غائب بھی کر دیتا ہے۔ ہمارے اکثر قائدین عمرو عیار کے بھی اُستاد معلوم ہوتے ہیں۔ یہ پورے کا پورا قومی خزانہ اپنی زنبیل میں غائب کر چکے ہیں۔ جب کوئی بھی ادارہ، انتہائی معصومانہ طریقے سے پوچھتا ہے کہ اعلیٰ حضرت، یہ دس پندرہ ارب روپے آپ کے اکائونٹ یعنی زنبیل میں کیسے آئے۔
تو یہ کوئی ایسا نیا بہانہ تراش لیتے ہیں کہ اصل عمرو عیار بھی ان کی مہارت کے سامنے پانی بھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ عمرو عیار تو اپنی ترکیبوں سے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتا تھا۔ مگر ہمارے یہ قومی عمرو عیار تو عام آدمی کا خون چوس چوس کر پلے بڑھے ہیں۔ عمرو، امیر حمزہ کو مثبت ترکیبیں بتاتا تھا۔ مگر ہمارے قومی عمائدین کی اکثریت عام لوگوں کی تعلیم، صحت، ترقی کے دشمن ہیں۔ مگر ان میں اور ماضی کے کتابی عمرو عیار میں ایک امر حیرت انگیز حد تک یکساں ہے۔ امیر حمزہ کی داستان میں عمرو ہر روپ دھار سکتا تھا۔ ہر شکل اختیار کر سکتا تھا۔
ہمارے موجودہ عمرو عیار صاحبان مخصوص عرصے کے بعد، جمہوری ہونے کا سوانگ دھار لیتے ہیں۔ جب ناجائز دولت حاصل کرنے کی ہر منزل عبور ہو جائے، تو انقلابی ہونے کا دعویٰ کر دیتے ہیں۔ جب اولادکو سیاسی لشکر کی باگ ڈور دینی ہو تو اتنے بونے ہو جاتے ہیں کہ اپنی اولاد کے سوا کوئی بھی قیادت کے قابل نظر نہیں آتا۔ امیر حمزہ کا عمرو عیار تو بیچارہ، ان مداریوں کے سامنے بیوقوف تھا۔
بالکل اسی طرح، آج لوگوں کو اندازہ نہیں کہ ابن صفی کتنا اعلیٰ لکھاری تھا۔ اس کے تخلیق کردہ کردار عمران سیریز میں اس طرح سامنے کھلتے جاتے تھے کہ انسان بے اختیار دنگ رہ جاتا تھا۔ بذاتِ خود عمران کا کردار بھی حددرجہ دلچسپ اور منفرد تھا۔ کسی بھی مسئلہ کو حل کرنا اور اپنی اصلیت چھپا کر ملک کی خدمت کرنا، اس کردار کا خاصہ تھا۔ ابنِ صفی کی بدقسمتی صرف ایک تھی کہ اُردو میں لکھتا تھا۔
اگر یہی ناول انگریزی زبان میں ہوتے تو ان پر ہالی وڈ میں فلمیں بن رہی ہوتیں۔ نیٹ فلیکس ان جاسوسی کتابوں پر درجنوں قسطیں در قسطیں بنا چکا ہوتا۔ لائل پور چھوڑے ہوئے چالیس سال ہو چکے ہیں مگر یہ لائبریری ابھی تک میرے ذہن میں منقش ہے۔ اس طرح کی آنہ لائبریریاں ہر شہر، قصبے اور دیہات میں موجود ہوتی تھیں۔ اب انھیں ختم ہوئے عرصہ بیت گیا۔ بڑی بڑی لائبریریاں تو اب بھی شہروں میں موجود ہیں۔ مگر وہ چھوٹی چھوٹی دکانیں جو کتابوں سے بھری ہوتی تھیں، اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔
ہاں ایک بار، بھائی حیدر حسن کے ساتھ کمالیہ میں حبیب اللہ سعدی صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ یاد ہے کہ خاکسار تحریک کے سالار، اشرف صاحب بھی ساتھ تھے۔ جب سعدی صاحب نے اپنا ذاتی کتب خانہ دکھایا تو میں حیران رہ گیا۔ درجنوں نہیں، سیکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں نایاب کتابیں۔ ہر مضمون کے علیحدہ علیحدہ خانے۔ یہ 1977 کا ذکر ہے۔ پوری زندگی میں اس بلند سطح کی ذاتی لائبریری دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
کوشش کے باوجود ذاتی طور پر اتنی کتابیں جمع نہیں کر سکا۔ اسٹڈی میں کافی کتابیں ہیں۔ مگر دل کو اطمینان نہیں۔ مزید کتابیں ہونی چاہئیں۔ مگر اب دوبارہ محنت کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ اُردو بازار سے بہت دور آ چکا ہوں۔ بہرحال اب محلوں میں آنہ لائبریریاں کب کی ختم ہو چکیں۔ میں تو پچھلی صدی کی بات کر رہا ہوں جسے گزرے ہوئے بھی دودہائیاں ہو چکی ہیں۔