مرکنڈے کاٹجو، ہندوستان کی سپریم کورٹ کے ریٹائر جج ہیں۔ تعلق لکھنؤ کے کشمیری خاندان سے ہے۔ کاٹجو"پریس کونسل آف انڈیا" کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔
ان کے خیالات کافی حد تک عام ہندوؤں سے مختلف ہیں۔ گائے کو "گاؤ ماتا" تسلیم نہیں کرتے۔ بڑے گوشت یعنی بیف کو سرعام کھاتے ہیں۔ مسلمانوں سے یک جہتی کے لیے روزے بھی رکھتے ہیں اور کھل کر ہندوستانی مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کی ہندوتا پالیسیوں کے سخت خلاف ہیں۔
کاٹجو ہندوستان میں اقلیتوں کے حق میں ایک مضبوط اور توانا آواز ہیں۔ چند ہفتوں سے کاٹجو پاکستان میں عدلیہ کے فیصلوں پر کھل کر بات کر رہے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں کے متعلق بھی ان کی ایک رائے ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ چند دن پہلے کاٹجو نے ایک مدلل بیان دیا ہے اور آئین، پارلیمنٹ اور عدلیہ کی قانونی اور آئینی حیثیت پر روشنی ڈالی ہے۔ مرکنڈے کے بقول، ان ممالک میں پارلیمنٹ سپریم یا سب سے طاقتور ادار ہ ہوتی ہے جن میں لکھا ہوا آئین موجود نہیں ہے۔
اس کی ایک مثال برطانیہ کی دی ہے۔ برطانیہ میں لکھا ہواآئین نہیں ہے لہٰذا برطانوی پارلیمنٹ کو سپریم مانا جاتا ہے۔ مگر جن ریاستوں میں تحریری آئین موجود ہے، وہاں آئین سپریم ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ یا کوئی بھی ادارہ آئین سے بالا تر نہیں ہے۔
ہم لوگ ایک لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ذاتی محنت اور کوشش سے تمام اپوزیشن قیادت کو مذاکرات کے ذریعے اکٹھا کیا اور متفقہ"آئین" منظور کرایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مد مقابل بلند پایہ سیاست دان تھے۔ خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، نواب زادہ نصراللہ خان اپوزیشن میں تھے۔
دعویٰ سے کہا جا سکتا ہے کہ اب نہ کوئی بھٹوجیسا ذہین سیاستدان اور وزیراعظم ہے اور نہ ہی اپوزیشن قائدین اس تدبر و ذہانت کے مالک ہیں جو بھٹو کی اپوزیشن قیادت میں موجود تھی۔ ویسے ادب کے دائرے میں رہ کر عرض کرتا ہوں کہ جسٹس کارنیلیس، جسٹس داراب پٹیل اور جسٹس بھگوان داس جیسے ججز بھی اب ناپید ہیں۔
ذرا غور فرمائیے کہ غیر مسلم ججز، جس قدر لائق اور قانونی جہتوں پر مہارت رکھتے تھے۔ اتفاق سے مسلمان ججز کے پاس وہ عملی اور فنی سرمایہ ناپید نظر آتا ہے۔
آئین کی بالادستی پر کسی قسم کی کوئی بحث روا یا جائز نہیں ہے۔ یہ وہ چشمہ ہے جس سے باقی سارے ادارے سیراب ہوتے ہیں۔ آئین کے سامنے کسی بھی ادارے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اس تناظر میں موجودہ سیاسی اور عدالتی بحران کودیکھیے تو فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ بالادست کون ہے۔ اصولِ حکمرانی میں کون اول پوزیشن پر بیٹھاہے۔ ہرگز ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ سپریم کورٹ، پارلیمان سے افضل یا برتر ہے، یہ مرتبہ صرف اور صرف آئین کو حاصل ہے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ آئین کی تشریح کا حق صرف عدالت عظمیٰ کو حاصل ہے۔ یعنی آئین کے کسی آرٹیکل کی وضاحت کرنی ہو تو یہ اصولی حق صرف سپریم کورٹ کے پاس موجود ہے۔ آج کل الیکشن کب ہوگا، اس پر بحث جاری ہے۔ مگر کوئی بھی عدالت کے فیصلے کے سامنے دم نہیں مار سکتا، نوے دن میں الیکشن کا ہونا لازم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عبوری حکومتوں کی بے اعتنائی کی بدولت جو چند دن اضافی دیے گئے ہیں، وہ الیکشن منعقد ہونے کا فل اسٹاپ ہے۔
پی ڈی ایم کی قانونی ٹیم کی موشگافیاں اپنی جگہ، ان کی بنچ کے متعلق پانچ یا سات یا نو کی ادنیٰ بحث بھی اپنی جگہ۔ مگر آئین کے مطابق، الیکشن کی تاریخ کی بابت سپریم کورٹ کا فیصلہ اب اٹل حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس سے کسی کو بھی انحراف کرنا ممکن نہیں۔ پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرار داد کی منظوری اور پارلیمان کا الیکشن کے لیے پیسوں کا اجراء نہ کرنا بھی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کی خلاف ورزی ہے۔
دو دن پہلے، عدالت عظمیٰ میں حکومت کی طرف سے Money bill رد ہونے کے متعلق جو بات کہی گئی ہے، اس سے وزیراعظم کے لیے ناقابل بیان مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ عدالت کے ایک معزز جج کا اٹارنی جنرل سے یہ پوچھنا کہ منی بل رد ہونے کا جمہوریت میں مطلب تو یہ ہے کہ وزیراعظم پارلیمان میں عددی اکثریت کھو چکے ہیں، یہ حد درجہ نازک بات ہے۔
اٹارنی جنرل کے معصومانہ جواب کو عدالت کے جج نے تسلیم کر لیا کہ وزیراعظم کے پاس نیشنل اسمبلی میں اکثریت موجود ہے۔ دوسری صورت میں یہ حکم برملا جاری کیا جا سکتا تھاکہ کیونکہ حکومتی منی بل رد ہو چکا ہے، اس لیے فوری طور پر وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لیں۔ مگر جج صاحبان نے حد درجہ بردباری کا مظاہرہ کیا اور اس قسم کا حکم جاری نہیں کیا۔
گمان ہے کہ اس دن کا فیصلہ پڑھ کر وزیراعظم رات کو گہری نیند سو نہیں پائے ہونگے۔ چلیئے، یہ بات جانے دیجیے۔ وزیراعظم، مہربانوں کے کندھوں پر بیٹھ کر آرام سے کام کر رہے ہیں لیکن سچ یہی ہے، آج بیساکھیاں ہٹ جائیں تو پندرہ بیس منٹ میں ہی انھیں مسند شاہی سے اترنا پڑے گا۔
محترم جج صاحبان کا یہ فرمانا کہ الیکشن کی تاریخ پر پس و پیش کرنے کے نتائج حد درجہ سنجیدہ ہو سکتے ہیں کا صاف مطلب تو یہی لگتا ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے، یوسف رضا گیلانی کی مثال زیادہ پرانی نہیں ہے۔ کسی بھی وزیراعظم کو عدالت عظمیٰ کی سطح پر نااہل قرار دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
چند جید سیاست دانوں کا یہ خیال ہے کہ پی ڈی ایم حکومت عوامی سطح پر کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکی اور انھیں عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
لہٰذا وہ عدالت کے ہاتھوں اقتدار سے نکلنا پسند کریں گے۔ کیونکہ پھر ان کا بیانیہ مظلومیت ہوگا، کہا جائے گا کہ ہمارے ساتھ تو عدالت نے ظلم کیا لہٰذا ہم تو مظلوم ہیں، ہمیں کام کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ شائد آپ کو یقین نہ آئے۔ مگر حد درجہ فہمیدہ لوگوں نے حکومتی اکابرین کے متعلق یہ بات بہت جگہ پر کی ہے۔
پی ڈی ایم کے سرکردہ لوگوں نے ویسے بھی اپنے نیب کے کیس ختم کروا لیے ہیں۔ لہٰذا ان کا حکومت میں رہنے کا کوئی خاص مقصد نہیں ہے۔ سیاسی شہادت کا بیانیہ شاید ان کے کام آ جائے۔ مگر اس کے امکانات بھی قدرے کم ہیں۔
سپریم کورٹ نے جید سیاست دانوں سے مشاورت کا جو ڈول ڈالا ہے، ایسے گمان ہوتا ہے کہ مہربان بھی اب حالات سے تنگ آ چکے ہیں۔ تمام فریقین اور سٹیک ہولڈرز ایک باعزت راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسی کی سبکی نہ ہو۔ یہ محض ایک قیافہ ہے۔ مذاکرات کی یہی کوشش صدر صاحب نے بھی کی تھی مگر وہ ناکام بنا دی گئی۔ مگر اس وقت اور آج کے معروضی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
صدر کا عہدہ حد درجہ محترم ہے۔ مگر ان کے عہدہ کے پاس وہ آہنی دانت نہیں ہیں جن سے سیاسی اکابرین ٹس سے مس ہوسکیں۔ مگر سپریم کورٹ کے سامنے کوئی بھی دم نہیں مار سکتا۔ معزز جج صاحبان کا فیصلے میں لکھا ہوا صرف ایک جملہ کسی بھی جید سیاست دان کی سیاسی زندگی کو ختم کر سکتا ہے۔ اس آہنی اور قانونی ہاتھ سے تمام ادارے اور سیاست دان گھبراتے ہیں۔ انھیں اپنا مستقبل معلوم ہو جاتا ہے، اس لیے کوئی بھی عدالت کے حکم کی نافرمانی کے متعلق سوچ نہیں سکتا۔
پھر وکلاء کا ایک مضبوط دھڑا عدالت عظمیٰ کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ یہ امر بھی موجودہ حکومت کی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ اب ہونا کیا چاہیے، اس سے پہلے کہ ملک کسی ناگہانی آفت میں مبتلا ہو جائے، عدالت کے سامنے سرتسلیم خم کر لینا چاہیے۔
ہاں اگر معامہ مزید بگاڑنا ہے تو مرکنڈے کاٹجو والی بات سے انحراف کرنے کی ہمت کر لیجیے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا؟