Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aik Rudaad

Aik Rudaad

فیصل آباد سے تعلق رکھے والے پی ٹی آئی کے ایک سیاستدان کا ڈرائیور چند روز پہلے کسی شخص کو گلبرک لاہور چھوڑنے آیا، پتہ نہیں کس نے اسے میرے بارے میں بتایا اور گلبرک میں میرے دفتر کا پتہ بھی بتایا، مجھے بتایا گیا کہ اعجاز نام کا کوئی شخص فیصل آباد سے آیا ہے، میں کسی اعجاز نام کے آدمی کو بالکل نہیں جانتا تھا، میں چونکہ فیصل آباد سے ہوں، اس لیے اسے بلا لیا۔

اسے کسی نے بتایا تھا کہ میں اخبار میں لکھتا ہوں، میرے پاس آ کر کہنے لگا کہ آپ لکھاری تو بڑے بڑے لوگوں کے متعلق لکھتے ہیں۔

کوئی وزیراعظم کا انٹرویو کرتا ہے، تو کوئی صدر کا۔ لیکن عام آدمی کے بارے میں کوئی کچھ نہیں لکھتا اور نہ ہی اس کی بتائی ہوئی کسی بات کو بنیاد بنا کر کوئی کالم لکھتا ہے۔ میں بھی آپ کو لکھنے کے لیے کچھ بتا سکتا ہوں۔ میں نے کہا کہ بتاؤ کیا بتانا چاہتے ہو۔

میں نے بھی سوچا کہ اس کی باتوں سے اندازہ ہوگا کہ پاکستان کا ایک غریب آدمی سیاست، ریاست، ریاستی اداروں کے متعلق کیا رائے رکھتا ہے۔ لیکن اس نے سیاست وغیرہ پر بات کرنے کے بجائے زمان پارک لاہور میں پولیس آپریشن اور پی ٹی آئی کارکنوں کی مزاحمت کی کہانی بیان کر دی اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس روز اس پر کیا گزری۔

اعجاز نے بولنا شروع کیا اور کہا کہ وہ اس روز فیصل آباد سے اپنے صاحب کو لے کر عمران خان کے زمان پارک والے گھر آیا تھا۔ یہ مارچ کی پندرہ تاریخ تھی۔ زمان پارک کے باہر قطاروں میں خیمے لگے ہوئے تھے اور ان میں سیکڑوں لوگ موجود تھے۔ میرا صاحب تو ایک خیمے میں چلا گیا۔ میں خان صاحب کے گھر کے گیٹ نمبر دو کے باہر گھاس پر لیٹ گیا۔

میرا تو خان صاحب سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی سیاست سے کوئی دلچسپی ہے۔ بس وقت گزارنا تھا۔ لہٰذا میں نے اردگرد غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔ رات کے نو بجے کا وقت تھا۔ پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینکنے شروع کر دیے، چار شیل میرے نزدیک آ کر گرے۔

گیس سے میری آنکھیں جلنے لگی اور سانس لینے میں دشواری ہونا شروع ہوئی، ہر طرف دھواں پھیل گیا، لوگ افراتفری میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ پھر چند نوجوانوں نے ہاتھ میں پانی کی بالٹیاں پکڑی اور جہاں بھی گیس کا شیل گرتا، وہ اس کے اوپر پانی ڈال دیتے تھے اور شیل کی طاقت ختم ہو جاتی تھی۔ ڈیڑھ گھنٹہ یہ کھیل جاری رہا۔

پولیس کبھی بہت آگے آ جاتی تھی اور پھر پی ٹی آئی کارکنوں کی مزاحمت کے باعث واپس چلی جاتی تھی۔ میں نے کئی خالی شیل جمع کرلیے تاکہ گھر جا کر دکھا سکوں کہ زمان پارک میں کیا ہو رہا تھا۔

بقول اس ڈرائیور کے آنسو گیس کے شیل تین رنگوں میں تھے، کالے، نیلے اور سلور رنگ کے۔ دروغ بہ گردن راوی! ڈرائیور کا دعویٰ تھا کہ آنسو گیس کے یہ شیل زائد المعیاد تھے، جس کی وجہ سے لوگوں کے گلے اور آنکھیں بری طرح متاثر ہوئے۔

میرے لیے یہ ایک انکشاف ہے لیکن حقیقت کیا ہے، یہ تو پی ٹی آئی کے قائدین کو پتہ ہوگا یا پولیس کو لیکن پی ٹی آئی نے اس حوالے سے کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے باقاعدہ طور پر کوئی بات کی ہے لہٰذا اس بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ واللہ اعلم بالصواب۔ دو ڈھائی گھنٹے بعد شیلنگ بند ہوگئی۔

پی ٹی آئی کے سیکڑوں کارکنوں نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا اور مزاحمت شروع کردی، وہ شیل کو گیلے تولیے سے پکڑتے تھے اور واپس پولیس پر پھینک رہے تھے۔ کئی کارکنوں نے درختوں سے ٹہنیاں توڑ کر ڈنڈے بنا لیے تھے، بہت سو کے پاس ڈنڈے موجود تھے۔ پولیس کے پاس ڈنڈے، آنسو گیس اور پانی پھینکنے والی گاڑیاں تھیں، پولیس کے پاس ہتھیار نہیں تھے۔

چار گھنٹے ایسا لگتا تھا کہ کوئی جنگ ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکن ڈنڈوں سے اپنا دفاع کر رہے تھے۔ اس طرح صبح کے چھ بج گئے، میرا وہاں موجود رہنا مجبوری تھی کیونکہ صاحب کی گاڑی وہاں موجود تھی اور صاحب کا کوئی پتہ نہیں تھا اور نہ ہی اس سے کوئی رابطہ ہو رہا تھا۔ یہ بڑا پریشان کن لمحہ تھا۔

پولیس کی طرف سے ایک بار پھر کارروائی شروع ہوگئی، آنسو گیس دوبارہ استعمال ہونا شروع ہوگئی، دھواں کے بادل ہر طرف موجود تھے۔ کارکنوں نے شیلوں پر پانی ڈالنا شروع کر دیا، کئی نوجوان، قریبی گھروں سے پانی کے پائپ لے آئے اور شیلوں کو ناکارہ بنانا شروع کر دیا۔ زرتاج گل اور علی زیدی گاڑیوں میں بیٹھے رہے، ان کے علاوہ میں کسی اور لیڈر کو نہیں دیکھ سکا۔

پولیس کی شدید مزاحمت کی گئی، پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس پر پیٹرول بم پھینکے، پولیس نے ہوائی فائرنگ کی تاکہ لوگوں کو ڈرا کر بھگایا جا سکے۔ مگر گھر کے اندر سے مزاحمت جاری رہی۔ ڈرائیور اعجاز نے مزید بتایا کہ اس نے صبح سات بجے اپنی ماں کو فون کیا، اور زمان پارک میں جاری پولیس ایکشن اور پی ٹی آئی کارکنوں کی مزاحمت اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں بتایا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان بھی ماسک پہنے باہر آ گئے۔ لوگوں نے اسے کہا کہ وہ اندر چلا جائے کیونکہ سب کچھ اسے گرفتار کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، خان لوگوں کے اصرار پر دوبارہ اندر چلا گیا۔

اعجاز کو محسوس ہوا کہ کہیں وہ مارا نہ جائے لیکن اللہ نے کرم کیا، پولیس آپریشن رک گیا، اور میں صبح نو بجے اپنے صاحب کو لے کر واپس فیصل آباد روانہ ہوگیا، زمان پارک سے دور جاکر گاڑی روکی تاکہ طبیعت بہتر ہو چکے، ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہم گاڑی چلا کر فیصل آباد آ گئے۔

میں یہ روداد سن کر دکھی اور پریشان ہوگیا، اس وقت سے لے کر اب تک یہی سوچ رہا ہوں کہ ہمارا ریاستی اور حکومتی نظام کتنا ناقص ہے۔ ہمارے ملک میں عوام کا والی وارث کوئی نہیں ہے۔ طاقت کے غیر متوازن استعمال پر کوئی قدغن نہیں۔ ہم کیسے ایک مہذب ملک کہلوانے کے قابل ہیں۔ میڈیا نے بھی اسی طرز پر رپورٹنگ کی ہے۔ اعجاز تو دل کا غبار نکال کر چلا گیا۔ مگر کیا سیاستدانوں اور ریاست کو سوچنے کے لیے سوالات نہیں دے گیا۔

پولیس بھی ہماری ہے، فوج بھی ہماری ہے، سیاسی جماعتیں بھی ہماری ہیں۔ مگر عوام بھی تو ہمارے ہی ملک کے ہیں۔ یہ کسی غیر ملک سے تو نہیں آئے۔ امیر آدمی تو خیر ہر طرح سے محفوظ ہے۔ زمان پارک میں بھی لیڈر حضرات کو تو کچھ نہیں ہوا لیکن وہاں موجود عام لوگ عمران خان کے عشق میں مار کھا کر گھروں میں آگئے، آدمی تشدد کی تفصیل کس کے سامنے لے جائے۔ پھر سیاسی کارکنوں کے خلاف طاقت کا بے جواز استعمال کیوں؟ کیا اس ہنگامہ آرائی سے بچا نہیں جاسکتا تھا؟