Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Aik Waba Ye Bhi Hai

    Aik Waba Ye Bhi Hai

    ہالی وڈ دنیا میں فلمیں بنانے کا حیرت انگیز شہر ہے۔ اس کی مٹی بھی سونے کی مانندہے۔ فلم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے امیرترین لوگ یہیں رہتے ہیں۔ اکثریت کے گھرBeverly Hills اوراس کے اطراف میں ہیں۔ گھروں کی قیمت عام آدمی کی سوچ سے بھی اوپرہے۔ حال ہی میں ایک گھرایک سوساٹھ ملین ڈالرکافروخت ہواہے۔

    اس سے اندازہ ہوتاہے کہ امریکی فلم انڈسٹری میں کتنازیادہ پیسہ ہے۔ ہالی وڈمیں سالانہ چھ سے سات سوفلمیں بنتی ہیں اوردس سے پندرہ بلین ڈالرکامنافع حاصل کیاجاتاہے۔ مگرگزشتہ ایک دہائی سے یہ دولت ایک نئے فلمی شعبے کے مقابلے میں انتہائی کم نظرآتی ہے۔ وہ ہے پورن انڈسٹری۔ Strange but Trueنامی ادارے نے ہولناک انکشافات کیے ہیں۔

    صرف امریکا میں تیرہ ہزارپورن فلمیں سالانہ بنتی ہیں۔ انکامجموعی منافع پندرہ بلین ڈالر ہے۔ امریکا میں کھیلوں کی دنیا میں محیرالعقول دولت ہے۔ بیس بال معروف اسپورٹس ہے۔ اس کے کھلاڑی سونے اورہیروں میں تولے جاتے ہیں۔ مگربیس بال لیگزکی مجموعی دولت پورن انڈسٹری سے بہت کم ہے۔ ایک سنجیدہ امریکی جریدے کے مطابق N.B.A، NFL کے تمام وسائل کوملابھی لیاجائے تب بھی یہ پورن انڈسٹری کی دولت سے بہت پیچھے ہے۔

    ہمارے ملک میں اس پرکھل کرکبھی بات نہیں ہوتی تاہم قابل توجہ بلکہ قابل تشویش بات یہ کہ ہے، دنیا بھرمیں پاکستان غیر اخلافی فلموں والی سائٹس سرچ کرنے کا بڑا مرکز ہے۔ یعنی غیراخلاقی سائٹس کے شائقین میں ہم لوگ سرِفہرست ہیں۔ اس کے بعد سعودی عرب، مصر، ترکی اورمراکش ہیں۔ مغربی دنیاکا بھی یہی حال ہے۔ برازیل، اٹلی، جرمنی، فرانس اور چندد یگر ملک مغرب میں پورن دیکھنے والے سرِفہرست ملک ہیں۔ ایک مغربی جریدے کے مطابق ایک غیر اخلاقی ویب سائٹ پرصرف ایک سال میں تیس بلین صارفین نے وزٹ کیاہے۔

    مطلب یہ ہواکہ صرف ایک ویب سائٹ 64ملین افراد روزدیکھتے ہیں۔ ایک گھنٹہ یعنی ساٹھ سیکنڈمیں چھبیس لاکھ افراد تفریح کے لیے اس سائٹ پرکلک کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک سیکنڈ میں نوے جی بی ڈیٹااستعمال کرتی ہے۔ ایک سو بلین افراد سالانہ صرف ایک ویب سائٹ وزٹ کرتے ہیں۔ ایک جریدے نے تحقیق کرکے لکھاہے کہ دنیا میں ہر 39سیکنڈمیں ایک نئی پورن فلم بنائی جاتی ہے۔ ایک سیکنڈکے دورانیے میں تین ہزارڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پرمجموعی طورپرجوبھی میٹریل موجودہے، اس میں سے بارہ فیصد پورن ہے۔ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ یہ شیطانی انڈسٹری چندبرسوں میں دگنی ہوکر دنیاکی سب سے بڑی صنعت کا درجہ حاصل کرلیگی۔ ہتھیاروں، میزائلوں اور ایٹم بم کی مجموعی قیمت سے بھی زیادہ۔

    کسی کواحساس تک نہیں کہ ہمارے ملک میں ابلیسیت انتہائی خاموشی اور سکون کے ساتھ بے راہ روی پھیلانے میں مصروف کار ہے عریاں فلمیں دیکھنے اور ان سے حظ اُٹھانے والوں کی کوئی مخصوص عمرنہیں۔ ہر عمر اورطبقے کے افرادشامل ہیں۔ ہماری نفسیاتی اُلجھنیں اورمنافقت زدہ سماج کے گھاؤ ہماری نوجوان نسل بلکہ عمررسیدہ افراد کو بھی ذہنی بیماریوں کے بلیک ہول کی طرف دھکیل رہی ہیں۔

    ایک ہی انسان میں کئی قسم کے انسان قیام پذیرہیں۔ انھی میں نیکی کاعنصربھی ہے، دکھاؤے کابھی، درندگی کابھی، ایثار وقربانی کابھی، بے حسی و لالچ اور بے رحمی کا بھی۔ اب یہ حالات اور سماجی ماحول پرمنحصرہے کہ کوئی درندہ بن کر زینب جیسی معصوم بچی کی عصمت دری کرکے قاتل بن جاتاہے۔

    کوئی اپنے کردارکی بلندی سے عبدالستارایدھی میں تبدیل ہوجاتاہے۔ ایک عنصرپربات کرنی اہم ہے۔ وہ ہے انٹرنیٹ اوراس کااستعمال۔ جدیدترین ٹیکنالوجی ہرایک شخص کی دسترس میں ہے۔ انٹرنیٹ کامنفی اور غلط استعمال معاشرے کوکس قدر ہولناکی سے نقصان پہنچا رہاہے، شاید اس کااندازہ ہمارے پالیسی سازوں اور اہل علم کونہیں ہے۔ جب تک ہم ہمت کرکے اس موذی بلاکوگردن سے پکڑکرفنا نہیں کردیں گے۔ ہم اس کے پھیلائے ہوئے شرکامقابلہ نہیں کرسکتے۔

    پورن سائٹس کوروکنے کی اولین ذمے داری تو حکومت کی ہے۔ متعلقہ ادارہ اپنی استطاعت اور وسائل کے مطابق کام کرنے کی پوری کوشش بھی کر رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اب تک ساڑھے نولاکھ عریاں سائٹس کوبلاک کردیاگیاہے۔ مگر شیطانی سائٹس کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ کیایہ صرف حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اس عفریت سے اکیلی لڑے۔ یااس میں عوام پر بھی کوئی ذمے داری عائدہوتی ہے۔ طالبعلم کی دانست میں اس سماجی مسئلے کی بھرپورذمے داری ہمارے معاشرے، سماجی و خاندانی نظام پرعائدہوتی ہے۔ کسی بھی گھرکے اندرونی خانگی نظام پرغورکیجیے۔

    رات گئے تک کمپیوٹر پر بچے اوربچیاں تعلیم حاصل کرنے میں مصروف نظرآتے ہیں۔ ماں باپ دل سے بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ماشاء اللہ ان کی اولادبڑی محنت کررہی ہے۔ مگرکیا والدین پرفرض نہیں کہ وہ یہ پڑتال بھی کریں کہ ان کی اولاد واقعی پڑھ رہی ہے یا کسی شیطانی چکر میں آگئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ نوے فیصدوالدین یہ چیک کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ کیا یہ حددرجہ غیرذمے دارانہ رویہ نہیں ہے۔ کیاوالدین اس کوتاہی کی وجہ سے اپنی اولادکے اخلاقی بگاڑکے ذمے دارنہیں ہیں۔ صرف ہرگھرکے بزرگوں سے پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا آپ نے اپنے گھرمیں یقینی بنایا ہے کہ اولاد کس رخ جارہی ہے؟ کم ازکم طالبعلم نے والدین کوا س طرف توجہ دیتے ہوئے بہت کم دیکھا ہے۔ انیکاچوہان نے اپنی ایک تحریر میں اس زاویہ سے بیش قیمت بحث کی ہے۔

    پورن فلمیں دیکھنے کے رجحان کے کئی زیادہ اسباب ہیں۔ ٹیکنالوجی تک آسان رسائی، بے روزگاری کیونکہ ملک میں باعزت روزگار ملنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ ادنیٰ یونیورسٹیاں اورمعمولی درجے کے کالج بے روزگارنوجوان تیار کرنے کی تیزرفتار مشین بن چکی ہیں۔ اب توصورتحال یہ ہے کہ گلی محلوں کی سطح کے ادارے ایم بی اے اوردیگر ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح بانٹ رہے ہیں۔ بلکہ بعض صورتوں میں فروخت بھی کررہے ہیں۔ بے روزگار نوجوانوں کی اکثریت شدیدنفسیاتی اُلجھنوں کاشکارہوجاتی ہے۔ ساتھ ساتھ تعلیم کے کم مواقعے جہالت و لاعلمی کوفروغ دیتے ہیں۔

    گھروں میں چخ چخ اور بات بات پرلڑائی بھی منفی ذہنی رجحانات کو جنم دیتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ انسان غلط راہ کواصل سمجھ کر اس میں پر چل نکلتا ہے اور پھر بتدریج اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے واپسی تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے۔

    مگر سوال یہ ہے کہ اس سنگین ترین مسئلے کاحل کیاہوناچاہیے؟ ٹیکنالوجی کو بند توخیراب نہیں کیا جاسکتا۔ ان حالات میں والدین کی طرف ہی دیکھاجاسکتاہے۔ والدین اپنے بچوں اوربچیوں پر کڑی نظررکھیں۔ اگروالدین یہ نہ کرسکے تواولاد ایسے اخلاقی اور ذہنی خلفشارکاشکارہوجائے گی جس کا تصورکرنابھی ناممکن ہے۔ دنیا بھر سائنسدان، سماجی ونفسیاتی ماہرین اورڈاکٹرز، پورنوگرافی کو موجودہ صدی کی سب سے بڑی وباء قراردے چکے ہیں۔ اس کامقابلہ ہم اپنے خانگی نظام کی طاقت سے کامیابی سے کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس کا ہرحال میں مقابلہ کرنا ہے کیونکہ انٹرنیٹ تواب ختم نہیں کیا جا سکتا؟