رچرڈ اولسن امریکا کے حددرجہ منجھے ہوئے سفیر تھے۔ پوری زندگی سفارت کاری سے منسلک رہے۔ پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں بھی بطور امریکی سفیر کام کرتے رہے۔ بارک اوباما سے ان کا ذاتی تعلق تھا۔ مقتدر حلقے انھیں وائٹ ہاوس کے بہت قریب گردانتے تھے۔
اہم فیصلہ سازی میں ان کی مشاورت شامل ہوتی تھی۔ ریٹائرمنٹ نزدیک آ رہی تھی۔ 2015کے اوائل میں اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد رچرڈ اولسن کو گھر جانا تھا۔ اسی اثنا میں اس کی ملاقات ایک پاکستانی تاجر سے ہوئی۔ اس کاروباری شخص کا قطر کے شاہی خاندان سے بہت نزدیکی تعلق تھا۔ پاکستانی تاجر نے اولسن کو کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ قطر ی حکومت کے امریکا سے تعلقات بہتر کروائے۔
دوسرے لفظوں میں اسے قطر کے لیے لابنگ کرنے کا کہا گیا۔ اولسن ریٹائر ہو چکا تھا۔ پاکستانی تاجر کے کہنے پر واشنگٹن سے لندن آیا۔ یہ 2015 کا سال تھا۔ لندن آنے اور مہنگے ہوٹل میں ٹھہرنے کے اخراجات انیس ہزار ڈالر تھے۔ یہ تمام پیسے اسی پاکستانی شخصیت نے فراہم کیے۔
لندن میں اولسن کی ملاقات، بحرین کی ایک کمپنی کے مالک سے ہوئی۔ جس نے اسے تین لاکھ ڈالر سالانہ کی نوکری کرنے کی دعوت دی۔ کام وہی کہ قطری حکومت کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ اولسن نے یہ نوکری کبھی بھی نہیں کی۔ آپ کو یاد کرواتا چلوں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے قطر کے ساتھ تمام تجارتی اور سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ قطر پوری عرب دنیا میں بہت حد تک تنہائی کا شکار ہو چکا تھا۔
اولسن نے قطر میں امریکی سفیر کو فون کیا جو اس کا قریبی دوست تھا۔ اسے کہا کہ وہ امریکی حکومت کے ساتھ قطر کے معاملات کو بہتر بنائے۔ اس نے واشنگٹن میں بھی طاقتور سفارتی حلقوں میں بھی قطر کی حمایت میں آواز اٹھائی۔ اولسن نے امریکی وزارت خارجہ کو یہ بھی درخواست کی کہ قطر میں امریکی ایمگریشن کی باقاعدہ اجازت دی جائے۔ ان تمام معاملات میں کوئی بھی امر غیر قانونی نہیں تھا۔
بلکہ اولسن نے قطر کے ساتھ کسی قسم کا کوئی معاہدہ کیا ہی نہیں تھا۔ نہ ہی اس نے کسی بھی شخص سے کسی قسم کے کوئی پیسے لیے تھے۔ مگر اولسن ایک بہت بڑی غلطی کر چکا تھا۔ امریکی قانون کے مطابق سفیر ریٹائرمنٹ کے ایک برس بعد تک کسی بھی بیرونی حکومت یا ادارے کے لیے کام نہیں کر سکتا۔ اولسن نے یہ تمام کام بلاشبہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا مگر اس نے ایک برس کی مدت کا خیال نہیں رکھا تھا۔
معاملہ شاید اسی طرح چلتا رہتا۔ مگر ایک امریکی اخبار نے اولسن کی اس قانونی بے قاعدگی کے متعلق تحقیقاتی رپورٹ شایع کر دی۔ جرم تھاکہ اس نے ایک پاکستانی تاجر کے پیسوں سے امریکا سے لندن کا سفر کیا۔ انھی پیسوں سے ہوٹل میں قیام کیا اور اسے اخلاقی اور قانونی طور پر یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایک برس کی پابندی والے قانون کو بھی مد نظر نہیں رکھا گیا۔ یاد رہے کہ یہ سب کچھ اولسن نے ریٹائرمنٹ کے بعد کیا تھا۔
اس غیر قانونی طرز عمل پر امریکی حکومتی حلقوں میں کہرام مچ گیا۔ بدقسمتی سے اولسن نے اپنے سالانہ گوشواروں میں یہ ذکر نہیں کیا تھا کہ اس نے پاکستانی تاجر کے انیس ہزار ڈالروں سے ایک پر تعیش سفر کیا تھا۔
امریکی حکومت نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر اولسن کے خلاف عدالت میں مقدمہ کر دیا۔ الزامات بالکل سادہ سے تھے۔ اس نے حکومتی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ بہت بڑا جرم ہے۔ اولسن نے چند دن پہلے عدالت میں مقدمہ میں الزام قبول کر لیا۔ برملا کہاکہ اس سے غلطی ہو گئی ہے۔ جج نے اس کے مقدمہ میں کہا کہ ایک امریکی سفارت کار کا یہ رویہ غفلت ہی نہیں بلکہ سنگین جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
اقبال جرم کرنے کے بعد بھی اولسن کے وکلاء کا یہ خیال ہے کہ اسے سزا سنائی جائے گی اور اسے جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ یہ صورت حال صرف پچھلے ہفتہ کی ہے۔
یہ پورا واقعہ لکھتے ہوئے مجھے عجیب سا افسوس ہو رہا ہے۔ وجہ یہ کہ ہمارے ہاں امریکی دشمنی کو بطور سیاسی نعرہ لگانے کا عمومی رواج ہے۔ امریکا کے متعلق مذہبی جماعتوں سے لے کر، وطن پرست سیاست دانوں تک، سب امریکا کے تعلقات پر کسی نہ کسی منفی بیانیہ کو اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ مگر کوئی بھی فرد یا سیاسی جماعت یا ادارہ یہ بات کہنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ امریکا اپنے قائدین، اہم لوگوں، سرکاری عمال اور اکابرین پر حد درجہ کڑی نظر رکھتا ہے۔
اس کے سیاست دان واقعی ایک ڈالر کی کرپشن کرنے کا تصور نہیں کر سکتے۔ انھیں پتہ ہے کہ اگر ان کی معمولی سی بھی غیر قانونی یا غیر اخلاقی حرکت کا کسی بھی حکومت یا غیر حکومتی ادارے کو علم ہو گیا، تو وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیں گے۔
ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہو گی اور پھر بدنامی اور بے عزتی کا سیاہ داغ ماتھے پر مرتے دم تک قائم و دائم رہے گا۔ امریکی صدر دنیا کا سب سے طاقتور شخص گردانا جاتا ہے۔ مگر وہ اور اس کا خاندان، سرکاری جہاز یا سرکاری گاڑی کے بے جا استعمال کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔ بارک اوباما کی بیٹی وائٹ ہاؤس میں اپنے والد کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں بطور ویٹرس کام بھی کرتی تھی۔
اندازہ لگایئے کہ وہ لڑکی وائٹ ہاؤس سے باہر نکل کر عام بس میں سفر کرتی تھی۔ دو بسیں بدل کر اپنے ریسٹورنٹ پہنچتی تھی۔ شام کا کام ختم کر نے کے بعد وہ پھر بس میں بیٹھ کر وائٹ ہاؤس واپس آتی تھی۔
ذرا سوچئے، کیا امریکی صدر، اسے ایک معمولی سی سرکاری گاڑی کی سہولت مہیا نہیں کر سکتا تھا۔ نہیں صاحب نہیں۔ بارک اوباما اسے سرکاری سطح پر گاڑی تو کیا، ایک موٹر سائیکل کی سہولت تک مہیا کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ صاحبان۔ یہ وہ کڑا اخلاقی اور قانونی شکنجہ ہے جس کی بدولت امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے اور ابھی کافی عرصہ تک رہے گا۔
پاکستان میں کیونکہ ہمیں منافقت اور منافرت کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ لہٰذا ہمارا پورا سماج، معاشرہ، حکومت، ریاستی ادارے دو عملی کا شکار ہیں۔ ہاں میں مذہبی حلقے کا ذکر کرنا فراموش کر گیا۔ وہ بھی بھرپور طور پر دوہری زندگی گزار رہے ہیں۔
تلقین سادگی کی، مگر لینڈ کروزر سے کم گاڑی پر سفر کرنا توہین سمجھتے ہیں۔ سیاست دانوں کا ایک مخصوص طبقہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے امریکا کے متعلق ہر منفی بات کرنے کو فرض منصبی سمجھتا ہے مگر امریکا کی خوشنودی سے ہی حکومت میں آنا چاہتا ہے۔ عوام کی اکثریت کے لیے امریکا کی شہریت ایک خواب کی حیثیت رکھتی ہے۔
ہمارے سماجی اداروں کے نیک نام سربراہان، امریکا جا کر چندہ اور خیرات اکٹھا کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ ہر ایک کو معلوم ہے کہ امریکا اپنے شہریوں کو دنیا کی بہترین مراعات فراہم کرتا ہے۔
وہاں کوئی طاقتور شخص، کسی کمزور کا حق نہیں مار سکتا۔ وہاں آپ کی زمین پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں دوائی اور کھانے کی اشیاء میں دو نمبری نہیں ہے۔ اور ہاں وہاں انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی طبقہ انصاف سے بالاتر نہیں ہے۔ ایک بات آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے سرکاری اداروں کے سینئر سطح کے لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا منتقل ہونا حد درجہ صائب سمجھتے ہیں۔
ریاستی اداروں کے افسر بھی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد امریکی شہریت بہر طور حاصل کرتے ہیں۔ اس کی منصوبہ بندی ریٹائرمنٹ سے کافی عرصہ پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے۔
ہمارے ممتاز ترین دانشور، جو ہر وقت پاکستان کے غم میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ ان کی اکثریت اپنے ملک میں رہنا پسند نہیں کرتی۔ امریکا میں رہ کر وہ ٹویٹراور واٹ ایس ایپ پر پاکستان کو صحیح کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ فرض بھی خوب نبھاتے ہیں۔ مگر عجیب بات کہ حق بات کہنے کے لیے اپنے ملک کا چناؤ نہیں فرماتے۔ کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ پاکستان میں بالائی طبقہ کے خلاف بات کرنے کی کیا سزا ہے۔ اور یہاں انصاف لینا ناممکن ہے۔
ہمارے سیاسی میدان میں اس وقت ایک جماعت سازش کا لفظ بار بار استعمال کر رہی ہے۔ جلسوں میں خط لہراکر باآواز بلند فرمایا جاتا ہے کہ ہماری حکومت کو امریکی سازش کے تحت ختم کیا گیا ہے۔ معلوم نہیں سچ کیا ہے۔
مگر کیا دنیا کا طاقتور ترین ملک، لکھ کر دوسرے ملک کی حکومت تبدیل کرنے کی دھمکی دے گا۔ کبھی امریکی اداروں نے اعلان کرنے کے بعد کسی بھی ملک کی حکومت کو تبدیل کیا ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔
چلے مان لیجیے کہ سازش ہوئی ہے تو پھر بھی استعمال تو پاکستان کی مقامی اعلیٰ قیادت ہی ہوئی ہے۔ یاد رکھیئے۔ جب تک امریکی سینئر سفارت کار اولسن صرف انیس ہزار ڈالر کے بے جا سفر پر سزا پا سکتا ہے، امریکا سپر پاور رہے گا۔ اپنے گریبان میں جھانکیے۔ آپ حکومتی اور ریاستی سطح پر عام لوگوں سے کیا سلو ک کر رہے ہیں۔ آج بھی یہی عرض کرونگا کہ امریکا کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنے کی کوشش کیجیے۔ اسی میں ہمارا قومی مفاد ہے!