Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aneesa Aur Arooj

Aneesa Aur Arooj

ایدھی فاؤنڈیشن کی طرف سے عطیہ شدہ سفید چادروں میں یہ دو لاشیں کس کی ہیں۔ کورے لٹھے سے باہر نکلے ہوئے پیروں کے انگوٹھوں پر کاغذ بندھا ہوا ہے۔

شاید مردہ انسان کے نام لکھے ہونگے یا اسپتال کی طرف سے نمبر لکھ دیا گیا ہو۔ یا شاید شناختی کارڈ نمبر ہو۔ ویسے ہم تمام لوگ ادنیٰ پلاسٹک کے بنے ہوئے شناختی کارڈ ہی تو ہیں۔ کسی قسم کے انسانی حقوق کے بغیر اس معاشرے میں سانس لینے کے لیے مجبور۔ عام سی تصویروں میں تو شاید ہم انسان سے نظر آتے ہیں۔ مگر تمام ذی الشعور لوگ جانتے ہیں کہ انسان کس طرح کے ہوتے ہیں۔

ریاست، ملک اور حکومت اپنے شہریوں کی کس طرح عزت کرتی ہے۔ مگر یہاں ہم ہر سطح پر ذلت کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ جب غیر ممالک میں جا کر عام شہری کے حقوق، آزادی اور عزت کو دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ کیا ہمارا ملک جہنم کا کوئی حصہ ہے؟ بہر حال یہ لاشیں دو بچیوں کی ہیں۔ ایک کا نام عروج عباس ہے، جس کی عمر صرف اور صرف اکیس برس کی ہے اور دوسری انیسہ عباس ہے جو چوبیس سال کی ہے۔

اب سنیے کہ ان معصوم بچیوں نے کتنا بڑا گناہ کیا تھا۔ شاید پندرہ بیس ارب روپے کا غبن کیا ہو، یا ہمارے روایتی قبضہ گروہوں کی طرح کسی کی قیمتی زمین پر قبضہ کر لیا ہو، یا انھوں نے کسی وزیر یا وزیراعلیٰ یا بڑے آدمی کا فرنٹ مین بننا چاہا ہو گا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ عروج اور انیسہ کا جرم بالکل کچھ اور ہے۔ انھوں نے زبردستی کی ہوئی شادیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے طلاق مانگی تھی۔ ہوا کیا ہے۔

ان دونوں کے والدین اسپین کے شہری ہیں اور دونوں بچیاں بھی اسپین کی ہی شہریت رکھتی ہیں۔ پچھلے برس، گجرات شہر کے نزدیک جدی گاؤں میں اسپین سے لایا گیا۔ عروسی جوڑے دیے گئے۔ اور پھراپنے فرسٹ کزنزسے نکاح کر دیا گیا۔ نکاح مکمل طور پر دونوں کی مرضی کے بغیر ہوا تھا۔ مگر وہی روایتی منحوس جذباتیت کہ والد کی عزت کا سوال ہے۔ بس ہاں کر دو۔ ہمارے معاشرے میں ہوتا ہی ایسے ہے۔

مختلف حیلے بہانوں سے لڑکیوں سے نکاح خواں کے سامنے ہاں کروا دی جاتی ہے۔ یہاں بھی بالکل یہی ہوا۔ دونوں بچیوں کو زبردستی ان کے قریبی عزیزوں کے بچوں کے نکاح میں دے دیا گیا۔ رخصتی نہیں ہوئی۔ کیونکہ مقصد، کوئی بہتر خانگی زندگی کی ابتداء کرنا نہیں تھی۔ بلکہ مبینہ شوہروں کو اسپین کی شہریت دلوانا تھا۔ خیر، اس جبری واقعے کے بعد عروج اور انیسہ واپس چلی گئیں۔

موجودہ مہینے کے دوسرے ہفتے میں والدین انھیں بہلا پھسلا کر واپس پاکستان لے آئے۔ جب دونوں بچیاں، ایئرپورٹ پر پہنچیں توقطعاً اندازہ نہیں تھا کہ ہر قدم، انھیں موت کی گھاٹی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ گاؤں پہنچیں توان کے ماموں نے گھر بلایا۔ بڑے پیار سے کہا کہ یہ تمہارے خاوندوں کے امیگریشن کاغذات ہیں۔ ان پر دستخط کر دو تاکہ یہ بھی اسپین جا سکیں اور وہاں کے شہری بن جائیں۔ عروسہ اور انیسہ دونوں فیصلہ کر چکی تھیں کہ ان جاہل مردوں کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتیں۔ کاغذات پر دستخط کرنے کے بجائے، اپنے خاندان والوں کو کہا کہ وہ طلاق چاہتی ہیں۔

ہرگز ہرگز امیگریشن کے کاغذات پر دستخط نہیں کریں گی۔ جواب گھر کے افراد کے لیے ناقابل قبول تھے۔ قریبی ترین عزیزوں نے دونوں بچیوں پر بھرپور تشدد کیا۔ خوب مارا پیٹا اور زبردستی کاغذات پر دستخط کروانے کی کوشش کی۔ جب عروسہ اور انیسہ، اس ظلم کے سامنے بھی نہ جھکیں۔ تو پھر وہی ہوا جو ہمارے جیسے ادنیٰ معاشروں کا خاصہ ہے۔ دونوں حوا کی بیٹیوں کو بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

قتل کرنے کے بعد، گھر کے تمام افراد بڑے آرام سے فرار ہو گئے۔ اور لاشیں ویسی کی ویسی بے کار فرنیچر کی طرح چھوڑ گئے۔ خیر، ہونا کیا ہے۔ تھوڑی سی سرکاری کارروائی ہوئی، ایف آئی آر درج ہوئی اور بچیوں کی لاشیں ماں کے حوالے کر دی گئیں۔

یہ واقعہ دو دن قبل، گجرات کے نواحی گاؤں ہتھیال میں ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ Honour killig یعنی غیرت پر قتل کا واقعہ ہے۔ یہ خبر ایک دو دن کے لیے اہم رہے گی۔ پھر اس، امن پسند ملک میں کوئی اور مہیب حادثہ ہو جائے گا۔ نتیجہ یہ کہ دو بچیوں کے قتل کا دلخراش واقعہ کسی بھی اہمیت کا حامل نہیں رہے گا۔ پولیس رسمی کارروائی کرے گی۔ پیشہ ور وکیل، عدالتوں میں کیس کو اس طرح الجھائیں گے کہ ثابت ہو جائے گا کہ اصل مجرم تو عروسہ اور انیسہ تھیں۔

انھوں نے انتہائی خوشی سے اپنے سر پر پستول سے گولیاں ماری۔ اور پھر اپنے جسم کو گولیوں سے چھلنی کیا اور نتیجہ میں خود ہی اپنے آپ کو قتل کر دیا۔ میری بات لکھ لیجیے۔ دو چار سال کے عرصے میں ہمارے بیکار نظام انصاف میں تمام قاتل بری ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ فاضل جج صاحب فیصلہ میں یہ بھی تحریر فرما دیں کہ یہ قتل بالکل نہیں تھا بلکہ خاندانی جھگڑے یا جائیداد کے مسئلہ پر دونو ں بچیوں نے اپنے خاندان سے مالی فوائد لینے کی کوشش کی۔ ناکامی کی صورت میں اپنے ماموں اور عزیزوں کو قتل کرنے کی کوشش کی۔

جوابی کارروائی میں، دونوں بچیاں اپنی غلطی کی بدولت ماری گئیں۔ سارا قصور صرف اور صرف عروج اور انیسہ ہی کاہے۔ آپ میں سے ہر ایک سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ غیرت کے نام پر قتل کا مطلب کیا ہے۔

چلیے، اس سے بھی سادہ سوال سامنے رکھتا ہوں۔ غیرت کا اصل مطلب اور مقصد کیا ہے۔ ایک قوم، جس میں ہر شخص دوسرے کی جیب کاٹنے پر مصر ہوں۔ جہاں کمزور آدمی کو کوئی حکومتی یا غیر حکومتی سہولت میسر نہ ہو۔ پورے کا پورا نظام ذاتی مالی فوائد پر کھڑا ہو۔ جہاں فخر سے کہا جاتا ہو کہ فائل کو پہیے لگا دیے ہیں، یعنی بابو کو رشوت دے ڈالی ہے اور اب کام ہو جائے گا۔

جہاں عوامی نمایندے چند کروڑ روپوں کے لیے اپنی سیاسی پارٹیوں سے غداری کے مرتکب ہوں۔ جہاں ہر ایک کو معلوم ہو کہ عدالت میں پھانسی لگنے کے بعد ملزموں کے کیس سننے کی باری آتی ہو۔ جہاں دودھ سے لے کر انسانوں تک میں ملاوٹ ہو۔ جہاں مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیا جائے، وہاں ذرا غیرت کا مطلب مجھ جیسے ناقص العقل کو سمجھا دیجیے۔

صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ خدارا، غیرت کا مطلب بتا دیجیے۔ اور پھر یہ صرف صنف نازک کے ساتھ ہی کیوں منسوب ہے۔ کیا غیرت صرف اور صرف لڑکیوں کے ذاتی مسائل تک ہی محدود ہے۔ کیا آپ نے سنا ہے کہ غیرت کے نام پر کسی مرد کو قتل کر دیا گیا ہو، کم از کم خاکسار کو ایسا کچھ بھی کبھی نظر نہیں آیا۔ تو بتایئے نا، غیرت صرف اور صرف عورت سے ہی منسلک کیوں ہے۔ اس سے بڑی ناانصافی کیا ہو گی کہ ہم ہر ظلم صرف اس طبقے پر کرتے ہیں، جس کی اکثریت اپنی بھرپور حفاظت نہیں کر سکتی۔ جو نسبتاً کمزور گردانا جاتا ہے۔ ہمارے عظیم مذہب جسے میں دنیا کا سب سے بڑا فکری انقلاب سمجھتا ہوں۔

کیا اس میں عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بالکل ہے۔ پھر کیا عورت اگر شوہر کو پسند نہیں کرتی، نکاح میں اس کی رضا مندی زبردستی ہوئی تھی، تو کیا اسلام طلاق کا حق عورت کو نہیں دیتا؟ بالکل دیتا ہے۔ نکاح کے دوران عورت کی بلا شرط رضا مندی، خاندان کی نسلی بقاء کی بنیاد ہے۔ عورت کو طلاق کا مذہبی، سماجی اور معاشرتی حق حاصل ہے۔ پھر یہ غیرت کے نام پر مسلسل قتل و غارت کس وجہ سے ہے۔

اب ایک تکلیف دہ پہلو کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ ہمارے تارکین وطن حد درجہ قابل عزت ہیں۔ وہ ہمارا قومی سرمایہ ہیں۔ ان کے دیے ہوئے پیسوں سے ملک چلتا ہے۔ مگر ہمارے تارکین وطن کی اکثریت مغربی دنیا سے ہر فائدہ تو اٹھاتے ہیں۔ مگر فکری طور پر کبھی بھی وہاں کے سماجی رویوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ رہتے وہ نیویارک یا پیرس میں ہیں۔ مگر ان کے اندر، اپنے گاؤں یا قصبے کی طرح رہنے کا طریقہ بہر حال کسی نہ کسی طرح موجود رہتا ہے۔ مگر ان کی اولاد اس دو عملی کوقبول نہیں کرتی۔ وہ تو اپنے آپ کو مغربی ممالک کے حقیقی شہری سمجھتے ہیں اور یہاں سے وہ کشمکش شروع ہوتی ہے۔

جس کا نشانہ عروج اور انیسہ جیسی بچیاں بنتی ہیں۔ خدارا اپنی بچیوں کو جعلی غیرت کے نام پر قتل نہ کریں۔ شاید میری آواز کسی جگہ کارگر ہو جائے اور حوا کی بیٹیاں اپنی مرضی سے سانس لے سکیں۔