Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Asal Iqtedar Sarkari Mulazmeen Ke Pas Rehta Hai

Asal Iqtedar Sarkari Mulazmeen Ke Pas Rehta Hai

پنجاب کے ایک سابقہ وزیراعلیٰ انتہائی کم گفتگو کرتے تھے۔ خاموشی سے لوگوں کی باتیں سننے پر عبور حاصل تھا۔ بہت سوچ سمجھ کرجواب دیتے تھے۔ دیہی علاقوں کی سیاست سے اُبھرا ہوا انسان، جسے جوڑتوڑکی سیاست حددرجہ بہترآتی تھی۔ انھوں نے وزارت اعلیٰ بھی، پنجاب کی سیاست پرمکمل کنٹرول کرنے والے خاندان سے حاصل کی تھی۔ سیاسی تلخیاں عروج پر تھیں۔ اخبارات آج کل کی طرح، زندہ باد، مردہ بادکی بنیاد پر تقسیم ہوچکے تھے۔

وہی روایتی گلے شکوے۔ جمہوریت خطرے میں ہے۔ ملک ڈوب رہاہے، اسے بچانا ضروری ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کوآل شریف سے زیادتی کرکے چھیناگیاہے؟ وہی دل آزاری والی جذباتی گفتگو جسکامقصدصرف ایک تھااورہے کہ حکومت کرنا تو صرف ہماراحق ہے۔ یہ درمیان میں کون آگئے۔ مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ پچیس سال پہلے کی بات ہے۔ سرکاری نوکری کے ابتدائی دنوں میں تھا۔ معلوم نہیں کیسے کہ قرعہ فال میرے نام نکل آیااورڈپٹی سیکریٹری بنکر وزیراعلیٰ ہاؤس پہنچ گیا۔ دفترمال روڈپرواپڈاہاؤس کے بالکل سامنے تھا۔

دراصل یہ "فری میسن ہال"کی بلڈنگ تھی جوآج بھی وزیراعلیٰ کاسب سے بہترین دفتر ہے۔ خیرجب، اقتدارکے اس اصل ایوان میں پہنچا، تودنیا بالکل مختلف تھی۔ قاعدے کے مطابق جب وزیراعلیٰ کوئی بھی ملاقات کرتے تھے توڈپٹی سیکریٹری کی سطح کاایک افسر، نوٹس لیتارہتاتھا، جوبھی احکامات موصول ہوتے اسے فوری طور پرمتعلقہ محکموں کوبھجوانامقصودتھا۔ میں بھی کبھی کبھی نوٹس لینے کے لیے وزیراعلیٰ کی کرسی کے پیچھے والی نشست پربیٹھ جاتاتھا۔ ویسے آج کل بھی یہی معمول ہے۔ اسی طرح ایک دن، ایک سرکاری میٹنگ تھی۔ ایک سیکریٹری صاحب، جنکی شہرت حددرجہ سخت گیرافسرکی تھی، وزیراعلیٰ سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ سیکریٹری صاحب ہارورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے۔ کبھی بھی ان کے چہرے پرمسکراہٹ نزدیک سے نہیں گزری تھی۔

ماتحت عملہ سے ہروقت غصہ والا سلوک روارکھتے تھے۔ بہر حال کمرے میں صرف تین لوگ تھے۔ وزیراعلیٰ، موصوف اوریہ طالبعلم۔ جب گفتگو شروع ہوئی تومجھے حد درجہ ذہنی جھٹکالگا۔ وہ شخص، جو ہمارے جیسے جونیئرافسران کے لیے انتہائی سخت رویہ رکھتا تھا۔ وزیراعلیٰ کے سامنے کسی اورروپ میں تھا۔ حددرجہ نرم، مودب اوردرباری طرزکی گفتگو۔ مجھے یقین ہی نہیں آیاکہ یہ وہی سیکریٹری ہے جس کے رعب ودبدبہ سے سب گھبراتے ہیں۔ موصوف کی زبان سے عالی مرتبت، جناب عالیٰ اوراسی قبیل کے الفاظ پھولوں کی طرح جھڑرہے تھے۔

ملاقات کے درمیان، ویٹرنے فریش جوس پیش کیا۔ کرسٹل کے بہت خوبصورت گلاسوں میں لایا گیا تھا۔ جوس میز پر مودب طریقے سے رکھ کرویٹر خاموشی سے واپس چلا گیا۔ وزیراعلیٰ نے آرام سے جوس کا گلاس اُٹھاکرپیناشروع کردیا۔ اس کے بعدسیکریٹری صاحب نے ایک تاریخی فقرہ ادا فرمایا۔ کہ "جناب" وزیراعلیٰ صاحب، آپکاگلاس اُٹھانے کاطریقہ توبالکل وزیراعظم جیسا ہے۔

آپکو دراصل وزیراعظم ہونا چاہیے۔ آپکا اسٹائل حددرجہ زبردست ہے۔ یہ اتنی سطحی سی گفتگوتھی کہ مجھے یقین نہ آیا۔ مگرحقیقت یہی تھی کہ سیکریٹری صاحب، بیس منٹ، وزیراعلیٰ کووزیراعظم بننے کی ترغیب دیتے رہے۔ مبالغہ کی حدتک تعریف بلکہ خوشامدکرتے رہے۔ میرے لیے یہ حیرت انگیزواقعہ تھا۔ جب میٹنگ ختم ہوئی تووزیراعلیٰ کہنے لگے کہ یہ حددرجہ اچھا، نیک اورایماندارسیکریٹری ہے۔ اس کی پوسٹنگ مزیدبہترکرنی چاہیے۔ پوسٹنگ خیر کیا ہونی تھی۔

اس طرح کی متعددملاقاتوں کی تفصیل خاتون وزیراعظم تک پہنچ گئی۔ انھیں یقین دلایاگیاکہ پنجاب کا وزیراعلیٰ، پاکستان کاوزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ لہٰذااسے ہٹادیناچاہیے۔ بالکل ایسے ہی ہوا۔ وزیراعلیٰ فارغ ہوگیااوردوسراسیاستدان، اقتدارکے ایوان میں منتقل ہوگیا۔ اس کے ساتھ اپنے درباری افسروں کی ذاتی ٹیم تھی۔ یہ کھیل دوبارہ شروع ہوگیا۔

اس مختصرواقعہ کوعرض کرنے کے چند مقاصد ہیں۔ پہلی بات تویہ، کہ اخبارات اور میڈیا کی حد تک سیاستدانوں کے پاس اقتداررہتاہے۔ اصل طاقت، ان سرکاری افسروں کے پاس ہوتی ہے جووزیراعلیٰ، وزیراعظم یااس طرح کے بلندمنصبوں پر بیٹھے افرادکے نزدیک ہوتے ہیں۔ جنھیں، سیاستدانوں کااعتمادحاصل ہوتاہے۔ جوبھی سیاسی پارٹی حکومت میں ہو، اختیارہمیشہ سرکاری عمال کے پاس رہتاہے۔ بیس پچیس سال پہلے کا واقعہ آج بھی اسی طرح سچاہے، جیسے ماضی میں۔ سرکاری ملازمین کی اپنی گروہ بندی ہوتی ہے۔

اگرایک گروپ کا افسر ایوان اقتدار میں آجاتاہے توآہستہ آہستہ اسی گروہ کے تمام افسران انتہائی اچھی پوسٹنگز پرچلے جاتے ہیں۔ جب بھی وزیراعلیٰ کسی بھی پوسٹ کے لیے افسران کے متعلق پوچھتاہے تویہ لوگ، صرف اورصرف اپنے گروپ کے لوگوں کوایمانداراورمحنتی بیان کرتے ہیں۔ وہ تمام افسر جو ان کے نزدیک نہیں ہیں حددرجہ بے ایمان، کرپٹ اور وطن دشمن بتائے جاتے ہیں۔

سادہ سے طریقے سے میرٹ کوپسِ پشت ڈال کرصرف اپنے قریبی دوستوں کی صف بندی کی جاتی ہے۔ میرٹ کامجہول سالفظ استعمال کرکے لوگوں کویقین دلایاجاتاہے کہ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم ذات سے بالادست ہوکرفیصلے کرتے ہیں۔ حالانکہ وزیراعلیٰ کونوے فیصدسرکاری معاملات کاکوئی علم نہیں ہوتا۔ چندماہ میں یہ گروہ کسی بھی سیاستدان کوایسے گھیرلیتاہے کہ اس غریب کوپتہ ہی نہیں چلتاکہ دراصل اس کے اردگرد، سرکاری ملازموں کاایک گروپ، اقتدار پر قبضہ کرچکاہے۔ ہمارے ملک میں حکومتی اہلکار خوشامد پر چلتے ہیں۔

ان کا اوڑھنا بچھوناصرف اورصرف مبالغہ آرائی اورجھوٹی تعریف ہے۔ خوشامدایک ایسا موثر ہتھیار ہے، جسکواستعمال کرکے، بڑے سے بڑے آدمی کوچاروں شانے چت کردیا جاتا ہے۔ اس ہتھیارکومخصوص سرکاری بابو، اس کمال مہارت سے استعمال کرتے ہیں کہ اہم بندہ ایک "طلسم نگر"میں آجاتا ہے۔ وزیراعلیٰ یاوزیراعظم کی سادگی، محنت، درویشی، دیانت داری کے سچے جھوٹے قصوں کے ذریعے ایک ایسامافوق الفطرت ماحول بنادیا جاتاہے جس سے کوئی اعلیٰ منصب دار، متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خوشامدکے اس تیر بہدف کو جتنا مہارت سے سینئر سرکاری ملازم استعمال کرتے ہیں وہ ماضی کے دربارکاکوئی اعلیٰ قصیدہ گوبھی نہیں کرسکتا۔

دس سال مسلسل حکومت کرنے والے شہباز شریف بھی مخصوص افسروں کے چنگل سے آگے نہیں نکل سکے۔ پنتیس سالہ حکومتی تجربہ رکھنے والاوزیراعظم بھی صرف چند سینئربیوروکریٹس سے آگے نہیں دیکھ پایا۔ شائدآپ یقین نہ کریں۔ حکومت بدلنے سے کسی قسم کاکوئی فرق نہیں پڑتا۔ صرف اتنی تبدیلی ہوتی ہے کہ ایک گروپ کے افسر، دوسرے گروہ کے بابوؤں سے تبدیل کردیے جاتے ہیں۔ عوام، لوگوں کی بھلائی کا استعمال، عام لوگوں کوبیوقوف بنانے کے لیے بہت رکیک طریقے سے کیا جاتا ہے۔ مگر اس بار ایک حیرت انگیزنئی بات دیکھنے میں آئی ہے۔ موجودہ وزیراعظم اورانکی سیاسی ٹیم بالکل نوآموزاورناتجربہ کار تھی۔ لہٰذا، سینئرسطح پر سرکاری ملازم جوجال ایک سال میں بچھاپاتے تھے۔ اب وہ چار ماہ میں ہی مکمل ہوگیا۔

چند پرانے، آزمودہ، بابوؤں کو شفافیت کی بوتل میں بندکرکے ایسے مارکیٹ کیاگیاکہ اصل اقتدار، میاں صاحبان کی ٹیم کے چندلوگوں کے پاس واپس چلاگیا۔ کوئی بھی سیاستدان، شروع شروع میں، یا شائدآخرتک، بابوؤں کی اندرونی سیاست کونہیں سمجھ پاتا۔ اس لیے بھی کہ اس کے ذاتی کام کسی صورت میں نہیں رکنے دیے جاتے۔ جوبھی بابو، ایوان میں موجود ہوتا ہے۔ اسکافرض یہی ہوتاہے کہ پورے خاندان کے کام انتہائی ملائم طریقے سے ہوتے جائیں۔ بیگم صاحبہ کوخوش رکھا جائے۔ صاحب کی اَل اولادکے کام تابعداری سے کیے جائیں اور اس کے بعد، صرف اورصرف اپنے ہم خیال افسروں کو نوازا جائے۔

سوال ہے۔ موجودہ وزیراعظم اکثرمراحل میں ہزیمت کیوں اُٹھاتے ہیں؟ کیوں انھیں پہلی بارفیصلہ کرنے کے لیے " محدودمعلومات" کے سوا کچھ مہیا نہیں کیا جاتا؟ کیوں ان کے اردگردسرکاری حصار اتنی جلدی ایستادہ ہوگیاکہ وہ عملی طورپرمفلوج نظر آنے لگے ہیں؟ کیوں ان کے اردگردکے سیاسی ساتھی بے توقیر اور بے اثر قرار پائے؟ یہ سب کچھ ہر وزیراعظم، وزیراعلیٰ کے ساتھ تواتر سے ہوتا ہے۔

بھٹوجیساذہین انسان بھی، اپنے چند نزدیکی سرکاری اہلکاروں کے اثرمیں تھا۔ گزارش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کھیل کوسیاستدانوں کے لیے سمجھنا حددرجہ مشکل ہے۔ کہنے کو تواختیاران کے پاس ہوتا ہے۔ مگراقتدارمیں رہ کر "اصل اختیارات" ان کے پاس کبھی بھی نہیں ہوتے۔ تمام طاقت بابوؤں کے پاس ہوتی ہے اورانکاڈساہواپانی بھی نہیں مانگ سکتا۔ بدقسمتی سے معاملات اسی طرح جاری رہینگے۔ لہٰذاآپ آرام کیجیے۔ ملک کی فکرکرناآپکے بس کی بات نہیں۔ اگر حالات کے متعلق زیادہ پریشان یاحقیقت پسندہونگے تو ہو سکتا ہے کہ آپکو غدار قراردیدیاجائے۔ اس لیے بے فکر رہیے؟