ریاستی تکبرکو صرف ایک ٹھیس لگنی باقی تھی۔ یہ ہزیمت بھی ہونی تھی۔ یعنی افغانستان کی فوج کا تقریباً روز، چمن اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں حملہ کرنا اور ہمارے نہتے عوام کو شہید کرنا۔ کوئی ایسا دن نہیں جاتا جب افغان فوج بھاری اسلحہ استعمال کر کے ہمیں مزید خرابے میں مبتلا نہیں کرتی۔ زخموں پر نمک پاشی کے لیے ایک مصالحانہ سا بیان دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔
قیامت تو یہ ہے کہ بحیثیت ریاست ہم افغانی فوج کی بات مانتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ اب ہماری اندرونی کمزوریوں سے دنیا کے نحیف ترین ملک بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وزیراعظم ہر حملہ کے بعد، پہلے سے تیار شدہ بیان جاری کر دیتے ہیں۔ جو بے معنی سا لگتا ہے۔
مگر کیا اس معاملہ میں ہمیں چند سوالات نہیں پوچھنے چاہیے بلکہ یہ کہنا زیادہ مہذب ہوگا کہ کیا اب بنیادی محرکات جانچنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پہلے تو جن بزرجمہروں نے افغانستان کو Strategic depth گردانا تھا۔
فرمایا تھا کہ ہمسایہ ملک، پاکستان کو عسکری گہرائی مہیا کرتا ہے۔ کیا ان سے دریافت نہیں کرنا چاہے کہ جناب Strategic depth کی پالیسی تو مکمل طور پر پاکستان کی قومی سالمیت کے خلاف نکلی۔ اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ملک، افغانستان کے لیے دفاعی خندق بن چکا ہے۔ سچ اور حقیقت سے ہماری حکومت اور عوام کا کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔
دوسری بات کا ذرا جواب دیجیے کہ جب امریکی افواج نے کسی بھی لڑائی کے بغیر افغانستان کو ایک قومی پالیسی کے تحت چھوڑا تھا۔ تو ہمارے ہاں، متعدد دانشوروں اور "مہربانوں" کے علمبرداروں نے خوشیوں کے شادیانے بجائے تھے کہ الحمدللہ، افغانستان پر حقیقی اسلامی قوتوں یعنی طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے، لہٰذا ہمارا بارڈر بالکل محفوظ ہو چکا ہے۔
دہشت گردی بھی عملاً ختم ہو جائے گی۔ ہمارے چند مذہبی دانشوروں نے تو طالبان کی حکومت کو قرون اولیٰ کی اسلامی فتوحات کے برابر رتبہ دے ڈالا، مگر جو کچھ کہا گیا تھا آج کے حالات اس کے بالکل متضاد ہیں۔ افغان حکومت ہر طور پر پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہے۔
ہندوستان سے ان کی موجودہ قربت، سابقہ صدر اشرف غنی کے برابر ہی ہے۔ شاید انیس بیس کا فرق ہو۔ افغانی وزیرخارجہ نے ہندوستان سے ہر قسم کی تجارت کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ تمام دہشت گرد تنظیمیں، جو پاکستان کے خلاف کام کر رہی ہیں جنھیں ہندوستانی حکومت کی بھرپور معاونت شامل ہے۔
طالبان حکومت، حد درجہ دوستانہ طریقہ سے برداشت کر رہی ہے۔ القاعدہ اور دیگر متعدد دہشت گرد رہنما، بڑے سکون سے کابل میں براجمان ہیں۔
یعنی انھیں حکومتی حفاظت حاصل ہے۔ چند ہفتے پہلے امریکی ڈرون سے مرنے والا مرکزی کردار، اطمینان سے کابل میں اپنے خاندان سمیت امن سے رہ رہا تھا۔ ہمارے سفارت کار بھی اب کابل میں محفو ظ نہیں ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ آج بھی حقیقت تسلیم نہیں کی جارہی مگر نقصان در نقصان اٹھانے کے باوجود ہماری ریاستی پالیسی پاکستان کے مفادات کے برعکس لگتی ہے۔
کیا افغان حکومت کی آشیر آباد کے بغیر، تحریک طالبان پاکستان میں دہشت گردی کر سکتی ہے۔ بالکل نہیں۔ معاملات میں ہماری اندرونی کمزوری دیکھیے کہ ہم دہشت گردوں سے ریاستی سطح پر مذاکرات کرتے ہیں۔ صلح کرتے ہیں اور ان کی سرکشی دیکھیے کہ اس صلح کو ایک خاص مدت کے بعد ٹھوکروں سے ضایع کر دیتے ہیں۔
ہمارے نوجوان بچے روز شہید ہو رہے ہیں اور ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبائے بیٹھے ہیں کہ سب کچھ درست سمت میں جا رہا ہے۔ دنیا کی مضبوط سے مضبوط فوج بھی اگر اپنے ملک میں دہشت گردی کی لپیٹ میں آ جائے تو یہ حد درجہ المناک بات ہے۔
ہمارے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ بلوچستان اور کے پی میں دہشت گرد، موت کا کھیل کھل کر کھیل رہے ہیں، اور ان سے ہمدردی رکھنے والے فکری دہشت گرد کراچی سے لے کر پاکستان کے ہر کونے میں موجود ہیں۔ ضیاء الحق نے جو مذہبی سوشل انجینئرنگ کی تھی، وہ اب عروج پر ہے۔ مذہب کو صرف ایک سیاسی یا سماجی نعرہ بنا دیا گیا ہے۔
اسلام کے انقلابی احکامات کا عملی وجود، ملک کے ایک انچ میں بھی موجود نہیں ہے۔ یقین نہ آئے تو کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ سے لے کر ہیبت ناک کرپشن تک چلے جایئے۔ آپ کو ایک کام بھی اسلام کی تعلیمات کے مطابق نظر نہیں آئے گا۔ ہاں لفاظی اور تلقین و وعظ عروج پر ہیں۔ کسی میں اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ ضیاء الحق کے موجودہ پاکستان پر معمولی سا اعتراض کر سکے۔ معاملات درست کرنا تو خیر دور کی بات ہے۔
آج بھی ہمیں انتہائی ڈھٹائی سے باور کروایا جا رہا ہے کہ یہود و ہندد کی سازش سے ہمارے ملک کو برباد کیا جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ادنیٰ بیانیہ کامیابی سے ذہنوں میں بٹھا دیا گیا ہے کہ ہماری تباہی میں ہمارا اپنا تو کوئی ہاتھ نہیں۔ یہ سب کچھ تو یہودی اور ہندو ایجنڈا ہے۔
پر ذرا جواب دیجیے۔ کہ کیا حکمرانوں کی اربوں روپے کی کرپشن، ہندوستانی وزیراعظم کے ایما پر ہو رہی ہے؟ کیا ناانصافی پر مبنی عدالتیں اورصفت انصاف سے مبرا نظام، اسرائیلی وزیراعظم کے احکامات پر کام کر رہا ہے؟ کیا استعمال کی ہر شے میں ملاوٹ، ہمارے خلاف ہندوؤں کی سازش ہے؟ کیا ملک میں مذہبی شدت پسندی کو ترویج دینے میں را کا ادارہ کام کر رہا ہے؟ صاحبان، سب کچھ، جناب سب کچھ ہمارے ہی لوگ، ہمارے ہی حکمران، بلکہ ہمارے ہی مہربان کرتے رہے ہیں، اور آج بھی کر رہے ہیں۔
تمام غلطیوں کی ابتدا اور انتہا، ہم نے خود کی ہے۔ اجتماعی خودکشی میں ہم سب شامل ہیں۔ قانون قدرت ہے کہ کمزور ریاستوں کے مخالفین ان پر وار ضرور کرتے ہیں۔
مگر کیا کمزور ریاست بننے میں ہمارا اپنا کوئی قصور نہیں ہے؟ سوچ کر جواب دیجیے۔ ہم لوگوں نے اپنے ملک کے ساتھ وہ سب منفی کام کر ڈالا ہے جو بدترین دشمن نہیں کر سکے۔ بلکہ اب تو انھیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی مکمل تباہی کے لیے ہم خودکفیل ہیں۔
تصویر کے ایک اور رخ کی طرف دیکھیے۔ یہودیوں کی مکمل آبادی صرف پندرہ ملین ہے۔ 1901سے 1922 تک نو سو افراد کو نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ ان میں سے دو سو گیارہ افراد یہودی ہیں۔ دنیا کے مالیاتی نظام کے مالک یہی یہودی ہیں۔ طاقتور ترین میڈیا ہاؤس بھی انھیں کے ہیں۔ امریکا جیسا ملک بھی اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔
سچی باتیں لکھ رہا ہوں۔ اگر یہودی لابی اپنی آدھی سے بھی کم قوت استعمال کرے تو ہمارا وجود خطرے میں پر سکتا ہے۔ برا نہ منائیے گا۔ یہ اسلحہ جس پر ہم ناز کرتے ہیں کن اسلحہ ساز کمپنیوں نے بنایا ہے۔
جناب! اسلحہ ساز اداروں کا نوے فیصد، یہودی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے۔ ایف 16 بھی انھیں کارخانوں میں بنے ہیں۔ سنجیدگی سے بتایئے کہ کیا وہ چاہیں تو ہمارے جیسے ضعیف ملکوں میں کونسی قیامت نہیں ڈھا سکتے۔ اور جناب اگر وہ فیصلہ کر لیں تو ان کو روکنے والا کون ہے۔
پر نہیں صاحب! ہمارے ایک جید ترین مذہبی وسیاسی جماعت کے سربراہ امریکی سفارت خانے میں منتیں کرتے رہے کہ انھیں وزیراعظم بنایا جائے۔ جنھوں نے "میرٹ" پر اپنے رشتے داروں میں تمام کلیدی عہدے ریوڑیوں کی طرح تقسیم کیے۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے تھکتے نہیں ہیں۔ حالانکہ انھیں ہرمعاملے اور بگاڑ کا بخوبی اندازہ ہے۔
تلخ سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی اختلافات، کمزوریوں، حماقتوں اور مظالم کو بیرونی رنگ دے کر بری الزمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں، مگر یہ ناکام ترین پالیسی ہے۔ غور سے دیکھیے۔ چین اور سعودی عرب کی اسرائیل اور ہندوستان سے اربوں ڈالر کی تجارت ہے، مگر بے وقوف ہمیں بنایا جا رہا ہے۔
سی پیک جسے امرت دھارا بتایا جا رہا ہے، اس سے ہمارے ملک کو کتنا مالی فائدہ ہوگا۔ کسی کے علم میں نہیں ہے۔ اور ہمارے حکمران اتنے کمزور ہیں کہ بتا بھی نہیں سکتے۔ اب تک یہ معلوم نہیں کہ سی پیک کے ذریعے ملنے والی چینی رقم، قرض ہے یا گرانٹ! کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ پر سارا دن بغلیں بجائی جاتی ہیں۔ کہ واہ جی واہ، سی پیک ملک کی قسمت بدل دے گا۔ جناب، کوئی بیرونی طاقت یا ریاست، ہمارے ملک کو بہتر نہیں کر سکتی۔
یہ ان کے قومی مفادات کے خلاف ہے۔ ہم صرف اور صرف دورغ گوئی کے سہارے لوگوں میں جھوٹ تقسیم کر رہے ہیں، اگر کوئی سوال کرے تو وہ غدار یا کم از کم ملک دشمن قرار دیا جا سکتا ہے۔ معاملہ بالکل سادہ ہے۔ ہماری موجودہ تباہی صرف اور صرف ہماری اندرونی گھٹیا، عوام دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہے، مگریہاں کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں!